حضرت ابن عباسؓ

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
آج کے فکری انتشار کے دور میں قرآن حکیم کو سیرت رسولؐ، سیرت صحابہؓ اور قرونِ اولیٰ کی اجتماعی زندگی کی روشنی میں سمجھنا بہت ضروری ہو گیا ہے تاکہ ہم آج کے مادہ پرستی اور خود غرضانہ ماحول کے پھیلائے ہوئے، پرو پگنڈے سے محفوظ رہ سیکھیں۔ اُس کیلئے ہمارے پاس سب سے قابل اعتماد ذریعہ جماعت صحابہؓ ہے جو اعلان خداوندی رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمْکی حامل اور رسول اللہ کی طرف سے أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ کی خطاب یافتہ ہیں اور ہمارے لئے بلا شبہ معیار حق و صداقت ہیں ۔ ہمارے مفسرین نے اپنی تمام تفسیرات میں جماعتِ صحابہؓ کی ہی پیروی کی ۔ تفسیر قرآن میں آنحضرت ﷺ کے چچا زاد برادر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی قرآن فہمی کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے ۔ قرآن کریم رب العالمین کا عطا کردہ وہ نسخہ کیمیا ہے جس کی بنیاد پر رحمت للعالمین نے صالحین اور راشدین کے ایسے گروہ کو تیار کیا۔’’اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا۔اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا ‘‘ (حالی ) جنہوں نے دنیا کو صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ دیا (سورۃ البقرہ ) جو انسانیت کیلئے نجات دہندہ ثابت ہوئی ۔ قرآن کریم سے وابستگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔
حضرت ابن عباس ہجرت سے تین برس قبل اُس وقت پیدا ہوئے جب حضورؐ کفار مکہ کے مقاطع کے سبب شعاب ابی طالب میں محصور تھے۔ آپؓ کے والد نے انہیں حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا آپؓ نے انہیں اپنے دہن مبارک سے چبائی ہوئی کھجور سے گٹھی (تحنیک) دی۔ گویا اس دنیا میں آپؓ کی پہلی خوراک حضور کا لعاب مبارک اور آپؐ کی پس خوردہ کھجور تھی۔ اللہ اللہ! گویا اس امر کا اشارہ تھا کہ اس بچہ کو امام المفسرین بنا کر اس مستفیض رحمۃللعالمینؐ کا فیضِ علم سارے جہاں میں پھیلے گا ۔ حسب نسب کے اعتبار سے آپؓ اُم المؤمنین حضرت میمونہؓ کے سگے بھانجے تھے۔ اس حوالے سے حضورؐ آپ کے خالو بھی تھے ۔ اس طرح سے شانِ نبوت تک براہ راست رسائی تھی ۔ روشن چہرہ، گندمی رنگ ، لمباقد، گھنے بال ، آپؓ اتنے حسین اور وجیہہ تھے کہ لوگ چودھویں کے چاند کو دیکھ کر آپؓ کی یاد کرتے۔ (سیر اعلام النبلاء )
ہجرت کے بعد تو آپؓ کو سگی خالہ حضرت میمونہؓ کے توسط سے کاشانۂ نبوت کے اندر کے معمولات اور حضور ؐکی بھی محبتوں سے جس طرح آپؓ فیض یاب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو اتنے مواقع میسر نہ ہوسکے ۔ ابن عمرؓ سے ایک روایت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ ابن عباس کو اپنے ہاں بلاکر قریب بیٹھاتے اور فرماتے تھے کہ ’’میں نے رسول اللہ کو دیکھا ہے کہ آپؐ نے تمہارے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر تے ہوئے یہ دعا دی ’’اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّأْوِیْلَ ‘‘ (اے اللہ اسے دین کی خوب سمجھ اور تفسیر کا علم عطا فرما) (فتح الباری ابن حجر) حضورؐ کے اس دُنیا سے تشریف لیجانے کے بعد حضرت ابن عباسؓ نے خلفائے راشدین بالخصوص حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے خصوصی استفادہ کیا۔ حضرت عمرؓ تو خود آپؓ سے بھی تشریحات قرآنی سُن کر استفادہ کرتے۔ اُمت نے آپؓ کو ’’ترجمان القرآن ‘‘ خطاب سے نوازا ۔ آپؓ اعلیٰ درجہ کے خطیب تھے ، قرآن فہمی تو آپؓ کا خصوصی میدان تھا۔ اس میں ایسے نکتے اور معارف بیان کرتے کہ انسان دنگ رہ جاتا ۔ مستدرک حاکم میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضورؐ نے ابن عباسؓ کے حوالے سے فرمایا ’’ نعم ترجمان القرآن ‘‘ یعنی ابن عباسؓ کیا خوب ترجمان ہیں ۔ حضورؐ جب حضرت میمونہؓ کے ہاں تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو اُنہیں فرماتے ’’ اُو ننھے تم بھی اُٹھ جاؤ‘‘ (بخاری کتاب العلم ) گویا چھوٹی عمر سے ہی حضورؐ نے کمالِ شفقت سے اُن کی تربیت فرمائی! حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے ’’ابن عباس ؓ تم میں سب سے زیادہ قرآن جاننے والے ہیں۔ آپؓ کے اسباب فضیلت کو مختصراً یوں لکھا جا سکتا ہے ۔ (۱)دعائے نبوت کا فیضان (۲) کاشانۂ نبوت میں تربیت (۳) کبارِ صحابہ کی صحبت (۴) طلبِ علم کا بے حد شوق (۵) بے مثال قوت حافظہ (۶)مرتبۂ اجتہاد پر فائز ہونا (۶)انتہائی نکتہ رس طبیعت ۔ امام بخاریؓ نے اپنی جامع الصحیح میں آپ ؓکی ۱۲۰ روایات لی ہیں۔ امام مسلم نے ۹۰۔ دیگر کتب احادیث میں آپؓ کی مرویات کی تعداد ۶۶۰ سے ۷۱۰ تک بیان کی گئی ہیں۔ اپنی عمر کا آخری حصہ آپؓ نے طائف کی وادی میں گذارا ۔ بالآخر یہ مفسر اعظم، ترجمان القرآن، دعائے نبیؐ کا فیض یافتہ پختہ فکر جوان ، قرآن کا سب سے بڑا عالم ، علم و عمل کا آفتاب ۷۱ برس تک اپنی علمی و فکری تابانیوں سے ایک عالم کو منور کرتا ہوا ۶۸ ہجری میں طائف کی وادی میں جا غروب ہوا۔
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ o وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ o