حکومت منہ بھرائی کے ہنر سے خوب واقف ہے

,

   

7 گودی میڈیا پر انڈیا اتحاد کا وار
7 پارلیمنٹ سیشن … مودی کا خفیہ ایجنڈہ

رشیدالدین
پانی جب سر سے اونچا ہوجائے تو انسان بغاوت پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ ملک میں نفرت اور اشتعال انگیزی کی تجارت کرنے والوں کے لئے بری خبر ہے۔ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے والوں نے جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے گودی میڈیا کے چاٹوکار اینکرس اور پاپا کی پریوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے مودی ۔امیت شاہ کی نیند اڑادی ہے۔ گزشتہ 9 برسوں سے سنگھ پریوار کے زر خرید غلاموں نے اپنا قلم بیچ دیا اور مودی کے گن گان کرتے ہوئے بھجن منڈلی میں تبدیل ہوگئے۔ مودی اینڈ کمپنی نے اقتدار ملتے ہی پہلا کام میڈیا پر کنٹرول کا کیا۔ کئی چیانلس کو خرید لیا گیا اور ایماندار و بے باک صحافیوں کو چیانل چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ آزاد ہندوستان کی 75 سالہ تاریخ میں میڈیا پر اس قدر برا وقت کبھی نہیں آیا۔ ایمرجنسی کے دوران بھی میڈیا پر اس قدر پابندیاں اور کنٹرول نہیں تھا جتنا کہ آج کے دور میں ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر زعفرانی رنگ چڑھادیا تھا ۔ دن رات مودی اور ان کی حکومت کے قصیدے گائے جارہے ہیں۔ حکومت کی ناکامیوں کو کارنامہ کے طور پر پیش کرنا گودی میڈیا کا فریضہ بن چکا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسائل پر حکومت سے سوال کرنے کے بجائے اپوزیشن کو مورد الزام ٹہرانا گودی میڈیا کا فیشن بن چکا ہے۔ جس کسی چیانل نے چاٹوکار صحافت سے انکار کیا ، اسے خرید لیا گیا ۔ الغرض 9 سال میں ٹی وی چیانلس کے صحافی حکومت کے زر خرید غلام بن گئے اور انہیں صحافی کہنا بھی پیشہ صحافت کی توہین ہے۔ میڈیا جب زعفرانی بن جائے تو پھر وزیراعظم کو پریس کانفرنس کی کیا ضرورت ۔ نریندر مودی نے 9 برسوں میں ایک مرتبہ بھی میڈیا کے سوالات کا سامنا نہیں کیا۔ دورہ امریکہ کے موقع پر جوبائیڈن پر رعب جمانے ایک سوال کی اجازت دی تھی لیکن وہ وہی ایک سال اتنا بھاری اور مہنگا پڑا کہ دنیا بھر میں ملک کی رسوائی ہوگئی۔ سوال چونکہ مسلمانوں پر مظالم سے متعلق تھا ، لہذا مودی کے ہوش اڑگئے۔ تلخ تجربہ کی یاد ذہن میں تازہ تھی ، لہذا G-20 کے دوران کسی بھی سربراہ مملکت کے ساتھ مودی نے پریس کانفرنس نہیں کی۔ جوبائیڈن کو ہندوستان میں پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی گئی اور ویتنام جاکر بائیڈن نے کہا کہ مودی کو انسانی حقوق اور صحافتی آزادی کے بارے میں ذمہ داری کو یاد دلایا گیا ۔ گزشتہ 9 برسوں میں گودی میڈیا کی مودی اور بی جے پی پبلسٹی مہم نے میڈیا پر سے عوام کا اعتبار ختم کردیا ہے ۔ چاٹوکار اینکرس اس قدر گر گئے کہ منظم انداز میں اپوزیشن کو کمزور کرنے کی سازش کی گئی۔ عوام کو ایسے بکاؤ چیانلس اور اینکرس سے چھٹکارہ کا انتظار ہے۔ مودی حکومت اور ان کے پالتو میڈیا سے مسلسل نقصان اٹھانے کے بعد آخرکار اپوزیشن کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔ جنگ کے اصولوں میں یہ بھی ہے کہ دشمن کے مرکز اصلی جسے پاور ہاؤز بھی کہا جاتا ہے ، اس پر حملہ کیا جائے۔ پاور ہاؤز اڑادیا جائے تو تاریکی پھیل جاتی ہے۔ بی جے پی کے لئے گودی میڈیا پاور ہاؤز کی طرح ہے اور اپوزیشن اتحاد انڈیا نے پاور ہاؤز پر حملہ کردیا۔ دن رات ہندو مسلم کی سیاست کے ذریعہ بی جے پی کیلئے ووٹ اکھٹا کر نے والے چیانلس کی کمر توڑنے کیلئے اپوزیشن اتحاد نے جرأت مندانہ فیصلہ کیا ہے ۔ 10 مختلف چیانلس کے 14 اینکرس کی فہرست جاری کی گئی جن کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا اور ان کے کسی بھی مباحثہ یا پروگرام میں اپوزیشن اتحاد کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوگا ۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن کا نمائندہ نہ ہو تو پھر نشانہ کس کو بنائیں گے۔ عوام کیلئے یہ چیانلس بی جے پی ترجمان سے ہٹ کر کچھ اور باقی نہیں رہیں گے۔ نفرت کے سوداگروں کا یہ حال ہے کہ ٹرین حادثہ کو بھی ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ واقعات ، ہریانہ فسادات اور بی جے پی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف بلڈور کارروائیوں کو حق بجانب قرار دیا گیا ۔ مودی کے اند بھکتوں کا یہ عالم ہے کہ کبھی سوال کا موقع مل جائے تو مودی کے لباس ، تفریحی سرگرمیوں حتیٰ جسمانی طاقت کا راز بتانے کی خواہش کی جاتی ہے ۔ گودی میڈیا کے 14 اینکرس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے انڈیا اتحاد نے بی جے پی کے پاور ہاؤز کو تہس نہس کردیا ہے ۔ مودی اور بی جے پی کیلئے اب مہم چلانا آسان نہیں ہوتا۔ اپوزیشن اتحاد کے بائیکاٹ میں شامل تین اینکرس جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ حال ہی میں دو اینکرس نے کرناٹک حکومت کی اقلیتی اسکیمات اور تلنگانہ میں کانگریس کے اقلیتوں سے وعدوں کو مخالف ہندو فیصلوں کی طرح پیش کرتے ہوئے ہندوؤں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ۔ کرناٹک حکومت نے اینکر کے خلاف ناقابل دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے دیگر چیانلس کو پیام دیا کہ اگر وہ اسی راستہ پر چلیں گے تو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ اطلاعات کے مطابق بائیکاٹ کئے جانے والے اینکرس کی فہرست میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیوں کی زیر اقتدار ریاستوں میں حکومت کے ایڈورٹائزمنٹ گودی چیانلس کو بند کرنے کا فیصلہ آگے چل کر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ گودی چیانلس کے ایوارڈ فنکشن یا پھر دوسرے ایونٹس میں انڈیا کے حلیف شامل نہیں ہوں گے اور یہ فیصلہ کروڑہا روپئے کے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
’’ ون نیشن۔ون الیکشن‘‘ نعرہ کے درمیان پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس 18 ستمبر سے شروع ہوگا۔ مودی حکومت نے اجلاس کے ایجنڈہ کو مخفی رکھا ہے اور گودی میڈیا کے ذریعہ مختلف قیاس آرائیوں ہوا دی جارہی ہیں۔ بی جے پی پانچ ریاستوں میں بدترین شکست سے بچنے کیلئے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات کے امکانات تلاش کر رہی ہے تاکہ لوک سبھا چناؤ میں فائدہ ہو۔ تلنگانہ ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسی اہم ریاستوں میں ڈسمبر تک اسمبلی انتخابات شیڈول کے مطابق ہونے ہیں لیکن الیکشن شیڈول کی اجرائی سے قبل مرکزی حکومت نے ون نیشن ۔ ون الیکشن کی سرگرمیوں کو تیز کرتے ہوئے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ کمیٹی میں کانگریس نے نمائندہ کی شمولیت سے انکار کیا ہے ۔ پارلیمنٹ کا ایجنڈہ اگرچہ مخفی ہے لیکن اپوزیشن کو مطمئن کرنے کیلئے کل جماعتی اجلاس طلب کیا گیا جو محض رسمی کارروائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اسمبلیوں اور لوک سبھا کے بیک وقت انتخابات بی جے پی کے مفاد میں ہوں گے اور علاقائی پارٹیوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت لوک سبھا کے ساتھ کم از کم 10 ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ کے حق میں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رامناتھ کووند کمیٹی سیاسی پارٹیوں اور عوام کی رائے حاصل کئے بغیر عجلت میں اپنی رپورٹ پیش کردے گی؟ ون نیشن ون الیکشن پر عمل آوری کئی قانونی اور دستوری مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ مودی حکومت نے G-20 سمٹ کے انعقاد کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ سمٹ کے انعقاد پر اطلاعات کے مطابق 4000 کروڑ کا خرچ آیا ہے اور سمٹ کے دوران نریندر مودی نے ہر ایونٹ کیلئے لباس تبدیل کرتے ہوئے فیشن پریڈ کی ہے۔ بیرونی ممالک کے سربراہان سے مودی نے کس زبان میں بات کی ، اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے لیکن مودی نے گفتگو سے متعلق جو اداکاری کی ہے ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ تمام زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ ایونٹ چاہے کچھ ہو ، ہر ایک میں مودی چھائے رہے۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی ضیافت میں بھی ہر طرف گودی میڈیا نے مودی کو پیش کیا۔ سمٹ کے بعد جشن کا سلسلہ شروع ہوگیا اور کامیاب انعقاد کیلئے مبارکبادیوں کا تانتا بندھ گیا۔ مودی کو سوائے اپنی تتشہیر اور تعریف کے کچھ پسند نہیں ۔ کشمیر میں دہشت گردوں سے لڑائی میں فوج اور پولیس کے تین عہدیدار شہید ہوگئے لیکن اسی وقت نریندر مودی G-20 کی کامیابی کے جشن میں مصروف تھے۔ پلوامہ دہشت گرد حملے کے وقت نریندر مودی ڈسکوری چیانل کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے اور انہیں فوجی جوانوں کی شہادت پر فوری تبصرہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ملک کے حالات چاہے کچھ ہوں لیکن مودی کو صرف اپنی تشہیر کی فکر ہوتی ہے ۔ کشمیر میں فوجی عہدیدار اور جوان ملک پراپنی جان نچھاور کر رہے تھے لیکن گودی میڈیا کے اسکرین پر مودی کا G-20 سمٹ جشن دکھایا جارہا تھا ۔ منو رانا نے شائد گودی میڈیا کیلئے یہ شعر کہا ہے ؎
حکومت منہ بھرائی کے ہنر سے خوب واقف ہے
یہ ہر کتے کے آگے شاہی ٹکڑا ڈال دیتی ہے