حکومت مستحکم معیشت کی راہ سے بھٹک گئی

   

پی چدمبرم

آج ہمارا ملک اپنی آزادی کا 75 واں جشن منا رہا ہے ۔ ہندوستان ڈرامائی طور پر بدل گیا ہے اور وہ بھی اپنی روایتوں کے بالکل برعکس اور متضاد اس کے باوجود کئی ایسی چیزیں ہیں جن میں کوئی تبدیلی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا۔ پہلے جیسی تھیں اب بھی ویسی ہی ہیں۔
اگر ایک سیاح اُترپردیش، بہار، اڈیشہ یا پھر شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتا ہے مذکورہ علاقوں کے لوگوں کی معاشی حالت اور سماجی اصول و ضوابط کا مشاہدہ کرتا ہے تو پھر وہ خود کو 20 ویں صدی کے اوائل میں پائے گا یا محسوس کرے گا۔ یہ کوئی فرد جرم عائد کرنے کے مترادف نہیں بلکہ ہمارا اس طرح مثال دینے کا منشاء و مقصد یہی ہے کہ ہندوستان کو ایک جدید و عصری ملک بنانے کیلئے بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلا کام یا مقصد ملک کی قومی مجموعی پیداوار کو بہتر بنانا ہے۔ مثال کے طور پر 2019-20ء میں
Constant Prices
میں قومی مجموعی پیداوار 145.69 لاکھ کروڑ روپئے تھی۔ یہ جی ڈی پی دراصل ملک کی آمادی کے 73 سال بعد اور کورونا وائرس کی وباء سے قبل حاصل کی گئی۔ آزادی کے پچھلے 73 برسوں میں پچھلے 29 سال معاشی لحاظ سے غیرمعمولی
Productive
(پیداواری) رہے۔ ہمارے ملک نے سب سے بڑی جَست اُس وقت لگائی جب 1991ء اور 2014ء کے درمیان جی ڈی پی چار گنا ہوگئی، لیکن 2014ء سے شرح نمو خستہ حال اور ناہموار ہوکر رہ گئی اور اس کیلئے کوئی خارجی وجوہات ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ یہ ’’اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ والا معاملہ ہے کیونکہ ہم نے اپنی غلط پالیسیوں اور منصوبوں کے ذریعہ اپنی مستحکم معیشت کو کمزور کردیا یعنی اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کیا۔ معیشت کی تباہی کیلئے کورونا وائرس کی عالمی وباء اور خارجی فضاء کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ کورونا کی وباء دو سال سے بھی کم عرصہ قبل شروع ہوئی۔ بہرحال موجودہ حالات میں ہمارا سب سے پہلا مقصد کورونا وباء سے پہلے جی ڈی پی کی 145.69 لاکھ کروڑ روپئے کی جو سطح تھی، اسے حاصل کرنا ہے۔ ملک کی معاشی حالت اور جی ڈی پی ایک ایسا مسئلہ ہے جو فی الوقت موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس موضوع پر گرما گرم بحث و مباحث میں شدت کی وجہ ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے 6 اگست 2021ء کو جاری کردہ آخری مانیٹری پالیسی اِسٹیٹمنٹ (مالیاتی اُمور سے متعلق پالیسی بیان) ہے (لیکن افسوس اس سنگین مسئلہ پر اگر کہیں بحث نہیں کی گئی ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے)
٭ مانیٹری پالیسی اِسٹیٹمنٹ
(MPC)
ایک طرف ہے اور دوسری طرف ایک خود ساختہ بیالنس پکچر پیش کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایم پی سی حکومت کو خواب غفلت سے جگانے اور دوبارہ معاشی حالت کو مستحکم بنانے کیلئے اقدامات کروانے سے قاصر رہا۔ یہ دراصل صاف اور واضح موقف اختیار نہ کرنے کا نتیجہ یا سزا ہے۔ اگر آپ کے معاملات صاف ہوں، دال میں کچھ کالا نہ ہو تو پھر آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ نہ صرف آپ بلکہ ملک کی معیشت بھی اپنی پیش قدمی جاری رکھ سکتی ہے۔
آر بی آبی کا کام مالیاتی اُمور اور قیمتوں کو مستحکم بناتا ہے۔ جہاں تک آر بی آئی کی کارکردگی کا سوال ہے، 1991ء سے آر بی آئی نے بہت اچھا کام کیا لیکن اس نے غلطیوں کا ارکاب بھی کیا۔ اس نے
Over Estimate Growth
اور
Under Estimate Inflation
کو ایک طرح سے فروغ دیا ہے اور ان دونوں غلطیوں کا ارتکاب ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنے طور پر نہیں کیا بلکہ حکومت کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں وہ ایسا کر بیٹھی۔ 6 اگست 2021ء کو جاری اپنے بیان میں آر بی آئی نے اسی طرح کی غلطیاں کی ہیں۔ 2021-22 کیلئے جی ڈی پی شرح نمو سے متعلق اس کا تخمینہ 9.5% ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دلدل پر کسی مکان کی تعمیر۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر کوئی مکان دلدل میں تعمیر کیا جاتا ہے تو وہ زمین میں دھنس جاتا ہے۔ آر بی آئی جو سہ ماہی تخمینے کئے ہیں، وہ پہلے سہ ماہی میں 21.4% دوسرے سہ ماہی میں 7.3% تیسری سہ ماہی میں 6.3% چوتھے سہ ماہی میں 61.% ہے۔پہلے سہی ماہی میں اعلیٰ شرح نمو اس لئے ہے کیونکہ 2020-21ء کے پہلے سہ ماہی میں یہ شرح نمو تاریخی طور پر بہت کم 24.4% منفی رہا۔ آئندہ تین برسوں کیلئے جو تخمینہ ہے وہ بہت زیادہ حقیقت پسندانہ ہے لیکن تکلیف دہ ہے۔ ہم نمو کی شرح میں گراوٹ کے دنوں میں واپس چلے گئے ہیں۔ اعداد و شمار بحالی کو ثابت نہیں کرتے۔ اگر
V-Shaped
ریکوری سے کم ریکوری ہو تو معیشت کی خستہ حالی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 2021-22ء میں امکانی افراط کا جو اظہار کیا جارہا ہے وہ پہلے سہ ماہی میں 6.3% دوسرے سہ ماہی میں 5.9% تیسرے سہ ماہی میں 5.3% اور چوتھے سہ ماہی میں 5.8% بتایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کے پیچھے جو چیز پوشیدہ ہے یا جسے جان بوجھ کر چھپایا گیا ہے اور یہ ایک طرح سے اس بات کا اعتراف ہے۔ غذائی افراط میں اضافہ ہوا ہے یا مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ اسی طرح پٹرول و ڈیزل (فیول) کی قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے اور فیول کا افراط دو ہندسی ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اشیائے مایحتاج بالخصوص خام تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
EME،
کرنسیوں پر بھی اثر پڑا ہے۔
MPC
میں حکومت کو کئی مشورے دیئے گئے ہیں اور بالخصوص بالواسطہ محاصل میں کمی کا مشورہ دیا گیا ہے اور مرکز دو ریاستوں کی جانب سے اپنے اپنے ٹیکس یا محاصل میں کمی لانے کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔ ایک اور اہم بات ہے کہ حکومت عالمی معیشت میں آنے والے اُتار چڑھاؤ کو بھی نظرانداز کرچکی ہے۔ وہ شہری اور دیہی علاقوں میں بڑھتی بیروزگاری سے بھی خود کو دور رکھے ہوئے ہے۔ حکومت کو یہ جان لینا چاہئے کہ جن ملکوں میں لوگوں کو کورونا وائرس کے ٹیکے نہیں دیئے گئے۔ ان ممالک کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ معیشت کی تباہی کیلئے کورونا جیسے بہانے گھڑنے کی بجائے سنجیدہ اقدامات ضروری ہیں۔