حضرت جبیرؓ بن مطعم کو قبول اسلام سے پہلے اور بعد رسول اللہؐ کی خدمت کا شرف ملا

   

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا لکچر

حیدرآباد ۔29؍ڈسمبر( پریس نوٹ) حدیبیہ میں صلح نامہ کی تحریر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تفویض ہوئی۔اس تحریر کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے پاس رکھا اس کی نقل قریش کے نمائندہ سہیل بن عمرو کو دی گئی۔اسی دوران حضرت ابو جندلؓ جو مکہ میں قید تھے، کسی طرح وہاں سے نکل کر حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سہیل بن عمرو نے انھیں دیکھ کر کہا کہ ’’یہ پہلا شخص ہے جس کے متعلق میں آپ سے صلح کی بناء پر مطالبہ کروں گا‘‘۔ حضور اکرمؐ نے ابو جندلؓ کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ ’’اے ابو جندل! ہمارے اور اس قوم کے درمیان صلح مکمل ہو گئی ہے۔ اس لئے تم صبر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کشائش کی سبیل پیدا کر دے‘‘۔جب صلح کی کاروائی تکمیل پائی تو رسول اللہؐ نے قربانی کی۔ حضرت خراش ؓ نے رسول اللہؐ کے سر اقدس کا حلق کرنے کی سعادت پائی۔ صحابہ کرام نے بھی قربانی کی اور ان میں سے زیادہ لوگوں نے اپنے اپنے سروں کا حلق کروایا یعنی بال مونڈوائے اور دوسروں نے بال کتروائے۔رسول اللہ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ ’’اللہ سر مونڈوانے والوں پر رحم کرے‘‘۔ تب صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ! اور بال کتروانے والوں پر؟‘‘۔ تب حضورؐ نے فرمایا کہ ’’بال کتروانے والوں پر بھی‘‘۔اکثر صحابہ کرام نے حضور انورؐ کے موئے مبارک کو محفوظ کر لیا۔ حضرت ام عمارہؓ کے پاس بھی موئے مبارک موجود تھے۔وہ بڑی احتیاط سے اپنے پاس رکھتی تھیں اور جب کوئی شخض بیمار ہوتا تو وہ ان بالوں کو پانی میں دھوتیں اور وہ پانی مریض کو پلا دیتیں جس سے اسے شفا حاصل ہوتی۔رسول اللہؐ دس روز سے زائد حدیبیہ میں مقیم رہے اور پھر مدینہ منورہ کی طرف مراجعت فرمائی ہوئی۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۳۸۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات صلح حدیبیہ پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ ۳۰:۱۱ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت جبیر بن مطعم ؓ کے احوال شریف بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت جبیرؓ کے والد مطعم بن عدی کفار قریش اور اعداء دین کے درمیان رہنے کے باوصف رسول اللہؐ کے زبردست حامی اور مخلص و خیر خواہ تھے اسی وجہ سے قریش کی نگاہوں میں کھٹکتے تھے لیکن انھوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور جب بھی ممکن ہوا رسول اللہؐ کی خدمت کا شرف پایا۔ مقاطعہ کے زمانے میں شعب ابی طالب میں قریش کی نظروں سے بچا کر اشیاء خورو نوش پہنچانا ان کا نمایاں کام رہا۔طائف سے واپسی کے بعد جب رسول اللہؐ نے اپنی آمد کی اطلاع بھیجی تو مطعم نے حضورؐانور کی حمایت کا اعلان کیا اور اپنے بیٹوں کو حضور اقدسؐ کی خدمت میں بھیجا تاکہ امکانی موانعت کی صورت میں حضور اقدسؐ کی قریش سے حفاظت کا فریضہ ادا کر سکیں۔ فرزندان مطعم میں جو خدمت تحفظ پر مامور ہوے ان میں خود حضرت جبیرؓ بھی شامل تھے۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت جبیر بن مطعم صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح عظیم مکہ مکرمہ سے پہلے دولت اسلام سے سرفراز ہو گئے۔ حضرت جبیرؓ کی کنیت ابو محمد تھی ان کے دادا عدی، نوفل بن عبد مناف قرشی کے فرزند تھے۔ حضرت جبیرؓ جہاں رقیق القلب، نرم مزاج، سخی و فیاض اور علم دوست تھے وہیں بڑے زور آور، بہادر اور ماہر حرب بھی تھے ۔قبول اسلام کے بعد معرکہ حنین میں ان کے مجاہدانہ کارناموں اور حوصلہ مندی کے مناظر عام تھے۔ حضرت جبیرؓ عابد شب ، زندہ دار، متقی و پرہیزگار تھے۔ اگر چہ کہ انھیں بہت ہی تھوڑی مدت کے لئے دربار رسالتؐ کی حاضری اور فیضان صحبت اقدس سے بہرہ مند ہونے کا شرف ملا لیکن اکتساب فیض خاص ان کا مقدر بنا اور ارشادات نبویؐ سے بہرہ مند ہونے کے شرف سے ممتاز ہوے انھیں بہت ساری حدیثیں حفظ ہو گئیں اور ان کی مرویات کتب احادیث میں ملتی ہیں۔ وہ عشق مولیٰ تعالیٰ اور محبت رسولؐ کے فیضان و اثر سے خوب نوازے گئے تھے۔ اطاعت حق تعالیٰ و اتباع رسالت سے ان کی کتاب حیات مزین تھی۔ عرب کے مروجہ علوم و فنون میں دسترس رکھتے تھے علم الانساب کے ماہرین میں ان کا شمار تھا۔ حلم و بردباری، مروت و رحمدلی، قناعت و صبر و استقلال، اخلاص و مداومت عمل میں آپ اپنی نظیر تھے۔ حضرت جبیرؓ بن معطم نے طویل عمر پاکر ۵۷ھ میں اس دارفانی سے رحلت فرمائی۔