حکمت اور عقل مندی کے بغیر مسائل حل نہیں ہوتے

   

خیراللہ بیگ

جنوبی ہند میں کھاتہ کھولنے میں کامیاب بی جے پی نے اب دو تلگو ریاستوں میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیا ہے ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں سیاسی طوفان اٹھانے والے واقعات میں ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال سب سے اہم ہے ۔ آندھرا میں ریت مافیا کے حوالے سے پیدا کردہ صورتحال نے مزدوروں کو خودکشی کے لیے مجبور کردیا ہے ۔ تلنگانہ کے بس ڈرائیورس کنڈکٹرس ہڑتال کے صدمہ سے خود کشی کررہے ہیں ۔ آندھرا میں ریت کی مصنوعی قلت پیدا کردی گئی ۔ تعمیراتی مزدوروں کو روزگار سے محروم کردیا گیا ۔ تلنگانہ میں آر ٹی سی ہڑتال کی طوالت نے سابق میں ہونے والی تمام ہڑتالوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے آر ٹی سی کو خانگیانے کی دھمکیوں کے ذریعہ آر ٹی سی ملازمین کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ہڑتالی ملازمین پر اس دھمکی کا ذرا بھی اثر نہیں ہوا ۔ ڈیوٹی پر رجوع بکار ہونے کی دی گئی آخری مہلت بھی ہوگئی ۔ اب موٹر وہیکل ایکٹ میں حالیہ پارلیمانی ترمیم نے کے سی آر کے حوصلے بلند کیے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے آر ٹی سی کو خانگیانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ ملک کی کوئی بھی ریاست آر ٹی سی کو خانگیانے کی ہمت نہیں کرسکتی ۔ آر ٹی سی بورڈ کی مرضی کے بغیر اسے خانگیانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ملازمین کے مسائل حل کیے بغیر حکومت کوئی دوسرا قدم اٹھا نہیں سکتی ۔ یہ تو رہی اصول کی بات لیکن کے سی آر نے غیر اصولی موقف اختیار کیا ہے تو وہ کچھ بھی کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں ۔ آر ٹی سی کو خانگیانے کے بارے میں پارلیمانی ترمیمی قانون نے ریاستوں کو ایک ہتھیار فراہم کیا ہے یہ مسئلہ فی الحال عدالت میں ہے ۔ مرکز میں بی جے پی کی حکومت نے پارلیمنٹ سے موٹر وہیکل ایکٹ ترمیمی بل منظور کردیا تھا ۔ اب وہ ہی ٹی ایس آر ٹی سی ہڑتالی ملازمین کے خسارہ کا ذریعہ بن رہی ہے ۔ اگرچیکہ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے قومی سطح پر آر ٹی سی کو مکمل خانگیانے کی مخالفت کی ہے حال ہی میں مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ و قومی شاہراؤں نیتن گڈکری نے ہندوستانی شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو خاص کر بسوں کو خانگیانے کی جانب مضبوط اشارہ دیا تھا ۔ مرکز میں بی جے پی ایک طرف خانگیانے کی راہ ہموار کررہی ہے تو ریاستوں میں جہاں خود کی حکومت نہیں ہے ملازمین کو اکساتے ہوئے حکمراں پارٹیوں کو پریشانی میں ڈال رہی ہے ۔ تلنگانہ میں ٹی آیس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل ہونے کا مطلب صاف ہے کہ وہ یہاں آر ٹی سی کی اس ہڑتال کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔ آر ٹی سی جے اے سی کے ذمہ داروں نے بی جے پی ہیڈکوارٹر پر پارٹی قائدین سے ملاقات کر کے ہڑتال کو کامیاب بنانے میں مدد کی خواہش کی تھی ۔ بی جے پی آفس پر صدر بی جے پی کے لکشمن کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے آر ٹی سی جے اے سی کنوینر ای اشوتھما ریڈی نے مرکز سے مداخلت کی بھی اپیل کی ہے ۔ ہڑتالی ملازمین نے چیف منسٹر کے سی آر کے ہٹ دھرم رویہ کے سامنے مضبوطی سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حکمت اور عقل مندی سے ہڑتال کو کامیاب بنایا جائے تو مسائل کی یکسوئی میں مدد ملے گی ۔ چیف منسٹر کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت سے کام لیں لیکن وہ خود کو عقل کل سمجھ کر ڈٹے رہنا چاہتے ہیں ۔ ان کے لیے حکمت یہ ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لے کر دھیما اور درمیانی راستہ اختیار کریں تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ محاورے کی حد تک تو یہ بات سمجھ میں آنی چاہئے کہ چیف منسٹر کو حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے ۔ لیکن اگر عملی انداز اور عقل مندی سے اس بارے میں فیصلہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی ۔ انہوں نے بہت بڑے مسئلہ کو حل کرلیا ہے ۔ اگر وہ اپنے حواریوں کی باتوں پر یقین کر کے ہڑتال کے مسئلہ کو طول دیں گے تو کئی مسائل پیدا ہوں گے ۔ ریاست کے دیگر ملازمین میں مایوسی پھیل جائے گی ۔ بہر حال حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو ہڑتالی ملازمین کی پرواہ نہیں ہے لیکن پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی ناراضگیوں سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ کیوں کہ دو ماہ قبل وزیر صحت ایٹالہ راجندر نے ٹی آر ایس کے اونرس سے متعلق ایک متنازعہ ریمارک کیا تھا جس سے سیاسی حلقوں اور خود ٹی آر ایس میں اتھل پتھل شروع ہوگئی تھی ۔ اب بی سی ویلفیر اور سیول سپلائز کے وزیر جی کملاکر نے بیان دیا ہے کہ ٹی آر ایس میں اونر شپ کا مسئلہ پایا جاتا ہے ۔ ٹی آر ایس کے حقیقی مالک کون ہیں اس پر بحث ہورہی ہے ۔ یہ قائدین ٹی آر ایس کو کے سی آر کی جاگیر نہیں سمجھ رہے ہیں بلکہ ٹی آر ایس ہر ایک کی جاگیر ہے ان کی اس بات پر پارٹی کے اندر بوچھال پیدا ہوا ہے ۔ پارٹی کے اہم قائدین کا خیال ہے کہ ٹی آر ایس ان تمام کارکنوں کی پارٹی ہے جنہوں نے تحریک تلنگانہ میں حصہ لیا تھا مگر کے سی آر اور ان کے خاندانی ارکان ٹی آر ایس کو ان کی اپنی ملکیت متصور کرتے ہیں ۔ پارٹی کسی ایک لیڈر کی نہیں ہوتی ۔ اگر ایسا سمجھا جائے تو پھر یہ پارٹی نہیں کہلائے گی بلکہ گھر کی لونڈی سمجھی جاتی ہے ۔ پارٹی کو پارٹی بنائے رکھنے کے لیے ہر ایک لیڈر کو پارٹی کا مالک بنائے رکھنا ضروری ہے ۔ ہر کارکن پارٹی کو اپنا پن دیتے ہوئے اس کے لیے کام کرے تو پارٹی کو مضبوطی حاصل ہوگی ۔ ٹی آر ایس اس بات کے لیے خوش نصیب ہے کہ اسے اچھی قیادت اور مضبوط کیڈر ملا ہے ۔ اس کے برعکس اپوزیشن پارٹیوں کو دیکھئے خاص کر کانگریس کو ان دنوں ایک اچھی قیادت کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کے اہم اور سینئیر قائدین یہی تلاش کررہے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لیے نوجوان حرکیاتی لیڈر مل جائے ۔ تلنگانہ میں کانگریس کے پاس نوجوان حرکیاتی لیڈر نہیں ہے ۔ یہی کانگریس ہائی کمان نے ماضی میں چند نوجوان حرکیاتی قائدین کو خاطر میں نہیں لایا ۔ نتیجہ میں یہ لوگ اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ مثال کے طور پر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے انتقال کے بعد جگن موہن ریڈی کو نوجوان قیادت کا موقف دیاجاتا تو آج کانگریس کا موقف اتنا کمزور نہیں ہوتا ۔ ٹی آر ایس کو شکست دینے کی تیاری کرنے کے لیے کانگریس کے پاس کوئی خاص لیڈر ہی نہیں ہے ۔ کے سی آر یا کے ٹی آر کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کو لیڈر کی تلاش ہے ۔ لیکن اس پارٹی کے اندر اتفاق رائے بھی نہیں ہے ۔ ہر لیڈر خود کو قیادت کے لیے اہل سمجھنے لگا ہے ۔ عوام کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ سیاسی پارٹی کا لیڈر نوجوان ہے یا سینئیر وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ پارٹی لیڈر ریاست اور عوام کے لیے کتنا مخلص ہے ۔ عوام کو اپنے مسائل کی یکسوئی اور بہتر زندگی کی فکر ہوتی ہے چنانچہ وہ ایسے عقل مند سیاست دانوں کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اسی لیے ان دنوں کے سی آر اورکے ٹی آر کو اہمیت حاصل ہوئی ہے ۔
kbaig92@gmail.com