حضور اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ و اوصافِ حمیدہ

   

خیرالنساء علیم
حضور اکرم ، تاجدار مدینہ ﷺ کی سیرت طیبہ ، اُسوۂ حسنہ اور تعلیمات کابغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپﷺ کی نظر میں چھوٹے بڑے ، آزاد و غلام اور امیر و غریب کے امتیازات نہیں تھے، حضور اکرم ﷺ نے نسلی تعصبات رکھنے والے غیر عربوں ، حبشیوں اور غلاموں کو حقارت سے دیکھنے والے عربوں کو مساواتِ انسانی کا سبق سکھایا ، حضور اکرم ﷺ سے محبت رکھنا اور آپؐ کی تعظیم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو رحمۃ للعلمین بناکر مبعوث کیا ہے ، آپؐ انسان ، جانور اور چرند و پرند ہر ایک کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں، حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ تاقیامت مینارۂ نور ہے ، آپﷺ کا اُسوۂ حسنہ سراپا قرآن ہے ، جس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی تمام نعمتوں کا حصول ممکن ہے ۔ حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ عملاً اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ فرزندانِ توحید و غلامانِ رسالتؐ اور افراد انسانیت کو عرفانِ عملی و ایمانی وراثت میں ملی ہے، آپؐ کی تعظیم و تکریم ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے ، آپؐ کی تعلیمات رحمت سے معمور ہیں ، آپؐ کی آمد سے پہلے تمام لوگ کفر و شرک میں مبتلا تھے ، لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا ، شراب نوشی عام تھی ، حضور اکرم ﷺ نے ان سارے کاموں سے روکا اور خدائے وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے اور اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی۔ رسول اﷲ ﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت اور آپؐ کی سچی اطاعت اور فرمانبرداری دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں ، تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوگا یہاں تک کہ اس کے دل میں اس کے والدین ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ حضور اکرم ﷺ کی محبت نہ پیدا ہوجائے ، دل میں محبت ہونا کیسے معلوم ہو ؟ تو یوں فرمایا گیا کہ اس کی تمام خواہشات میرے لائے ہوئے دین و شریعت کے تابع نہ ہوجائیں، اس سے معلوم ہوا کہ اپنی تمام خواہشات کو دین و شریعت کے تابع بنادینا ہی رسول اﷲ ﷺ سے کامل اور سچی محبت کی دلیل ہے ۔
نبی اکرم ﷺ کا ذکر مبارک عظیم سعادت ہے ، صحابہ کرامؓ حضور اکرم ﷺ سے بے انتہاء محبت کرتے تھے ، تب ہی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ،ان میںجس کی بھی اقتداء کروگے کامیاب ہوجاؤ گے اور ہدایت پاؤ گے‘‘ ۔ قرآن کریم میں اﷲ کا ارشاد ہے کہ : ’’اے نبیؐ ! آپ کہہ دیجئے اگر کوئی اﷲ سے محبت کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ میری اتباع کرے ‘‘ ، نبی سے محبت کرنے کے صلہ میں اﷲ کی محبت نصیب ہوگی ، صرف زبانی محبت کا دعویٰ نہ کرے بلکہ دل سے محبت کرے ، حضور اکرم ﷺ سے سچی محبت ، کامل ایمان کی علامت ہے ، مؤمن وہ ہے جو سیرت طیبہ کے مطابق اپنی زندگی کوڈھالے ، آپ ﷺ کے صبر و تحمل اور رواداری کو اہمیت دے جو رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے۔
حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کیلئے ہیں ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھائی چارہ اور رواداری کی تعلیمات کو عام کرتے ہوئے اسلامی اقدار سے برادرانِ وطن کو روشناس کرائیں، ہم قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں تاکہ اپنی زندگی کو بہتر انداز میں گزارسکیں۔ حضور اکرم ﷺ نے عرب کے معاشرے میں قرآن کریم اور اپنی پاکیزہ سیرت و کردار کے ذریعہ رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالی ، جس نے عرب کی سرزمین کو اس وقت نہ صرف ہلا ڈالا بلکہ اس کے اطراف و اکناف کے ممالک بھی آپ ﷺ کی تعلیمات سے مستفید ہوئے ، آپ ﷺ کا اُسوہؐ حسنہ ایک عام آدمی سے لیکر اقتدارِ اعلیٰ تک رہنمائی کا فریضہ تاقیامت ادا کرتا رہے گا ۔

مکہ کی سرزمین پر بت پرستی ، باپ دادا کی اندھی تقلید اور ایک معبود کو چھوڑکر کئی معبودوں کی پوجا کے ماحول میں آپ ﷺ نے اپنے داعیانہ کردار سے انسانیت کو ایسا اونچا اُٹھایا کہ دنیا آپؐ کے پردہ فرمانے کے بعد بھی آپؐ کے نقش قدم پر چل رہی ہے ، آپؐ کا اُسوۂ حسنہ رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے احسانِ عظیم ہے ، انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی اُمتیں دعاء کرتی رہیں کہ ہمیں آخری نبی ﷺ کی اُمت میں پیدا فرما۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کا تعارف مختلف القاب سے کرایا ہے ، کہیں آپؐ خاتم النبیین کے خطاب سے نوازے گئے ، کسی جگہ آپؐ کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ، آپؐ کا اس حیثیت سے بھی تعارف کرایا گیا کہ آپؐ ساری انسانیت کے لئے شاہدِ حق ہیں، ایمان والوں کیلئے انعامات کی بشارت دینے والے اور انکار کرنے والوں کو عذاب سے ڈرانے والے ہیں۔
نبی کریم کو داعی الی اﷲ اور سراجاً منیراً یعنی روشن چراغ سے بھی تعبیر کیا گیا ، تمام انبیاء کرام ؑ میں نبی کریم ﷺ بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کے حامل تھے ، سب سے اہم آپؐ کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا ، آپؐ سے پہلے جتنے پیغمبر آئے ان کی اعلیٰ صفات اپنی جگہ مسلم ہیں ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’مگر آیا نہ کوئی رحمت عالم بن کر سوائے محمد عربی ﷺ کے ‘‘۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ’’ہم نے آپؐ کو تمام جہاں والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ‘‘ ۔ رسول اﷲ ﷺ پیکرِ رحمت ہیں، آپؐ کی رحمت بڑوں کیلئے بھی ہے، بچوں اور بوڑھوں کیلئے بھی ہے ، حتی کہ آپؐ کی رحمت بے زبان جانوروں اور درختوں کیلئے بھی یکساں ہے ، آپؐ حاکموں کیلئے بھی رحمت ہیں ، محکوموں اور غلاموں کیلئے بھی رحمت ہیں ، غرض سارے عالم کو آپؐ سے جو کچھ ملا اس کیلئے ’’رحمت‘‘ سے بہتر اور کوئی اصطلاح استعمال نہیں کی جاسکتی ۔ ایسی ہی آفاقی رحمت کا پیکر بننے کی تعلیم حضور ﷺ نے اپنی اُمت کو دی ہے ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت کا مظاہرہ نہ کرو‘‘ ، نبی کریم ﷺ نے مزید فرمایا : تمہاری رحمت اپنے ساتھیوں اور قرابت داروں تک محدود نہ ہو بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تم انسانوں کے لئے مجسم رحمت بن جاؤ ، تمہاری رحمت عام ہو ‘‘ ۔
تاریخ گواہ ہے کہ اُمی لقب محسن انسانیت ﷺ نے جس مسئلہ کی طرف نگاہ ا ُٹھائی اس کو حل کردیا ، معاشی نظام کو زکوٰۃ کی بنیاد پر قائم کیا اور سود کے ظالمانہ نظام سے انسانیت کو چھٹکارا دلایا ، سماج کے کمزور طبقوں کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا، عورت کی مظلومیت کی داستان دورِ جہالت سے اب تک چلتی آرہی ہے ، ایسے میں انسانیت کے لئے رحمۃ للعالمین ﷺ کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے کے سواء کوئی چارہ نہیں، صرف نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپؐ کا پیغام ہی انسانیت کے لئے نسخہؐ کیمیاء ثابت ہوسکتا ہے ۔ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں، ساری مخلوق میں سب سے بہتر اس شخص کو بتلایا گیا ہے جو دوسروں کے حق میں نافع اور بہتر ہو ، عقل اور فطرت سلیمہ نے اخلاق حسنہ اور اچھے کردار کو معاشرے میں جو مقام عطا کیا ہے وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ، قرآن کریم میں ایک جگہ آپؐ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا : اے نبی ﷺ! آپ اخلاق حسنہ کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں۔

ایک حدیث میں آپؐ نے اپنی بعثت کا مقصد حسن اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے ، اخلاق حسنہ کی اہمیت اور فضیلت کااندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کل قیامت کے روز میزان عدل میں سب سے بھاری عمل نماز ، روزہ اور صدقات کے مقابلے میں اخلاقِ حسنہ کا ہونا ہے ، اسلامی اخلاق وہی اخلاق فاضلہ ہیں جن کی وجہ سے کوئی قوم یا اُمت سعادت یا خلافتِ خداوندی کے مرتبہ تک رسائی حاصل کرتی ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر قرآن مجید اور نبی کریم جیسے اخلاق اور اوصافِ حمیدہ سے اپنی زندگی کو مزین کریں ، اپنے جذبات اور خواہشات کو قابو رمیں کھیں ، دوسروں کے ساتھ محبت ، ایثار و قربانی اور دلی ہمدردی پیدا کریں۔
اﷲ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہم سب کو نیک توفیق دے اور
صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین