حکومت کے 100 دن ‘ مودی کے دعوے

   

اپنی تصویر پہ نازاں ہو تمہارا کیا ہے
آنکھ نرگس کی دہن غنچہ کا حیرت میری
حکومت کے 100 دن ‘ مودی کے دعوے
وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنی حکومت کی دوسری معیاد کے ابتدائی 100 دن پر بلند بانگ دعوے کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سو ایام میں حکومت نے بڑے فیصلے کئے ہیں۔ حکومت پر عوام کا اعتماد بڑھا ہے اور ملک کے 130 کروڑ عوام کے جذبہ کی طاقت سے حکومت نے یہ کام کئے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان ایام میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا گیا ہے ۔ حکومت اور وزیر اعظم کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو ناکامیاں اور رکاوٹیں رہی ہیں ان پر کبھی کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا گیا ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان خامیوں اور رکاوٹوں کا اعتراف تک نہیں کیا گیا ۔ اس کے برخلاف ملک کے عوام کوا یک الگ ہی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اب بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے ہریانہ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعوے کئے ہیں کہ ان کی حکومت نے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا میں انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم ایک بار پھر انتخابی موڈ میں آگئے ہیں اور وہ انتخابات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے تقاریر کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے جو دعوے کئے ہیں صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے ۔ یقینا حکومت نے کچھ بڑے اقدامات کئے ہیں جن میںجموں و کشمیر کو خصوصی موقف کی برخواستگی بھی شامل ہے ۔ یہ حکومت کا ایجنڈہ تھا جس پر عمل کیا گیا لیکن حکومت کے کئی وعدے عوام سے ایسے ہیں جن پر اب حکومت بات بھی کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ملک میں سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ اب شائد وزیر اعظم کو یاد بھی نہیں ہے اورو ہ نہیںچاہتے کہ عوام کو یہ وعدہ کبھی یاد بھی آئے ۔ بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لانے کے مسئلہ پر بھی حکومت بات کرنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اس مسئلہ پر کوئی پیشرفت ہوئی ہے یا نہیں اس سے بھی واقف نہیں کروایا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن کو ان کی ہی صفوں میںانتشار پیدا کرتے ہوئے اس طرح کے مسائل سے ان کی بھی توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں ملک کی معیشت جس تباہی کو پہونچ چکی ہے اس کا بھی وزیر اعظم کبھی تذکرہ نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی اس پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے ۔
جموں و کشمیر کے مسئلہ پر یقینی طور پر حکومت کو بڑی سفارتی کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کے عوام کو تحدیدات اور پابندیوں میں رکھا گیا ہے ۔ حالات کے اعتبار سے کچھ اقدامات ضروری ہوسکتے ہیں لیکن ریاست کے عوام کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے اور انہیںپریشانیوں سے راحت دیتے ہوئے حکومت کے اقدامات سے مزید ہم آہنگ کیا جانا چاہئے ۔ تاہم ایک پہلو معیشت کا ایسا ہے جس پر حکومت پوری طرح سے ناکام ہوگئی ہے ۔ معاشی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے ۔ جو سست روی ہے وہ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار کو متاثر کر رہی ہے ۔ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار کی شرح گھٹ کر 5 فیصد تک محدود ہوگئی ہے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن کی کارکردگی مسلسل متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ صنعتی حلقوںمیں تشویش کی لہر پیدا ہوگئی ہے ۔ مینوفیکچرنگ شعبہ کی شرح ترقی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہی وہ شعبہ ہے جس کے نتیجہ میں بحیثیت مجموعی جملہ گھریلو پیداوار متاثر ہورہی ہے ۔ اسی طرح آٹو موبائیل کا شعبہ بند ہونے کے قریب پہونچ گیا ہے ۔ دوسرے شعبہ جات کی حالت بھی اچھی نہیں ہے ۔ نیتی آیوگ کے نائب صدر نشین نے تک یہ اعتراف کرلیا ہے کہ گذشتہ سات دہوں میں اتنی مشکل صورتحال معیشت کیلئے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے ۔ حکومت کو اس صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔
وزیر اعظم کو اپنی حکومت کے کارناموں پر توجہ دینے کی بجائے معیشت کے استحکام اور سدھار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی جذبہ کے تحت کوئی کارروائی نہ ہونے پائے ۔ کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے قائدین کے تعلق سے دوہرا معیار اختیار نہیں کیا جانا چاہئے ۔ حامیوں کو نظر انداز کرکے مخالفین کو نشانہ بنانے کے عمل سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ملک میں معاشی نظام کو دوبارہ متحرک اور سرگرم کرنے کیلئے اصلاحات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن شعبہ جات میں تشویش پائی جاتی ہے اسے دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابی موڈ میں تقاریر کی بجائے حقائق پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہوگیا ہے ۔