جی ۔ 20 میں کیا میڈیا آزاد ہے ؟

   

امجد خان
ہمارے ملک ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں آزاد پریس کی اشد ضرورت ہے جب تک صحافت آزاد نہ ہوگی عالمی مسائل کا حل ناممکن ہے ۔ مثال کے طورپر خود ہمارا ملک G-20 کی سربراہی کررہا ہے لیکن کیا اس سرزمین پر پریس آزاد ہے ؟ کیا میڈیا کو اس حکومت میں اس کی تائید و حمایت پر مجبور نہیں کیا گیا ؟ کیا میڈیا کا ایک بڑا حصہ خوف کے مارے حکومت کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہا ہے ؟ جہاں تک G-20 سربراہ اجلاس کا سوال ہے فی الوقت ہندوستان اس کا صدر ہے اور اس کی میزبانی بھی کررہا ہے جس طرح انڈیا میں صحافت کی آزادی خطرے میں ہے اسی طرح G-20 کے جو رکن ممالک ہیں اُن میں بھی صحافت کی آزادی خطرہ میں پڑی ہوئی ہے ۔
حیرت اس بات پر ہے کہ G-20 کے موجودہ صدر کو اور نہ ہی دوسری 19 حکومتوں کو میڈیا کی ’’آزادی ‘‘ پر بات کرنے میں کوئی دلچسپی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ حال ہی میں دارالحکومت دہلی میں M-20 انتظامی کمیٹی کے زیراہتمام آن لائن میڈیا فریڈم سمٹ کا انعقاد عمل میں آیا ۔ اس کمیٹی میں ہندوستان کے 11ایڈیٹرس اور سپریم کورٹ کے ایک سابق جج شامل ہیں۔ اس سمٹ میں دی وائر کے بانی اور ایڈیٹر سدھارتھ وردھا راجن نے G-20 بشمول ہندوستان میں صحافت کی آزادی پر بہت ہی پرمغز باتیں کی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ M-20 ایک ایسا گروپ ہے جسے صحافیوں نے اجتماعی طورپر اپنے اپنے ملکوں اور خطوں میں میڈیا کو درپیش چیلنجس سے نمٹنے اور اُن چیلنجس کا سامنا کرنے کیلئے بنایا ہے ۔ جہاں تکG-20 کا معاملہ ہے اس بارے میں وردھا راجن کا کہنا تھا کہ عالمی سیاست میں اکثر کثیرالجہت تنظیمیں انجمنیں اور ادارے وجود میں آتے ہیں اور اپنے اختتام کو بھی پہنچ جاتے ہیں یا بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ عصری معنویت سے محروم ہونے کے باوجود قائم و دائم رہتے ہیں یا اپنے ایجنڈہ میں نئے معنی اور مقصد شامل کرکے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔
آپ کی معلومات کیلئے یہ بتادیں کہ G-20 سال 2008 ء میں عالمی مالیاتی بحران ( معاشی انحطاط ) کے بعد وجود میں آیا تھا اور اس کے نسبتاً من مانے طورپر منتخب ارکان نے سماجی ، صنعتی اور ماحولیاتی جیسے شعبوں میں اپنے تعاون کا دائرہ بڑھانے کی پوری پوری کوشش کی ۔ اس کی سربراہی یا صدارت رکن ممالک کو باری باری سے ملتی ہے اس مرتبہ G-20 کی صدارت ہندوستان کے حصہ میں آئی اور ہندوستان کی یہ سربراہی (قیادت) G-20 گروپ کے ایجنڈہ کو وسیع کرنے اور گلوبل ساؤتھ کے نظریہ کوواضح طورپر پیش کرنے کی مثبت خواہش کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اُن بحث و مباحثے جو اس طرح کے دائرہ کو وسیع کرنے کیلئے انتہائی ضرورت ہوتے ہیں پر پابندی عائد کرنے حتیٰ کہ اُن پر قابو پانے سے متعلق حکومت کی خواہش بھی اس میں نظر آتی ہے ۔
وردھا راجن مزید کہتے ہیں ’’ہندوستان اور G-20 کے میڈیا کو کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے ۔ سب سے پہلے جبر اور پھر صحافت کو جرم قرار دینے کیلئے قانون کا غلط استعمال ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس کی بدترین مثال حالیہ عرصہ کے دوران کشمیر میں دیکھی گئی جہاں ایک نیوز پورٹل ’’کشمیر والا ‘‘ کو من مانی طورپر بند کردیا گیا ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کشمیر والا کے ایڈیٹر ایک سال سے زائد عرصہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ۔ اسی طرح کنساس میں برین کاؤنٹی ریکارڈ کے حوالے سے ایک رپورٹ کے سلسلہ میں مقامی پولیس پارٹی نے دھاوا کیا اور وہاں کے کمپیوٹرس اور آلات ضبط کئے ۔ انھوں نے روس اور چین کے حوالے سے کہا کہ روس اور چین جیسے اہم ترین G-20 ممالک میں آج آزاد میڈیااداروں کیلئے کام کرنا تقریباً محال ہوگیا ہے جبکہ G-20 میں شامل کئی ملکوں میں صحافیوں کی جاسوس کی گئی ۔ ان کی جاسوسی ویئر Spy Ware کے ذریعہ نگرانی کی گئی خود امریکہ جیسے ملک میں بھی صحافتی ادروں کو نشانہ بنایا گیا اور وہاں تحقیقات کے بارے میں عدم برداشت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ فن لینڈ میں بھی آزادی صحافت پر قدغن لگایا گیا ۔ غرض ہندوستان ہی نہیں G-20 کے دیگر ملکوں میں ذرائع ابلاغ پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور میڈیا حکومتوں کا آلہ کار بن کر ناانصافی اور حق تلفی کا باعث بن رہا ہے ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اٹلی ، میانمار ، برازیل ، جنوبی کوریا ، جاپان ، ہندوستان ، انڈونیشیاء ، جنوبی افریقہ ، ترکی ، آسٹریلیا ، فرانس ، برطانیہ ، لبنان اور کینیڈیا کے ممتاز مدیران نے اپنے خیالات ظاہر کئے اور سب کا یہی کہنا تھا کہ میڈیا یا صحافت کی آزادی کے بغیر دنیا کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا اور بعض حکومتیں میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو صرف اور صرف اپنے سیاسی مقاصد کیلئے مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کا کام کررہی ہیں۔ جھوٹ کی بنیاد پر مذہبی و نسلی منافرت کو فروغ دے رہی ہیں۔