حیاء و حجاب کے اسلامی تقاضے

   

حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے عورت کی حیثیت ایک کھلونے کی تھی، جتنی تہذیبوں نے اس کرۂ ارض پر جنم لیا ان سب کے ہاں عورت کی یہی حیثیت تھی، اس کو صرف خواہش نفس کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، عورت کو صرف مردوں کے پہلو گرم کرنے اور رقص وسرود کی محفلوں کو رونق بخشنے کیلئے استعمال کیا جاتا۔ حضرت نبی پاکﷺ کی تشریف آوری جہاں سب کیلئے رحمت کا سائبان بن گئی وہیں مظلوم عورتوں کی مصیبتوں کا مداویٰ ہوااور خواتین اپنے حقوق سے آشنا ہوئیں، اسلام نے ان کوذلت و نکبت کے دلدل سے نکال کر عظمت و احترام کے آسمان پر پہنچا دیا،مظلوم خواتین جو بے آبروئی کی زندگی گزاررہی تھیں اسلام نے ایک قابل تقدیس ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں انکووہ عظمت ومرتبت دی کہ تاریخ انسانی جس کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتی، اسلام ہی وہ گہوارۂ رحمت ہے جہاں ایک خاتون اپنے حقوق پاسکتی ہے اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کیساتھ باوقار زندگی گزار سکتی ہے۔ انسان اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ کو اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے، اسکے پیار کے بحیثیت انسان جہاں مردمستحق ہیں خواتین بھی انسان ہونے کے ناطے اس کی حقدار ہیں، اسلام ہردو کے حق میں خیرخواہ ہے، اسکی خیرخواہی صرف مردوںکیساتھ مختص نہیں بلکہ خواتین بھی اس خیرخواہی میں برابر کی شریک ہیں۔ اسلام نے جس طرح مردوں کو آبرومندانہ اور باوقار زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے ہیں اسی طرح عورتوں کو بھی باعزت و باوقار انداز سے زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے ہیںاور ایسے احکام دیے ہیں جن میں عورتوں کی عفت و عصمت اور انکے وقاروعظمت کا تحفظ ہے۔ زمانہ ٔ نبوت کی دوری کیساتھ پھر شیطان کو تاک جھانک کا موقعہ مل گیا، اسلام کے سایۂ رحمت میں عورتوں کی عظمت اور انکا وقار شیطان کو ایک آنکھ نہیں بھایا، اس نے پھر ایک مرتبہ عورتوں کو بے آبرو کرنے اور انکی حیاء و عزت کی چادر تارتار کرنے کی ٹھانی، اسکے لئے تہذیب نو کی دلدادہ فکر اس کی مددگار بن گئی۔ بعثت مبارکہ سے قبل کا قدیم دور جاہلیت رہا ہوکہ بعثت مبارکہ سے دوری کا جدید زمانۂ جاہلیت ہردو ادوار میں عورت کی بے احترامی و بے توقیری اور اس کے حقوق کی پامالی، اور اسکو اپنی ہوس ناکیوں کا نشانہ بنانے کی فکر میں نفس و شیطان کی کارفرمائی رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات بتا رہی ہیں کہ اس وقت خواتین غیرمحفوظ ہیں، خواتین کی عزت و آبرو داؤ پر لگی ہوئی ہے، چھیڑچھاڑ کے واقعات بھی بکثرت ہیں، ایسے ہی کچھ افراد کو جب گرفتار کیاگیا اور خواتین کیساتھ چھیڑچھاڑ کی وجہ دریافت کی گئی تو انکا جواب تھا کہ خواتین کا آزادانہ و بے حجابانہ گھومناپھرنا اس کی وجہ ہے، چھیڑچھاڑ کے جرم کے ارتکاب میں تنہا مرد ہی مجرم نہیں بلکہ وہ(خواتین) بھی برابر کی ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح کا عذر مدینہ پاک کے کچھ شریرالنفس اوباش افراد نے بھی کیا تھا،مدینہ طیبہ میں چونکہ ملی جلی آبادی تھی، مسلمانوں کے ساتھ یہودی و مشرکین بھی آباد تھے، ان سے نسبت رکھنے والے بعض شرپسند عناصر عورتوں کو ستایا کرتے اور ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے اور برے ارادے کیساتھ ان پر ڈورے ڈالتے اور ایسا کرنا انکے سماج میں اس بے دینی و بے حیائی بلکہ اپنی اس کمینگی کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا، ہجرت کے بعد نبی پاک ﷺکی مدینہ پاک میں رونق افروزی کے بعد مسلم خواتین بھی جب اپنی ناگزیر ضرورت سے باہر نکلنے پر مجبور ہوتیں تو انکو بھی بعض مواقع پر اس سے دوچار ہونا پڑتا، فسق و فجور کے دلدادہ ان نوجوانوں کو جب اس طرف متوجہ کیا جاتا تو وہ بہانہ بناتے اور کہتے ہم نہیں پہچان سکے تھے ورنہ ہم سے ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی۔ مسلم معاشرہ اس تکلیف سے دوچار تھا اور آپﷺ کی خدمت اقدس میں اس صورتحال کو رکھا گیا، آپﷺ پر اس موقع سے وحی نازل ہوئی اور اس آیت پاک میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حجاب و پردہ کا حکم دیا تاکہ باعزت خواتین ان بے دین اوباشوں کی شرارتوں سے محفوظ رہ سکیں، اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ دیندارو حیادار اور بے دین و بے حیا عورتوں کے درمیان فرق وامتیاز ہوسکے۔ اسلام نے اس برائی کے حل کیلئے جو نسخہ تجویز کیا تھا وہ قیامت تک کیلئے برائی کی روک تھام کا ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے کہ اس پر عمل کرکے دنیا سکون پاسکتی ہے اور برائی سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ائے نبی! (ﷺ) اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئے کہ(باہر نکلنا ہوتو) وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو ڈال لیا کریں، یہ زیادہ بہتر طریقہ ہے کہ وہ آسانی سے پہچان لی جائیں اور وہ ستائی نہ جائیں اور اللہ تعالیٰ مغفرت فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘(الاحزاب؍۵۹)۔جلابیب جمع ہے، جلباب اس کا واحد ہے، جلباب کہتے ہیں ایسی بڑی چادر کو جو سارے بدن کو ڈھانک لے ، ادناء کے معنی لپیٹ لینے اور قریب کرلینے کے ہیں، ادناء کا صلہ جب علیٰ سے لایا جائے تواسکے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اپنی چادر کو اوپر سے نیچے کی طرف ایسے لٹکایا جائے کہ جسم کے سارے اعضاء بشمول چہرہ پوری طرح ڈھک جائے۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کی وضاحت چاہی تو انہوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا بلکہ اپنی چادر اٹھائی اور اسکو ایسے اوڑھا کہ سوائے آنکھ کے چہرہ، پیشانی اور بدن سب کا سب ڈھک گیا ۔(روح المعانی ۲۲ ؍۸۹)۔اس آیت پاک کے زمانۂ نزول کے وقت موجود صحابہ اور اسکے بعد تابعین و تبع تابعین سب کے سب اس بات پر متفق ہیںکہ ایک خاتون خانہ کا جب باہر نکلنا ناگزیر ہو تو جلباب کے اس اہتمام کے بغیرنکلنا جائز نہیں۔

اللہ سبحانہ نے ازواج مطہرات سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا:’’ائے نبی کی بیویو! (ازواج مطہرات) تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو ایسی نرمی سے بات نہ کرو کہ جس کی وجہ دل کی خرابی میں مبتلا فرد کسی لالچ و طمع میں پڑجائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘(الاحزاب؍۳۲)۔اس آیت پاک میں خطاب گو کہ ہماری ماؤں(امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن) سے ہے مگر مقصود ساری ایمان والی خواتین کو اس کا پابند کرنا ہے، امہات المؤمنین سے خاص طور پر خطاب کرنے سے مقصود یہ ہے کہ وہ تو ساری مسلم خواتین کیلئے ایک نمونہ ہیں کہ وہ ان کی زندگی سے روشنی حاصل کریں، اِن امہات المؤمنین کی مبارک زندگی میں جب اسلامی احکام کی یہ روشنی آئیگی تو یہی روشنی امت مسلمہ کے خواتین کی زندگیوں میں پہنچے گی۔ ضرورت داعی ہو تو غیر مردوں سے بات چیت کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس گفتگو میں نرمی اور لوچ آجائے تو اس سے اسلئے منع کیاگیا ہے کہ اس سے روحانی مریض مردوں کے دلوں میں جو ناروا جذبات طمع و لالچ کے تار جھنجھنا اٹھیں گے بڑی باریکی و نزاکت کے ساتھ قرآن نے کمزور انسانی فطرت کے مضراب پر ہاتھ رکھا ہے، اس آیت پاک سے اس حقیقت کو دلنشین کرکے خواتین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ قول معروف سے کام لیں یعنی ایسا کلام نہ ہوکہ جس سے کسی کی دل شکنی ہو، نہ اس سے کوئی تلخی یا ناشائستگی کا اظہار ہوبلکہ ایسی صاف سیدھی بات ہو جومعقولیت پر مبنی سمجھی جاتی ہو۔اسی سورۃ کی آیت ؍۵۳ میں ہماری ماؤں(امہات المؤمنین) رضی اللہ عنہن کے بارے میں ایک خاص حکم نازل فرمایا گیا جس میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت دی کہ جب کبھی ان سے کچھ چیز کے مانگنے کی ضرورت درپیش ہو تو پس پردہ ہوکر مانگو کہ یہ طریقہ پاکیزہ تر ہے تمہارے دلوں کیلئے بھی اور ان کے قلوب کیلئے بھی۔ اسلام نے مردوں اور عورتو ں کے درمیان حدفاصل قائم کرکے احتیاط کی دیوار کھڑی کی ہے اور اس درجہ حدبندی رکھی ہے کہ اور تو اور امت کو اپنی ماؤں کیساتھ بھی احتیاط برتنے اور پردہ کے پیچھے رہ کر مانگنے کی ہدایت دی ہے،اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کیلئے دلوں کی پاکیزگی مقصود ہے۔ اسلام نے ایسا پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا ہے جس میں ظاہری طہارت و پاکیزگی سے زیادہ باطن کی طہارت و پاکیزگی کا بڑا لحاظ ہے، عفت و عصمت اور پاکدامنی کی اعلیٰ قدر کو بے داغ ہونے سے بچانے کیلئے اس سے زیادہ نازک اہتمام اسلام کے سوا اور کہیں نہیں دیکھا جاسکتا، حیاء و عفت کے اقدار کی ان نازک حفاظتوں کے حصار کو پھاند کر کیسے یہ گوارا کیا جاسکتا ہے کہ عورتوں کو چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنادیا جائے، مخلوط مجالس آباد کیے جائیں، درسگاہوں اور قانون ساز اداروں میں مخلوط ماحول کی حوصلہ افزائی کی جائے، مردوں اور عورتوں کے درمیان حیاء و حجاب کے جو تقاضے اسلام نے حد فاصل کے طور پر قائم رکھے ہیں اسکے بخیہ ادھیڑ دیے جائیں۔ نفس شیطان کے تقاضوں کی اسیر مخالف اسلام طاقتیں تو عورتوں کو بے آبرو کرنے پر تلی ہوئی ہیں لیکن مسلمان اگر خود اِن پاکیزہ اصولوں کو دقیانوسی قرار دیں اور عورتوں کو اس کی وجہ مظلوم سمجھیں تو پھر انکو اسلامی اقدار کا محافظ کیسے کہاجاسکے گا، نفس و شیطان کے چنگل سے انکا آزاد ہونا کیسے تسلیم کیا جاسکے گا۔ اسلام دشمن طاقتوں سے زیادہ اِن جیسے بے دین اور اسلام کی روح سے بے خبر اسلام کے نام لیوا نادان دوستوں سے اسلام و مسلم معاشرہ کو سخت دھکا لگا ہے اور روح اسلام ان جیسے ناسمجھ بہی خواہوں کی وجہ کرب و اضطراب سے دوچار ہے، نادان مسلمانوں نے اپنی فکری بے دینی کی وجہ اسلامی احکام کی روح کو مجروح کردیا تو پھر شیطان کا کام آسان ہوگیا اور مسلم سماج کی آزادفکر خواتین اس کا نرم نوالہ بن گئیں، پھر یہ ہوا کہ عریاں لباسی تہذیب بن گئی، گھر اُجڑ گئے، رقص و سرور کی محفلیں آباد ہوگئیں، شرم و حیاء کی چادر تارتار ہوگئی، نئی تہذیب نے بے وقاری کو وقار، بے آبروئی کو آبرو کا لبادہ اوڑھادیا، قرآن مقدس کے اِن احکامات کی روح سے غافل بے دین انسانوں نے اسلام کا نام لیکر اسلام ہی کو نقصان پہونچایا، جنہوں نے تہذیب نو کے سحر میں قرآن کو بھلا دیا ہو تو اُن سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فرامین رسول ﷺ اور آپﷺ کی مبارک زندگی کے مبارک گوشوں کو خاطر میں لائیں گے لیکن جو ایمان کو ہر حال میں عزیز رکھنا جانتے ہیں ان کیلئے قرآن پاک کے احکام بھی انکے ایمان کو روشنی بخشتے ہیں اور فرامین رسالت مآب علیہ السلام بھی۔سارے ایمان والوں کو اِن قرآنی ہدایات سے روشنی حاصل کرنا چاہئے اور فرامین رسولﷺ کو بھی پلکوں سے لگائے رکھنا چاہئے، ارشاد ہے اُن خواتین کے بارے میں جو تہذیب نو کی دلدادہ اور اس پر فریفتہ ہیں اور اس محبت میں انہوں نے اسلام کا ساترانہ لباس چھوڑ کر بے حیائی کا لباس زیب تن کرلیا ہے، سترپوشی میں عزت و آبرو محسوس کرنے کے بجائے جنہوں نے عریانیت میں اپنی عزت و آبرو خیال کی ہے، ’’یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے لباس تو پہنا ہے پھر بھی ننگی ہیں اور جو نازوادا سے مائل ہوتی ہیں اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں اور ان کے سر کے بال ایسے ہیں جیسے اونٹوں کے کوہان، یہ عورتیں نہ صرف یہ کہ جنت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکیں گی‘‘۔