حماس کے خلاف جنگ کے نام پر اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب

   

فلسطینی بچے شدید غذائی قلت کے شکار ، زائد از 13 ہزار معصوم جاں بحق ، نحیف بچوں کو رونے کی طاقت نہ رہی: یونیسیف
جنیوا: فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے گزشتہ سال 7 اکٹوبر کو اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ داغے گئے۔ بظاہر یہ فلسطینیوں کا اپنے خلاف اسرائیلی مظالم پر غصہ کا اظہار ہوا لیکن وزیراعظم نتن یاہو زیرقیادت اسرائیل نے اسے غزہ پٹی اور وہاں کے فلسطینیوں پر مسلسل بربریت کا بہانہ بنالیا اور زائداز 5 ماہ ہوچکے، یہاں تک کہ مقدس ماہ رمضان جاری ہے لیکن اسرائیل کا وحشیانہ پن تھما نہیں ہے۔ اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے اور اپنے ہمنوا امریکہ تائید و حمایت کے ساتھ حماس کو اقوام متحدہ کیلئے دہشت گرد تنظیم باور کراچکا ہے۔ بالفرض اسے درست بھی مان لیا جائے تو کوئی بھی کارروائی دہشت گردوں کے خلاف ہونا چاہئے نہ کہ معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بنایا جائے، لیکن 5 ماہ کے میزائل حملوں اور بمباریوں کے نتیجہ میں غزہ پٹی کا بیشتر حصہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے اور زیادہ تشویشناک بات یہ ہیکہ شیرخوار اور بچے بڑی تعداد میں جاں بحق ہوئے ہیں یعنی یہ بالواسطہ نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق ادارے یونیسیف کا کہنا ہیکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک زائد از 13 ہزار بچے جاں بحق ہوچکے اور ہزاروں دیگر غذائی قلت کا شکار ہیں۔ غزہ میں متعدد بچے جہاں بھوک کا شکار ہیں، وہیں ہزاروں بچے مضر صحت غذا کی وجہ سے بھی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ غذائی قلت کے شکار ان بچوں میں اب رونے کی بھی طاقت بھی نہیں ہے۔ یونیسیف کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسلز کے مطابق ہزاروں زخمی بچے ایسے بھی ہیں جن کی کوئی خیرخبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، ممکنہ طور پر وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہوں گے۔ ایگزیکیٹیو ڈائرکٹر یونیسیف نے کہا کہ بچوں کی اتنی بڑی تعداد میں اموات کی شرح کسی بھی تنازعہ یا جنگ میں نہیں دیکھی گئی ہے لیکن دنیا غزہ میں جاری اسرائیلی جرائم پر بالکل خاموش ہے۔ کیتھرین نے بتایا کہ وہ کئی ملکوں میں ایسے بچوں کو دیکھ چکی ہیں جو غذائی قلت اور تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں لیکن جو صورتحال غزہ میں ہے وہ اب تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ بچوں میں نقاہت کا یہ عالم دیکھا جارہا ہیکہ وہ آواز سے رونے کے متحمل بھی نہیں ہے۔ یونیسیف کی ایگزیکیٹیو ڈائرکٹر نے کہا کہ غزہ میں امداد پہنچانا بیوروکریسی کیلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ امداد بھر بھر کر ٹرک سرحد پر پہنچ رہے ہیں لیکن ان کو اسرائیل فلسطینیوں تک پہنچنے سے روکتا جارہا ہے۔ بھلا بتائیے یہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کیسے ہوسکتی ہے۔ یہاں تو معصوم بچوں کو موت کے منہ میں ڈھکیلا جارہا ہے۔ باالفاظ دیگر اسرائیل کا وحشیانہ پن ثبوت ہیکہ وہ فلسطینیوں میں نئی نسل کو پروان چڑھتے دیکھنا نہیں چاہتا۔ فلسطینیوں پناہ گزینوں کیلئے راحت کاری کام کرنے والی ایجنسی ’اونروا‘ کے مطابق شمالی غزہ میں 2 سال سے کم عمر کے ہر 3 بچوں میں سے ایک تغذیہ کی سخت کمی کا شکار ہے اور اس کی زندگی خطرہ میں پڑ چکی ہے۔ ایجنسی نے یہ انتباہ بھی دیا کہ سارے تباہ حال علاقہ غزہ میں قحط پھیل جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اسرائیل کی زائد از 5 ماہ سے لگاتار بمباری نے بازآبادکاری اقدامات کو ناممکن بنارکھا ہے۔ غزہ میں مسلسل بڑھتی ہلاکتوں اور قحط کے بحران کو دیکھتے ہوئے اسرائیل پر بین الاقوامی تنقیدیں بڑھتی جارہی ہیں لیکن وہ بے حس بنا ہوا ہے۔ دو روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے مصر سے متصل سرحدی ٹاؤن رفح پر زمینی حملے کے اپنی غلطی کا اعادہ کیا۔ اس علاقہ میں زائد از 10 لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ نتن یاہو نے ایک ویڈیو میں کہا کہ بین الاقوامی دباؤ کتنا ہی ہو، وہ حماس کا صفایا کرنے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرانے کے مقاصد کی تکمیل سے تل ابیب حکومت کو روک نہیں سکتے۔ اسرائیلی لیڈر نے کہا کہ غزہ کی حالت ایسی ہوجائے گی کہ وہ پھر کبھی اسرائیل کے خلاف خطرہ بننے نہیں پائے گا۔ یو این کی بین الاقوامی عدالت انصاف نے اسرائیلی آپریشن پر سخت ریمارک کرتے ہوئے اسے فوری موقوف کرنے کیلئے کہا لیکن اسرائیل نے اپنی روش جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ نسل کشی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ڈھیٹ بنا ہوا ہے۔