حضرت عمدۃ المحدثین ‘ ایک شخصیت ساز ‘جامع الکمالات ‘نمونۂ اسلاف

   

شیخ الفقہ مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی
حضرت عمدۃ المحدثین اشرف العلماء مولانا محمد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ‘ دکن کے افق سے علم ومعرفت کا وہ آفتاب جہاں تاب بن کر چمکے جسکی ضیا پاشیوں سے لاکھوں بندگانے خدا کے دل جگمگا نے لگے ، یہ آفتاب علم وحکمت عالم کے گوشہ گوشہ کو منور کرتا ہوا ۶؍ربیع الثانی ۱۴۴۰؁ھ م ۱۴؍ڈسمبر ۲۰۱۸ء ، بروز جمعہ غروب ہوکر بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہوگیا۔ حضرت کا سانحۂ ارتحال علمی دنیا وتحقیقی میدان کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آپ برصغیر کے عظیم محدث، دور اندیش مفکر، عربی زبان کے صاحب دیوان شاعر، فن ترجمہ کے ماہر، علوم بلاغت میں باکمال بلکہ جملہ علوم وفنون میں امامت کے درجہ پر فائز تھے، بلند اخلاق و پاکیزہ کردار ، شیریں گفتار، متواضع و بردبار، شب زندہ دار، عشق نبوی سے سرشار،خداترس ، صاحب بصیرت وعزیمت ،شخصیت ساز ،جامع الکمالات ، نمونۂ اسلاف بزرگ تھے۔ آپ نے حضرت مولانا سید محمود ابوالوفاافغانی صاحب مؤسس احیاء المعارف النعمانیہ وسابق شیخ الفقہ حضرت مولانا مفتی محمد عبد الحمید صاحب شیخ المعقولات و شیخ الجامعہ ،حضرت مولانامفتی محمد مخدوم بیگ صاحب شیخ الفقہ ومفتی جامعہ نظامیہ، حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین صاحب ناظم جامعہ نظامیہ، حضرت مولانا حکیم محمد حسین صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ،حضرت مولانا حاجی محمد منیر الدین صاحب شیخ الادب جامعہ نظامیہ،حضرت مولانا مفتی شیخ سعیدصاحب شیخ الفقہ وشیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ، حضرت مولانا محمد عثمان صاحب شیخ التفسیر ،حضرت مولانا غلام احمد صاحب شیخ العقائد،حضرت مولانا سید حبیب اللہ شاہ رشیدپاشاہ صاحب امیر جامعہ ،حضرت مولانا سید طاہر رضوی صاحب صدرالشیوخ،حضرت مولانامفتی محمد ولی اللہ صاحب شیخ المعقولات،حضرت مولانا شیخ صالح باحطاب رحمۃ اللہ علیہم جیسے اساطین علم وفن سے اکتساب فیض کیا۔جامعہ نظامیہ میں آپ نے از اول تا آخر علم حاصل کیا۔آپ نے اپنی مادرعلمیہ میں بحیثیت استاذ اپنے تدریسی سفر کا آغازفرمایا،جامعہ نظامیہ کی جانب سے دارالعلوم دینیہ بارگاہ حضرت بندہ نواز کی نشأۃ ثانیہ کے لئے حضرت سید محمد محمد الحسینی سجادہ نشین بارگاہ حضرت بندہ نواز کی دعوت پر تشریف لے جاکر چھ ماہ تدریس کا خوشگوار فریضہ انجام دیا۔پھر جامعہ میںمختلف عہدوں پر خدمت انجام دیتے ہوئے ’’شیخ الادب‘‘کے عہدہ پرمتمکن ہوئے بعد ازاں ’’شیخ الحدیث ‘‘کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔آپ ’’مرکز تحقیقات اسلامیہ جامعہ نظامیہ‘‘کے ناظم اور ’’مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ‘‘کے معتمد رہے۔قدیم صالح وجدید نافع کا حسین سنگم ایک منفرد کالج ’’کلیۃ الدراسات الاسلامیہ والعربیہ‘قائم کیا،’’المعہد الدینی العربی‘‘’’مرکز احیاء الادب العربی ‘‘ کے بانی وموسس ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے ایک اسلامی ریسرچ سنٹر بھی قائم فرمایا،انتظامیہ نے اسے ’’عمدۃ المحدثین ریسرچ سنٹر‘‘سے موسوم کیا۔شہر اور اطراف واکناف میں متعدد دینی مدارس ومعاہد کی داغ بیل ڈالی، شہر کی متعدد مساجد میں حلقہائے دروس بخاری وزجاجۃ المصابیح کا بنفس نفیس سلسلہ جاری فرمایا۔حضرت شیخ الحدیث تقریباً پانچ دہائیوںسے جامعہ نظامیہ میںامہات الکتب کی تدریس کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ زائد از تین دہائیوں سے صحیح بخاری کا درس دیتے رہے،اور کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ میں روز اول ہی سے آپ تدریس فرماتے رہے۔آپ درس بخاری شریف کے لئے جب جماعت میں رونق افروز ہوتے تو ایسامحسوس ہوتا کہ گویا سارا ماحول روحانی کیفیات سے معمور ہوچکا ہے،علوم نبویہ کا فیض جاری ہے اور رحمت وسکینہ نازل ہورہی ہے،آپ کے دروس میں تزکیہ نفوس اور تربیت اخلاق کا پہلونمایاںتھا،انداز بیان نہایت جامع ، دل نشین، اختلافی مسائل میں معتدل، محققانہ وغیرجارحانہ اوراطمینان بخش ودل پذیر ہوتا تھا،ترجمۃ الباب اور احادیث شریفہ کے درمیان مطابقت بیان کرتے،الفاظ غریبہ کی تحقیق کرتے،علوم بلاغت،بیان،معانی وبدیع سے متعلق بحث کرتے،مذہب حنفی کے دلائل اور وجوہ ترجیح بتلاتے، مسلک اہل سنت کی حدیثی دلائل سے تائید واثبات کرتے اورافکار باطلہ کی تردید کرتے،عالمی سیاسی سماجی حالات پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے اور اس کی جانب احادیث شریفہ میں وارد اشاروں کی وضاحت کرتے،جدید انکشافات وعصری مسائل پر احادیث کی روشنی میں گفتگو کرتے۔ عرب وعجم کے بے شمار طالبان علوم وفنون نے آپ سے اکتساب علم وعرفان کیا ہے،احقرکو اوراحقر کی اہلیہ و دیگر کو اپنے اپنے دور طالب علمی میں حضرت سے دیگر کتب کے ساتھ صحیح بخاری شریف مکمل پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ کو بزرگان دین سے نہایت عقیدت تھی اور آپ معمولات اہل سنت پر سختی سے کاربندتھے۔

خوش خلقی ،انکسار وتواضع کے سبب آپ عوام وخواص میں بے حد مقبول تھے۔تفہیم کا اسلوب مثالی تھا،انداز میں ایسی جاذبیت تھی کہ جو بھی سنتا متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔آپ طلبہ پر نہایت شفقت فرماتے اور ان کی ہمت افزائی کرتے۔حضرت عمدۃ المحدثین کو حضرت صدر الشیوخ علامۂ زماں سید طاہر رضوی قادریؒ سے طریقت میں خلافت حاصل تھی۔آپ علمی مشاغل،درس وتدریس،تصنیف و تالیف کے ساتھ اپنے معمولات کے بڑے پابند تھے۔ دلائل الخیرات و اوراد واذکار کا التزام فرماتے ۔ احقر نے بچشم خود دیکھا کہ اخیر وقت جبکہ وینٹیلیٹر لگاہوا تھا اس وقت بھی اشارہ سے نمازیںادافرمارہے تھے اور ذکر الہی ودرود وسلام میں رطب اللسان تھے۔وصال مبارک سے اکیس دن قبل عمرہ اور زیارت روضہ اطہر سے مشرف ہوکر حیدرآباد تشریف لائے ،اس موقع پر مدینہ منورہ میں اس خادم کو بھی حضرت کی صحبت بافیض سے مستفیض ہونے کا شرف نصیب ہوا۔ متعدد بارمدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں حضرت کی معیت حاصل رہی اور مدینہ منورہ میں عرب علماء کو حضرت نے جب بخاری شریف کا درس دیا ‘اس خادم کو بھی اس میں شرکت کا موقع میسر آیا۔حضرت نے علوم ومعارف کے وہ دریابہائے ہیں کہ عرب علماء نے کہا ایسے نادر نکات ہم نے پہلی بار سنے ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب،شان نورانیت،اختیارات اور دور ونزدیک سے بنفس نفیس صلاۃ وسلام سماعت فرمانے جیسے موضوعات پر احادیث شریفہ سے استدلال کرتے ہوئے نہایت حکمت وبصیرت سے تفہیم کروائی کہ سب مطمئن ہوگئے۔حضرت شیخ الحدیث کا جامعہ نظامیہ سے قلبی تعلق تھا،جامعہ کے مالیہ کے استحکام اور کلیۃ البنات،دار الحدیث،دار التفسیراور دیگر تعمیری وتعلیمی ترقیاتی کاموں میں حضرت شیخ الجامعہ مفتی خلیل احمد کے ساتھ حضرت کا مکمل تعاو ن وحصہ رہا۔قول وفعل،ظاہر وباطن ہر لحاظ سے طہارت وصداقت کاآپ اعلی نمونہ تھے۔ حدیث شریف کا اس طرح ادب فرماتے کہ ہمیشہ دوزانو بیٹھ کردرس دیا کرتے،صبح سے شام تک یہ حال ہوتا۔ حضرت اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،کئی کمالات کے جامع اور متعدد خوبیوں کے حامل تھے۔حضرت عمدۃ المحدثین نے قلمی وعلمی یادگاریں چھوڑی ہیں۔عارف باللہ حضرت محدث دکن ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ جو کہ پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ‘کا۲۲ بائیس جلدوں میں ترجمہ مکمل ہوا۔حضرت نے جلد۹(کتاب العتق)سے جلد ۲۲،ختم کتاب تک متن وحاشیہ کا نہایت ہی عمدہ وسلیس ترجمہ کیا۔اس کے علاوہ آپ نے بخاری شریف کی شرح’’ثروۃالقاری من انوار البخاری‘‘ کے نام سے تالیف کی،جس کے نو حصے اشاعت العلوم سے شائع ہوئے۔حضرت بندہ نواز گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ کی معارف سے لبریز تفسیر’’الملتقط‘‘ کے قلمی نسخہ کی تحقیق واشاعت میں اہم رول اداکیا،نیز حضرت کئی کتابوں کے مصنف رہے۔ سینکڑوں مضامین ومقالات سپرد قرطاس کئے ہیں۔حضرت شیخ الاسلام امام محمد انواراللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘کا عربی میں ترجمہ کیا۔علم غیب رسول اکرمﷺپر آپ نے ایک تحقیقی کتاب ’’نور غیب ‘‘لکھی،حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ایک بے مثال تحقیقی کتاب لکھی،جس کا نام’’امام اعظم امام المحدثین ‘‘رکھا۔شیخ صالح باحطاب کی عربی تالیف‘سیرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔علاوہ ازیں جامعہ نظامیہ کا علمی،دینی ادبی اور اصلاحی سالانہ مجلہ ’’انوار نظامیہ‘‘کے آپ مدیر تھے ،نیز عربی زبان کا ’’مجلۃالاضواء‘‘ حضرت علیہ الرحمۃ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔آپ کی بلند پایہ شخصیت، علمی وتحقیقی خدمات پر ملک کی عظیم یونیورسٹیوں میں مختلف زبانوں میں ریسرچ اسکالرس Phd کررہے ہیں۔ ’’المدائح العطرۃ‘‘کے نام سے آپ کا شعری دیوان ہے۔عشق نبوی میں ڈوبا ہواآپ کا کلام آپ کے عشق ومحبت اور ذات رسالت مآب ﷺسے اٹوٹ وابستگی کی غمازی کرتاہے۔ مدینہ منورہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میںجب بھی حاضر ہوئے عربی میں نعت شریف منظوم کی ۔ قصیدہ بردہ کی عارفانہ شرح کو دیکھنے سے ہرقاری یہ کہے گا یہ قلم کی روشنائی سے نہیں بلکہ قلب کی روشنی سے لکھی گئی ہے۔یہ آپ کی آخری یادگارہے،علالت کے زمانہ میں بھی آپ کی رقم کردہ بلاغی وعرفانی مباحث بصارت وبصیرت کو جلا بخشتی ہیں۔حجاز مقدس،کویت،دبئی،ملیشیاء،قطر،جرمن اور مختلف ممالک میں آپ کو مدعوکیا گیا ،وہاں کے علماء واساتذہ نے آپ سے درس حدیث لیا اور اسانید بھی حاصل کیں۔جرمنی میں حضرت شیخ الحدیث نے درس بخاری دیا جبکہ حضرت شیخ الجامعہ مفکرا سلام مولانا مفتی خلیل احمد دامت برکاتہم العالیہ نے ترمذی شریف کا درس دیا۔اسلامی نصوص اور فقہی اصول و جزئیات پر آپ کی گہری نظر تھی۔روایات وآثار اوراقوال ائمہ کے درمیان واقع ظاہری تعارض کو انتہائی بصیرت کے ساتھ دور کرتے، ایسی تطبیق اور توجیہ کرتے کہ طالبان علوم کو انشراح صدر نصیب ہوتا۔ آپ نے جس طرح علوم ومعارف سے بندگان خدا کو فیضیاب کیا اسی طرح اپنے خانوادہ کو بھی علوم ومعارف سے سرفراز فرمایاہے۔چنانچہ مخدومہ استاذنی ماں صاحبہ نے بھی حضرت کی زیر سرپرستی مولوی ‘عالم ‘ فاضل اور کامل الحدیث کی ڈگریاں حاصل کیں ، عثمانیہ یونیورسٹی سے شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کی عربی زبان میں خدمات پر Ph.Dکی، برسہابرس کلیۃ البنات کی صدر معلمہ رہیں اور متعدد کتابیں تالیف فرمائیں۔ حضرت کے صاحبزادہ نے بھی حفظ قرآن کی تکمیل کی اور مولوی ‘عالم ‘فاضل وکامل الحدیث تک تعلیم حاصل کی۔ سات صاحبزادیاں اور داماد صاحبان بھی عالم ‘فاضل وکامل ہیں ۔ اسی طرح نواسے ونواسیاں اورنواسہ داماد صاحبان وغیرھم سب ہی صاحبان ِ علم وفضل ہیں۔ ہمہ خاندان آفتاب است۔ ’’المبطون شہید‘‘پیٹ کی بیماری سے انتقال کرنے والا شہید ہے۔ صحیح بخاری میں وارد اس حدیث پاک کے مطابق اللہ تعالی نے آپ کو درجہ ٔ شہادت عطا فرمایا ہے۔ آپ کے جلوس ِجنازہ میں مشائخ وعلماء ‘قائدین وزعماء اور طلبہ ومعتقدین کا جم غفیر آپ کی مقبولیت ومحبوبیت کی نشاندہی کررہاتھا۔ آپ کا انتقال پر ملال کسی فردیا خاندان یا ادارہ وجامعہ ،شہروملک ہی کا نقصان نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا نقصان ہے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ بطفیل حبیب اکرمﷺآپ کے درجات کو بلند فرمائے،آپ کے فیضان کو جاری رکھے اور جملہ اہل خاندان ووابستگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔

آپ کے تلامذہ نے مدینہ منورہ میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا اور حضرت مفکر اسلام مولانا مفتی خلیل احمد دامت برکاتہم العالیہ کو بطور خاص مدعو کیا تھا ، اس وقت دیگر معتقدات اہل سنت پر علمی گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا ، ان علماء نے دور ونزدیک سے بنفس نفیس صلوٰۃ وسلام سماعت فرمانے کے مسئلہ پر حضرت مفکراسلام سے رجوع کیاتو حضرت نے بھی دلیل عقلی ونقلی سے تشفی بخش جواب باصواب عنایت فرمایاکہ اذعانی کیفیت محسوس ہونے لگی۔

دنیابھر میں پھیلے آپ کے تلامذہ ومتوسلین ہی نہیں بلکہ صاحبان معرفت،مشائخ طریقت اور ارباب شریعت سبھی سوگوار ہیں ۔