حضرت پیرانِ پیر قدس سرہ کی تعلیمات فلسفیانہ موشگافیوں کے برعکس، عام فہم حقائق و نتائج پر مبنی

   

دین اسلام تا قیامت ایک عالمگیر مذہب ہے ، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اُمت اسلامیہ کو اجتماعی ضلالت و گمراہی سے محفوظ رکھا ۔ اس کے برخلاف عیسائی مذہب جسے دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہونے کا دعویٰ ہے وہ ابتداء ہی سے گمراہی کا شکار ہوگیا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ کا نعوذ باﷲ بیٹا اور تیسرا خدا تسلیم کرتے ہیں لیکن آج تک ان کی قوم میں ایسا کوئی پراثر مبلغ یا مصلح پیدا نہیں ہوا جس نے عیسائی اُمت کو اس اجتماعی بے راہ روی سے نکال کر مذہب عیسائیت کے حقیقی عقائد و نظریات کی طرف لاسکے جبکہ عیسائی پیروکاروں میں وہ لوگ ضرور موجود ہیں جن کو ’’تثلیث‘‘ کا نظریہ قبول نہیں ، لیکن اس گمراہی کے سدباب کا ان میں حوصلہ نہیں ، اس کے برعکس اسلام میں کوئی فتنہ بگاڑ یا گمراہی ظاہر ہوئی تو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اس اُمت میں ایسے مردانِ باہمت کو پیدا فرمایا جو ملت اسلامیہ کو اجتماعی گمراہی کا شکار ہونے نہیں دیا اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہیگا ۔ بناء بریں اسلام کاسواد اعظم ہردور و صدی میں حق و صداقت کی راہ پر گامزن نظر آتا ہے چنانچہ پانچویں صدی ہجری میں عالم اسلام میں سیاسی ، فکری ، مذہبی ضعف و اضمحلال اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا ۔ فلسفہ ملحدانہ اور باطنیت کے فتنوں نے اہل اسلام میں تشکیک و الحاد اور عملی بے راہ روی کے بیج بوئے تو چوتھی صدی ہجری کے آخر اور پانچویں صدی کے نصف اول میں غوث صمدانی ، قطب ربانی ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی پیرانِ پیر غوث اعظم دستگیر قدس سرہ العزیز نورِ ہدایت کا روشن چراغ بنکر ظاہر ہوئے اور دنیائے اسلام کی بے یقینی و بے عملی کے روگ کا مداوا کیا ۔ بعض قدیم تذکرہ نگاروں نے آپ کو شیخ الاسلام ، تاج العارفین ، محی الدین کے القاب سے یاد کیا ہے اور آپ ’’الجیلانی‘‘ کے عرف سے مشہور ہیں۔
( النجوم الزاھرۃ فی ملوک مصر والقاھرۃ جلد ۵ ص : ۳۷۱)
علامہ رشید رضا نے لکھا کہ انساب اور تاریخ کے متاخرین علماء میں سے تقریباً ستر مصنفین نے حضرت پیرانِ پیر غوث اعظم دستگیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حسنی الاصل سادات میں شمار کیا ہے اور والدہ کی طرف سے آپ کے حسینی الاصل ہونے کی تصریح داراشکوہ نے سفینۃ الاولیاء ص ۴۳ میں کی ہے۔ ابن اثیر نے الکامل ۱۱:۱۲ میں حضرت کی تاریخ ولادت یکم رمضان المبارک ۴۷۰ہجری نقل کی ہے اور داراشکوہ نے دوسرا قول ۴۷۱ہجری بھی نقل کیا ہے۔
طبقات کبری شعرانی جلد اول ص : ۴ میں آپ کے دیکھنے والے معاصرین کا تبصرہ درج ہے وہ فرماتے ہیں : ’’میری آنکھوں نے حضرت شیخ عبدالقادر (قدس سرہ )سے بڑھکر کوئی خوش اخلاق ، فراخ حوصلہ ، کریم النفس ، رقیق القلب ، محبت اور تعلقات کا پاس کرنے والا نہیں دیکھا ، آپ عظمت اور علو مرتبت اور وسعت علم کے باوجود چھوٹے کی رعایت فرماتے ، بڑے کی توقیر کرتے ، سلام میں سبقت فرماتے ، کمزوروں کے پاس اُٹھتے ، بیٹھتے ، غریبوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آتے ، حالانکہ آپ کسی سربرآوردہ یا رئیس کیلئے تعظیماً کھڑے نہیں ہوتے اور نہ کسی وزیر یا حاکم کے دروازہ پر گئے ‘‘۔ (تاریخ دعوت و عزیمت حصہ اول ص : ۱۹۹)
حضرت پیرانِ پیر قدس سرہ العزیز کی کرامت کی کثرت پر مؤرخین کا اتفاق ہے ۔ شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلامؒ کا قول ہے کہ آپ کی کرامات حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں ۔ ان میں سب سے بڑی کرامت مردہ دلوں کی مسیحائی تھی ۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجیہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو زندگی عطا فرمائی ، آپ کا وجود اسلام کے لئے ایک بادِ بہاری تھا جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈالدی اور عالم اسلام میں ایمان و روحانیت کی ایک نئی لہر پیدا کردی ۔ شیخ عمر کیسانی کہتے ہیں کہ کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں یہودی اور عیسائی اسلام نہ قبول کرتے ہوں اور رہزن خونی اور جرائم پیشہ توبہ سے مشرف نہ ہوتے ہوں ، فاسد الاعتقاد اپنے غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں ۔
(ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول ص ۲۰۱)
آپ نے فنی اور اصطلاحی پیچیدگیوں سے ہٹ کر تصوف کو واضح اور سادہ اسلوب دیا ۔ اس اعتبار سے آپ کی تالیفات صوفیانہ ادب میں اونچا مقام رکھتی ہیں۔ آپ نے تصوف کی تعلیمات کو بلکہ دقیق و مبھم حقائق و مسائل کو عام فہم بنایا اور عام آدمی کے لئے تصوف کے دروازے کھول دیئے ۔
آپ کی تصانیف میں ایک عظیم تصنیف فتوح الغیب ہے ، جو تصوف کا نچوڑ اور خلاصہ ہے جس میں فلسفیانہ موشگافیوں کے برعکس حقائق و نتائج کو عام سلیس اور فطری اسلوب میں ڈھالا گیا ہے ۔ چند اقتباسات درج ذیل ہیں :
’’اس میں شک نہیں کہ ایک تو اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے اور ایک تیرا ذاتی نفس ہے ، نفس اﷲ کا دشمن اور مخالف ہے باقی سب چیزیں اﷲ تعالیٰ کی مطیع و فرمانبردار ہیں، اگرچہ نفس بھی حقیقت میں اﷲ ہی کی مخلوق اور ملکیت ہے تاہم اس کو لذت و شہوت کی و جہ سے کئی دعوے ہیں جب تو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے نفس کی سرکشیوں کی مخالفت کرے گا تو تو اﷲ کا ہوکر نفس کا دشمن ہوجائیگا جیسے خدا تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : اے داؤد ! تیرا منتھائے مقصود میں ہی ہوں ، اس لئے اپنے منتھائے مقصود کو مضبوطی سے تھام رکھ ۔ عبودیت کا تقاضہ ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کا دشمن ہوجا ، اس وقت اﷲ تعالیٰ سے تیری دوستی اور عبادت کا تعلق صحیح معنی میں استوار ہوجائیگا ، تجھے انواع و اقسام کی پاکیزہ اور خوشگوار نعمتیں ملیں گی اور تجھے قرب و اعزاز نصیب ہوگا ، پھر تمام اشیاء تیری خدمت بجا لائیں گی تیری عظمت اور دبدبے کو تسلیم کریں گی کیونکہ وہ سب کی سب اپنے پروردگار کی فرمانبردار اور مطیع ہیں‘‘۔ ( فتح الغیب ص : ۳۱۔۳۲)
حضرت بایزید بسطامیؒ کے بارے میں ایک مشہور حکایت ہے کہ جب وہ خواب میں دیدار الٰہی سے مشرف ہوئے تو انھوں نے پوچھا مولیٰ! تیری بارگاہ تک رسائی کا کیا طریقہ ہے ؟ ارشاد ہوا : اپنے (خواہشات) نفس کو چھوڑ اور میری طرف آجا ۔ بایزید بسطامیؒ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں اپنے نفس (کی خواہشات) سے اس طرح باہر نکل آیا جیسے سانپ اپنی کینچلی اُتارکر اس سے نکل آتا ہے ۔ ( ص : ۳۳)
’’اور جب اﷲ تعالیٰ کے کسی حکم کا کوئی معاملہ آجائے تو اسے غور سے سُن اور بجا لانے میں جلدی کر ، حکم سنکر آرام سے نہ بیٹھ بلکہ اس کی ادائیگی کے لئے فوراً کوشاں ہوجا ۔ اس موقع پر فعل خداوندی اور تقدیر کا بہانہ نہ بنا بلکہ حکم خداوندی کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنی پوری کوشش اور طاقت خرچ کر اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی اگر امر الٰہی کی بجا آوری میں کمی یا کوتاہی رہ جائے تو عاجزی و زاری کے ساتھ خدا سے التجا کر ! اور معافی مانگ ، اور حکم خداوندی کی تعمیل میں کوتاہی اور عبادت الٰہی کے شرف سے محرومی کے اسباب پر غور کر ، شاید کہ احکام الٰہی میں یہ کوتاہی تیرے بلند و بانگ دعوؤں کی نحوست ، دوران عبادت بے ادبی ، تکبر ، اپنی قوت و بڑائی کے فخر ، اعمال پر خودبینی اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اپنے نفس اور مخلوق کے شریک کرنے کے سبب ہو اور اﷲ نے تجھے اپنے دروازے سے دور کردیا ہو اور اپنی عبادت و خدمت سے معزول کردیا ہو اور اس نے اپنی توفیق کی امداد تجھ سے روک لی ہو اور تجھ سے اپنی عنایات و الطاف اُٹھالی ہوں اور ناراضگی کے سبب تجھے تیری دنیا کی آزمائش ، خواہشات اور آرزؤں اُمیدوں میں مشغول کردیا ہو ، تمہیں علم نہیں کہ یہ ساری چیزیں تجھے اپنے مولیٰ سے غافل کردینے والی اور جس نے تجھے پیدا کیا اور پرورش کی اور پھر دنیوی مال و متاع کا مالک بنایا اور عنایات کیں اس کی نظر کرم سے محروم کرنے والی ہیں۔ ( فتوح الغیب ص ۳۹۔۴۰)