جے این یو تشدد ۔ تحقیقات بے سمت

   

رویش کمار
جے این یو میں حالیہ تشدد میں نقاب پوش حملہ آوروں کے ساتھ جس لڑکی کو دیکھا گیا، کیا اُس کی شناخت ہوئی ہے؟ پولیس نے کچھ نہیں بتایا ہے۔ 5 جنوری کو تشدد پیش آیا۔ 10 جنوری کو دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے پریس کانفرنس منعقد کی، لیکن کسی کو اُس لڑکی کے تعلق سے نہیں معلوم کہ اُس کی شناخت کیا ہے جسے سابرمتی ہاسٹل میں لاٹھی کے ساتھ دیکھا گیا۔ اس لڑکی کی گفتگو بھی وائرل ہے لیکن پولیس اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہی ہے۔ لیکن Alt News ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اس نے لڑکی کی شناخت کرلی ہے۔ ہم اس کے بارے میں بعد میں بتائیں گے لیکن پہلے پریس کانفرنس کے سلسلہ وار واقعات کو سمجھتے ہیں جس کے آگے علم مذہب بھی ناکام ہوجاتا ہے۔
دہلی پولیس کرائم برانچ کی پریس کانفرنس میں معاملہ 5 جنوری کے تشدد سے کہیں آگے نکل جاتا ہے۔ جے این یو اڈمنسٹریشن کا بار بار دعویٰ ہے کہ لیفٹ (بائیں بازو) کے اسٹوڈنٹس نے یونیورسٹی املاک کو نقصان پہنچایا۔ یہ اڈمنسٹریشن کی طرف سے ابتداء سے کہا جاتا رہا ہے۔ لیفٹ کا الزام 4 تاریخ کے مبینہ تشدد کیلئے دیگر آرگنائزیشنس پر ہے۔ اسے ہجومی تشدد کہا گیا ہے۔ اس درمیان وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر کا بیان ٹی وی پر نشر ہوتا ہے جس میں وہ پولیس کی اطلاع پر نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ چند منٹ میں ایک اور وزیر سمرتی ایرانی ٹوئٹر پر ہیاش ٹیاگ شروع کرتے ہوئے جے این یو تشدد میں لیفٹ کے رول کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان تمام تبدیلیوں میں وزیر فروغ انسانی وسائل رمیش چندر پوکھریال خود کو علحدہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پولیس کی پریس کانفرنس میں کچھ کہتے ہیں، اور نہ ٹوئٹر ہیاش ٹیاگ بیانات کا حصہ بنتے ہیں۔
ابتدائی تحقیقات پر ہی ایک وزیر فیصلہ سنا رہے ہیں۔ پرکاش جاوڈیکر کہہ رہے ہیں کہ یوگیندر یادو کو تشدد کے بعد گیٹ پر دیکھا گیا۔ سیتارام یچوری بھی پہنچے۔ مرکزی وزیر اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ جے این یو گیٹ پر اے بی وی پی کے حامی یا ان کی پارٹی والے بھی تھے۔ شاید ہر کوئی جانتا ہے کہ میڈیا اس پریس کانفرنس کے بعد جامع تحقیقات نہیں کرے گا۔ ایک ہی روز کے دو ویڈیوز دستیاب ہوئے جو دکھا رہے ہیں کہ اے بی وی پی ممبرز لیفٹ کے ایک اسٹوڈنٹ کو پیٹ رہے ہیں۔ اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اے بی وی پی کا سرویندر کوما ’Aisa‘ کے وکاس پانڈے کو پیٹ رہا ہے۔ وہاں ایک پروفیسر بھی موجود ہے لیکن ایف آئی آر سرویندر کے خلاف نہیں ہے۔ کیا پولیس نے اس ویڈیو کو فضول سمجھا؟ اس ویڈیو میں پیریار کے وارڈن کو لال کرتا اور بادامی رنگ کے جیکٹ میں دیکھا گیا۔ تپن بہاری بھی ہے جو اے بی وی پی سے وابستہ رہا ہے۔ 4 جنوری کی ویڈیو میں پریہ درشنی کو بائیں بازو کے بجائے اے بی وی پی کے شیوم چورسیا کو مارتے اور ڈھکیلتے دیکھا جاسکتا ہے۔ لڑکوں نے شیوم کو بچایا۔ ان دو ویڈیوز کا کیا ہوا؟ کیا پرکاش جاوڈیکر اور سمرتی ایرانی ان کے بارے میں ٹوئٹ کرنا چاہیں گے؟
آپ یہ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہو کہ آئشی دوڑی آرہی ہے۔ کئی لوگوں کے چہروں پر ماسک نہیں ہے۔ پھر بھی ایک اسٹوڈنٹ کا چہرہ ماسک سے چھپا ہوا ہے، مگر اُس طرح نہیں جیسے 5 جنوری کے تشدد میں نقاب پوش حملہ آوروں نے ماسک لگا رکھے تھے۔ اسی ویڈیو سے تصویر حاصل کرتے ہوئے دہلی پولیس نے آئشی گھوش، چنچن کمار، پنکج مشرا، واسکر وجئے، ڈولن سامنت، سچیتا تعلق دار کو تشدد میں اُن کے مبینہ رول کی پاداش میں ماخوذ کیا۔
4 جنوری کے ویڈیو کا بنیادی ذریعہ کیا ہے جس کی اساس پر آئشی کو پیریار میں حملہ آور قرار دیا گیا؟ یہ ویڈیو کس شخص نے ریکارڈ کیا ، واضح نہیں ہے۔ پریس کانفرنس میں ڈی سی پی کو بتانا چاہئے تھا کہ ویڈیو کس نے ریکارڈ کیا جس کی بنیاد پر آئشی کو نوٹس جاری کی جارہی ہے۔ پریس کانفرنس میں سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔ یہ یکطرفہ پیشکشی رہی۔ یعنی پولیس آفیسر خود سے بات کرلینے کے بعد چلے گئے۔ اُس تصویر کی بات کرتے ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آئشی گھوس کو گھیر لیا گیا ہے۔ تصویر پر بڑے سرخ باکس میں لکھا گیا ہے کہ اپنا سرخ بیاگ تھامی صدر جے این یو اسٹوڈنٹس یونین نقاب لگا کر پیریار ہاسٹل میں تشدد مچاتے ہوئے کامریڈز گینگ کی قیادت کررہی ہے۔ لہٰذا، محض آئشی کی سرخ رنگ والی تصویر کی بنیاد پر اسے گینگ لیڈر کہا جارہا ہے۔ تصویر میں کوئی ہتھیار دکھائی نہیں دے رہا۔ کیا ریڈ بیاگ کو ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن جب ڈی سی پی جوائے یوگیندر بھردواج کی تصویر شیئر کرتے ہیں، صرف یوگیندر کا نام لکھا ہے۔ بھردواج کا نام واٹس ایپ گروپ ’یونیٹی اگینسٹ لیفٹ‘ کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ اس گروپ میں گفتگو ہے جو یوگیندر کے نمبر سے لکھی گئی کہ لیفٹ والوں کو پکڑ کر ہلاک کردینا چاہئے۔ یوگیندر شوریہ بھردواج جے این یو میں اے بی وی پی کا جوائنٹ سکریٹری 2017-18ء میں تھا۔ دہلی پولیس نے اے بی وی پی کا نام تک نہیں لیا۔ پولیس نے اے بی وی پی کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟ کیا یہ اس لئے کہ مرکزی وزیر سمرتی ایرانی لیفٹ کا نام لیتے ہوئے تیزی سے ہیاش ٹیاگ شروع کرسکتی ہیں؟ وزیر خواتین و بہبود اطفال سمرتی ایرانی نے جے این یو تشدد کے پس پردہ بائیں بازو ملوث ہونے کا ہیاش ٹیاگ شروع کیا۔ انھوں نے ہیاش ٹیاگ تو شروع کردیا لیکن اُن کی وزارت کا جے این یو سے تعلق نہیں۔
ڈی سی پی نے پہلے وکاس پٹیل کی تصویر دکھائی۔ بلیو شرٹ اور یلو سوئٹ شرٹ میں ملبوس۔ جیسے ہی یہ تصویر پیش کی گئی، معلوم ہوا کہ یہ شیو منڈل ہے۔ پھر دہلی پولیس نے وکاس پٹیل کی تصویر دکھائی۔ اس میں اسے ایم اے کوریان کا اسٹوڈنٹ بتایا گیا۔ پولیس نے نہیں کہا کہ وہ اے بی وی پی سے وابستہ اسٹوڈنٹ ہے۔ وکاس پٹیل موجودہ طور پر اے بی وی پی ایگزیکٹیو کا ممبر ہے۔ گزشتہ سال وہ جے این یو کا اے بی وی پی وائس پریسیڈنٹ تھا۔ بعد میں پولیس نے شیو منڈل کی تصویر غائب کردی، حالانکہ یکساں تصویر وکاس پٹیل اور شیو منڈل اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں لئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ شیو منڈل کی تصویر دوبارہ جاری کیوں نہیں کی گئی، پولیس نے وضاحت نہیں کی۔
دہلی پولیس نے ہی پہلے کہا تھا کہ جامعہ میں کوئی گولی نہیں چلائی گئی، لیکن میڈیا میں رپورٹ آئی کہ گولی چلائی گئی۔ یہ نیوز بھی ’اکسپریس‘ کے حوالے سے آئی کہ پولیس نے اعتراف کیا کہ گولی چلائی گئی۔ کیا دہلی پولیس پیشہ ورانہ انداز میں کام کررہی ہے؟ دہلی پولیس نے پریس کانفرنس میں کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ ورنہ سوال پوچھا جاسکتا تھا کہ جب حملہ آور سابرمتی ہاسٹل میں اپنا کام کرکے فرار ہورہے تھے تب کیا پولیس آرام کررہی تھی؟ ایف آئی آر کے مطابق انسپکٹر رینک کا آفیسر سابرمتی ہاسٹل پہنچا تھا۔ کیوں حملہ آوروں کا تعاقب نہیں کیا گیا؟ پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور سابرمتی ہاسٹل میں تشدد کے بعد جنگل میں فرار ہوگئے۔ ان کا جنگل میں تعاقب کیوں نہیں کیا گیا؟
پروفیسر سچیتا سین نے بھی ایف آئی آر درج کرایا ہے۔ اس بارے میں کیا پیشرفت ہوئی، ابھی نامعلوم ہے۔ 25 ٹیچر وں نے 5 جنوری کے تشدد کے تعلق سے پولیس شکایت درج کرائی ہے۔ اس بارے میں کیا ہوا، اس کا تحقیقات میں انکشاف ہوگا۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہوا ہے لیکن مرکزی حکومت کے وزراء ہیاش ٹیاگ مہم میں مصروف ہیں۔ جے این یو ایس یو کی آئشی گھوش نے بھی تشدد کے بعد شکایت کی ہے لیکن ابھی کوئی ایف آئی آر درج نہیں کیا گیا ہے۔ پولیس نے یہ تک نہیں کہا ہے کہ کس نے آئشی کو اس قدر شدید مارا ہے۔ پولیس نے کہا کہ کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب نہیں ہے۔
ravish@ndtv.com