حیدرآباد جو کل تھا ’’ڈاکٹر مرزا غلام حسین بیگ‘‘

   

محبوب خان اصغرؔ
دکن کے اعلی ٰ ثقا فتی ، سماجی اور تہذیبی ورثے کو سنبھال کر رکھنے والوں میں جہاں کئی شخصیتوں کے نام لئے جاسکتے ہیں ، وہیں ڈاکٹر مرزا غلام حسین بیگ کا نام بھی خود بخود ہی ہماری زبان پر آجاتا ہے ۔ آپ کا شمار ماہر اطباء میں ہوتا ہے ، ساتھ ہی بحیثیت ادیب وہ ایک اہم مقام و مرتبہ کے حامل نابغۂ روزگار ہیں۔ وہ 1940 ء میں دارالشفاء میں جاگیردار مرزا ولایت علی بیگ کے گھر تولد ہوئے۔ آصف سادس نواب میر محبوب علی خاں نے انہیں مختار جنگ کے خطاب سے نوازا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم دارالعلوم میں ہوئی ۔ دسویں جماعت کامیاب کرنے کے بعد نظامیہ طبی کالج سے یونانی طرزِ علاج میں ڈگری حاصل کی۔ ماڈرن میڈیسن میں ڈپلوما حاصل کیا۔ آندھرا اور تلنگانہ کے مختلف علاقوں میں ان کی طبی خدمات کا دوراں 1967 ء تا 1999 رہا۔ اس طرح بتیس سال برسرکار رہ کر وظیفہ حسن پر سبکدوش ہوئے۔
زندگی کی اسی بہاریں دیکھنے والے بیگ صاحب کو اپنے متقدمین کے کارناموں پر فخر ہے اور اپنے اسلاف سے بے تعلق رہنے والوں پر افسوس بھی ہے۔ ان کا اس بات پر ایقان ہے کہ اسلاف سے ربط ضبط ہی سے صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور ان سے احتراز میں معاشرے کے بکھر جانے کا احتمال ہوتا ہے ۔ انہوں نے اردو روزنامہ سیاست کی جانب سے یہاں کی ثقافت کے خد و خال کو نو خیز نسل کے سامنے پیش کرنے پر ادارہ کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ کسی بھی سماج کیلئے نئی نسل خشتِ اول ہوتی ہے جو آگے چل کر ہمہ گیر اکائی بن جاتی ہے ۔ انہوں نے آصف جاہی سلاطین کی شفقت آمیز فکر کا خصوصی طور پر ذکر کیا جو ا پنی رعایا کی فلاح و بہبود سے متعلق ان کے مطمع نظر رہی ۔

حیدرآباد دکن میں تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تعلیمی سرگرمیوں کے باعث ریاست حیدرآباد کو دنیا بھر میں شہرت ملی ۔ خواجہ عماد الدین محمود گاواں جو سلطان محمد شاہ (بہمنی) کے دوست تھے ، انہوں نے بیدر میں کثیر سرمایہ سے مدرسہ محمودیہ کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس میں کئی کشادہ کمرے اور وسیع دالان تھے ۔ درس و تدریس کے علاوہ طلباء اور اساتذہ کی رہائش کا معقول بندوبست بھی تھا ۔ منتخب اسات دہ درس و تدریس پر مامور تھے جنہیں درس کا خاصا تجربہ تھا ۔ ملا نور احمد جامی ، جمال الدین درانی ، شیخ ابراہیم ملتانی مذکورہ تعلیم گاہ میں پڑھایا کرتے تھے۔ متذکرہ اساتذہ تعلیم و تعلم میں مہارت رکھتے تھے اوران کا طرز اس قدر فیض رساں تھا کہ پورے ملک سے علم کے طلب گار مدرسہ محمودیہ کا رخ کرنے لگے ۔ انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ سلطنتیں ختم ہوجاتی ہیں مگر حصول علم کا جذبہ کبھی ختم نہیں ہوگا ۔ بہمنی سلطنت ختم ہوگئی مگر تعلیم اور فتونِِ لطیفہ کے فروغ کے تسلسل کو قطب شاہی سلاطین نے اپنے سر لیا ۔ انہوں نے کئی درسگاہیں قائم کیں۔ قلی قطب شاہ کی علم دوستی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چارمینار کے اوپر ایک مدرسہ تھا ۔ چارمینار سے متصل مسجد میں بھی ایک مدرسہ تھا جو مدرسہ شجاعیہ کہلاتا تھا ۔ اس میں کئی طلباء حصول علم کی غرض سے آتے تھے اور اکثر اس مدرسہ میں مقیم تھے ۔ دکن میں تعلیمی سرگرمیوں کا تفصیلاً ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ قطب شاہی عہد بھی بالآخر ختم ہوگیا ۔ مگر اس عید میں نوشت و خواند کی باقاعدہ جو تحریک چلائی گئی تھی اس کے اثرات آصف جاہی سلاطین میں بھی شدت سے دیکھے گئے۔ چنانچہ آصف جاہ اول نے اورنگ آباد میں مدرسہ فوقانیہ قائم کیا جہاں سب کیلئے تعلیم کے حصول کا مفت نظم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پر عہد میں حکمرانوں کو تعلیم و تمدن کی فکر لاحق رہی ۔ رعایا کو علم و فن کی دولت سے مالا مال کرنے میں وہ ایک دوسرے سے بازی لے جایا کرتے تھے کیونکہ ان کی دانست میں علم ہی سے شعور و آگہی اور مذہب و اخلاق ، حکمت و تصوف ، ادب اور سائنس کے میدانوں میں پیشرفت کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے قدیم حیدرآباد میں واقع تمام اسکولوں اور مدرسوں سے متعلق بتایا کہ مستند اساتذہ اور علماء اپنے پیشے کو عبادت کا درجہ دیتے تھے ۔ تمام علوم کی کتابیں بذات خود تجدید کرتے تھے اور اسے چھپواکر مفت تقسیم کی جاتیں تھیں۔ اسی زمانے میں محض سلاطین اور حکمران و صحت کی دلچسپیوں کے سبب کئی نامور ہستیوں کے علاوہ ڈاکٹر لقمان اور ڈاکٹر ارسطو یار جنگ پیدا ہوئے جن پر دکن ناز کرتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں بہادر آصف سابع 1911 ء میں تخت نشین ہوئے تو انہوں نے بھی اپنے آباء و اجداد کی روایتوں کی پاسداری میں اپنی توانائیاں صرف کردیں۔ انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ حضرت نے 1911 ء میں محبوبیہ گرلز اسکول اور مدرسہ وسطانیہ نامپلی کو ہائی اسکول کا درجہ دیا تھا ۔ طالبات میں انگریزی زبان کا شوق بڑھانے کیلئے مدارس نسواں پر خاص توجہ دی گئی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعلیٰ حضرت کی بادشاہت کا دور بہت ہی تابناک اور روشن تھا ۔ بہبودۂ اطفال کے ساتھ تعلیم بالغان ، تعلیم نسواں اور خاص طور پر نابینا اور گونگے بچوں کے لئے بھی مدارس کی داغ بیل ڈالی گئی تھی جن میں ایسے لوگ بھی شریک ہوئے جو ثقلِ سماعت کا شکار تھے۔ انہوں نے قدیم حیدرآباد کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ تمام مدارس میں دینیات ، فارسی ، سائنس تاریخ اور انگریزی مضامین پڑھائے جاتے تھے ۔ نصابی کتب کی عدم دستیابی کی شکایتیں کبھی بھی نہیں سنی گئیں۔ استحصال نہیں تھا ۔ معمولی نرخ پر کتابیں دستیاب تھیں۔ خریداری سے معذور افراد کو مفت میں دی جاتیں تھیں۔ مظاہرے دیکھے نہیں گئے ۔ کسی بھی قسم کا بحران نہیں تھا ۔ بیدیا چھڑی کا استعمال ممنوع تھا ۔ جہاں اساتدہ طالب علموں کو معنوی اولاد سمجھتے ہوں وہاں پیار ہی پیار ہوتا ہے ۔ خوشگوار ماحول میں طلباء و طالبات ا پنا تعلیمی سفر جاری رکھتے۔ اعلیٰ حضرت نے تعلیمی اغراض پر کروڑہا روپیہ خرچ کیا ۔ یہ مختلف علوم سے سلطان کا عشق تھا۔ موجودہ سیاستدانوں کیلئے یہ عمل قابلِ تقلید ہے۔ غلام حسین بیگ نے ماقبل آزادی ملک بالخصوص حیدرآباد دکن میں طب یونانی پر بھی کچھ روشنی ڈالی۔ وہ خود بھی یونانی دواخانہ میں چیف میڈیکل آفیسر رہے اور سابق میں آندھراپردیش میڈیکل آفیسرس اسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ۔ انہوں نے اپنے تجربات یوں بیان کئے کہ آصف جاہ اول دلی سے حیدرآباد پابد رکاب ہوئے تو باکمال اطباء کا ایک گروہ بھی ان کے ہمراہ تھا ۔ سلاطین کی قدر دانیوں کے باعث ملک کے تمام گوشوں سے ماہرین نے حیدرآباد کو اپنا مسکن بنایا۔ کئی یونانی اطباء کو میر محبوب علی خاں آصف سادس نے جواہرات سے سرفراز فرمایا ۔ چارمینار سے متصل ایک بڑی زمین خریدی گئی اور اس پر ایک عالیشان عمارت تعمیر کی گئی تھی ۔ 1926 ء کو اعلیٰ حضرت نے اس کا سنگِ بنیاد رکھا تھا ۔ انہوں نے یونانی اطباء کے طریقہ علاج کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں کہیں بھی تشخیص مراکز نہیں تھے۔ آبادی کم تھی ۔ خانگی دواخانے بھی خال خال ہی نظر آتے تھے ۔ قارورہ اور نبض دیکھ کر ہی مرض کا پتہ چلایا جاتا تھا۔ زبان اور جوڑوں کی تکلیف سے بھی بیماری کا درست اندازہ لگایا جاتا تھا ۔ مریض کے ساتھ خوش ا خلاقی سے پیش آنا فرضِ اولین سمجھا جاتا تھا۔ مالی بوجھ سے نہ مریض واقف تھا نہ اس کے متعلقین۔ دوائیں مفت دی جاتی تھیں۔ انہوں نے ریاستی حکومت پر خرف رکھا اور کہا کہ حکومت نے یونانی دواخانے کو قابل الشفات نہیں سمجھا اور اس کے تساہل کے باعث یونانی دواخانہ مائل بہ انتزال ہے۔ ویدک ہو کہ طب یا ہومیوپیتھی حکومت کو اس کی سرپرستی کرنی چاہئے تاکہ فرنگی دواخانوں میں جاری استحصال اور من مانی کا تدارک ہوسکے اور معائنوں کے نام پر عوام الناس ہراساں نہ ہوں۔ انہوں نے قدیم حیدرآباد کے تمام شعبہ ہائے حیات میں عہدیداروں کی کارکردگی اور دیانتداری اور ماتحتین کی فرض شناس کو یاد کیا اور کہا کہ تمام ہی شعبوں میں شفافیت تھی ۔ اعلیٰ ہو کہ ادنیٰ رشوت لے کر کام کرنے کو معیوب گردانتے تھے ۔ نظم و نسق کے تمام اصولوں پر کاربند رہنا ضروری سمجھا جاتا تھا ۔ عدالتوں اور پولیس ڈپارٹمنٹ میں نظام عدل مضبوط تھا ۔ جرم کے مرتکبین کو سزائیں دی جاتی تھیں۔ مظلوم کو انصاف دلایا جاتا تھا ۔ تمام فرقوں کی جان و مال کا تحفظ اور امن و امان کی بحالی کیلئے مفاہمت نہیں کی جاتی تھی ۔ موجودہ عہد میںشفافیت کی تلاش کار عبث ہے۔

آصف جاہی سلاطین کی مذہبی امور سے دلچسپی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تمام سلاطین دکن نے ہر مذہب اور اس کے ماننے والوں کی دل و جان سے قدر کی ہے ۔ اعلیٰ حضرت تو محفلِ میلاد صلی اللہ علیہ وسلم میں یکم تا بارہ ربیع الاول شرکت فرمایا کرتے تھے جو مکہ مسجد میں منعقد ہوتی تھی ۔ حفاظ کو تحائف پیش کئے جاتے اور شرکاء میں شیرینی تقسیم ہوتی تھی ۔ شب معراج ، شب برات اور خلفائے راشدین کی وفات سے متعلق مجالس کا اہتمام بڑے ہی تزک و احتشام سے کیا جاتا تھا ۔ ماہِ صیام میں افطار کا نظم اور مساجد میں ر وشنی کا بھر پور انتظام ہوتا ۔ مبلغ اسلام جو دیہاتوں میں مقیم تھے۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا تھا۔ حجاج کیلئے اور مقدس مقامات کی زیارت کو جاننے والوں کیلئے چھ ماہ میں تن خواہ پیشگی دی جاتی تھی ۔ دوران حج قیام و طعام اور خصوصی رخصت فراہم کی جاتی تھی ۔ اسی طرح اہل ہند اپنے مقدس مقامات مثلاً کاشی ، پریاگ اور کانجی ورم روانہ ہوئے ، انہیں بھی وہی مراعات دی جاتی تھیں جو مسلمانوں کو حاصل تھے اور یہ سب سرکاری سطح پر ہوتا تھا ۔ آج سرکار تو صرف سراب ہے۔

بیگ صاحب نے دواخانوں میں مریضوں کو دی جانے والی غذا سے متعلق بتایا کہ مریضوں میں بریڈ، انڈا ، دودھ ، کافی اور چائے لازماً تقسیم کئے جاتے تھے ۔ متعلقین کو وقت پر کھانا دیا جاتا تھا ۔ مفلوج لوگوں کو ایک ثابت مرغ (پکا ہوا) کھلایا جاتا ۔ چوک والے گتہ دار ہوتے تھے جو دواخانوں میں انڈے اور مرغ معمولی داموں پر سپلائی کرتے تھے ۔ موثر دوائیں بھی مفت دی جاتی تھیں۔ آج یہ باتیں خواب معلوم ہوتی ہیں۔ تقر رات کا سلسلہ مسدود ہے۔ دوائیں نہیں ہیں۔ مریضوں کی قابل لحاظ کے مقابل عملہ نہیں ہے ۔ مشفق اور با اخلاق اطباء نہیں ہیں۔ آج آنکھیں حکیم محمد اعظم ، حکیم محمد یوسف اور حکیم محمد حسین کو ڈھونڈتی ہیں ۔ اب ایسے روح افزاء نظارے خدا معلوم دیکھنے کو ملیں گے بھی یا نہیں ؟ انہوں نے اس بات پر کوفت کا اظہار کیا کہ نئی نسل کوفت اٹھانے کے قابل نہیں رہی ۔ اس کے برخلاف ہمارے بزرگ ا پنے سے بڑوں کی موجودگی میں بیٹھنے کو تک معیوب سمجھتے تھے ۔ خواتین بندگی اور مرد آداب کہنے کو ضروری سمجھتے تھے ۔ بزرگوں سے پہلے لقمہ اٹھانا آداب دسترحوان کے خلاف تھا ۔ پان ، پانی اور چائے پیش کرنے کے بعد سلام کرنا بھی آداب میں شمار ہوتا تھا ۔ خانسا ماوں کی عزت کی جاتی تھی ۔ اعلیٰ خاندانوں میں مالکہ کو خانم کہا جاتا تھا ۔ سربراہی آب کا عمدہ نظم تھا۔ فجر سے پہلے نلوں میں پانی آنا شروع ہوجاتا تھا ۔ بہاؤ تیز ہوتا ۔ یہ سلسلہ گیارہ بجے تک چلتا تھا ۔ جن گھروں میں نل نہیں تھے ، وہ سرکاری نل سے استفادہ کرتے تھے جو گلی گلی میں ہوتے تھے ۔ غرباء وہیں نہانے اور وہیں کپڑے دھولیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ ایسے مفلوک الحال لوگ بھی ہوتے تھے جو سطح غربت سے بھی نیچے کے ہوتے تھے ۔ انہیں پانی فراہم کرنے کیلئے بہشتی (جنتی) متعین تھے ۔ اس زمانے میں پانی اور بجلی کے میٹر نہیں تھے ۔ فی نل ایک روپیہ ادا کرنا ہوتا تھا ۔ کسی کسی کے ہاں ا یک سے زائد نل بھی ہوا کرتے تھے ۔ اسی طرح ایک بلب (برقی قمقمہ) کیلئے ایک روپیہ اور ایک پنکھے کیلئے ایک روپیہ مقرر تھا ۔ Ceiling Fan نہیں تھے ۔ ٹیبل فیان ہی تھے وہ بھی متمول لوگوں کے ہاں اکثریت دستی پنکھوں کا استعمال کرتی تھی ۔

تقرر کے فوراً بعد ماہانہ دو سو ستائیس روپئے تنخواہ پانے والے بیگ صاحب نے بتایا کہ وہ آندھرا کے تمام قصبات میں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ بس کا سفر کرتے تھے ۔ اٹھارہ روپیہ کرایہ تھا آج چھ سو روپئے ہے ۔ انہوں نے ریاست حیدرآباد میں موافقت اور میل جول پر مبنی ایک واقعہ مذکور کیا اور بتایا کہ 1948 ء میں ملٹری ایکشن کی تباہ کاریاں بام عروج پر تھیں ۔ بے شمار جانیں تلف ہوچکی تھیں۔ لوگ سراسیمہ تھے۔ گاوں کی با و لیاں نعشوں سے بھر چکی تھیں۔ جو زندہ تھیں وہ باؤلیوں کے قریب کھڑی تھیں کہ آفت آئے تو جان دے دیں مگر اپنی عزت پر آنچ نہ آنے پائے۔ عین اس لمحہ ان کے گھر پر دستک ہوئی ۔ تمام افراد کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ سانس لینا محال ہوگیا ۔ دستک دوبارہ ہوئی ۔ حواس باختہ سے ان کے والد نے دروازہ کھولا۔ پرائیویٹ پریکٹیشنر ڈاکٹر جناردھن کھڑے تھے ۔ انہوں نے دست بستہ ہم سب کو اپنے ساتھ اپنے گھر چلنے کیلئے کہا۔ ملک کے اکثر حصوں کی فضاء اتنی آلودہ ہوچکی تھی کہ ہر شخص مشکوک دکھائی دے رہا تھا ۔ کچھ لوگ کو پس و پیش ہوا ۔ سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ چلے جائیں۔ مرنا ہی ہے تو یہاں بھی مریں گے ، وہاں بھی مریں گے۔ سہمے سہمے سب ان کے گھر چلے گئے۔ گھر میں پہلے ہی سے کچھ مسلمان مرد عورتیں اور بچے موجود تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا گھر میں پھل پھلدری کے علاوہ لکڑی آٹا تیل چاول اور دیگر سامان ہے۔ بغیر کسی خوف کے پکایئے اور مل کر کھایئے ۔ میں گیٹ پر پہرہ دوں گا ۔ پہلے میں مرونگا بعد میں بھگوان آپ لوگوں کا رکھوالا ہے ۔ تین دن ان کے گھر میں رہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ملٹری نے اپنا رخ بدل لیا ہے ۔ جان میں جان آئی ۔ جان لیوا حالات میں ایک ہندو ڈاکٹر کا مسلمانوں پر بڑا احسان تھا ۔ اب ایسی مثالیں ملنا مشکل ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ناندیڑ گئے تھے ۔ گرودوارہ دیکھنے کی خواہش ہوئی ۔ چنانچہ وہ پہونچے ، کسی معاون نے اپنے سرپرست کو حیدرآباد سے آئے ایک مہمان کی آمد کی اطلاع دی ۔ اندر سے ایک سردارجی نکل آئے اور نہایت تپاک سے مصافحہ کیا اور گلے لگاتے ہوئے کہا ’’نواب صاحب کے حیدرآباد سے آئے ہیں‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے تحفتاً ایک رومال پیش کیا ۔ گردوارہ کا مشاہدہ کروایا ۔ مغزیات اور مٹھائی پیش کی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ دس نفوس پر مشتمل وفد اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور گردوارہ کی تعمیر میں تعاون کی اپیل کی ۔ اعلیٰ حضرت نے پانچ لاکھ نقد اور پانچ سو ایکر زمین نذر کردی ، ایسے غیر جانبدار اور وسیع القلب حاکم اب کہاں رہے ؟

کتب خانوں سے متعلق انہوں نے جواب دیا کہ آصف جاہی عہد میں اور اس سے قبل بھی سلاطین کی علم پروری اور فیا ضی کے سبب حیدرآباد دکن علم و ثقافت کا ایک بڑا مرکز تھا ۔ کتب خانوںکی بہتات تھی ۔ لوگ صرف مطالعہ کے عادی تھے ۔ فراغت اور آسودگی تھی ۔ پرسکون شہر تھا ۔ صبح ، شام اور رات کا منظر دلوں کو بھاتا تھا ۔ گھوڑے ، ٹانگے ، بگیاں اور بیل بنڈیاں تھیں۔ پانچ بجے صبح سے شہر کی صفائی کا کام شروع ہوتا تھا۔ سورج طلوع ہونے سے قبل شہر آئینہ جیسا لگتا تھا ۔ 1956 ء کے بعد مدراسیوں نے حیدرآباد کا رخ کیا ، آندھر ا سے بھی لوگ آدھمکے اور ہماری تہذیب بری طرح متاثر ہونے لگی ۔ اڈلی ، دوسہ کا چلن اتنا عام ہوگیا کہ اکثر گھروں میں ناشتہ باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ ادرک لہسن اکٹھے ہوکر صاف کرتے تھے ، مسالے پیسنے کی سل ہوتی تھی ۔ رات تمام کپڑے بھگوئے جاتے اور صبح ہاتھوں سے دھوئے جاتے تھے ۔ چولہے اور برتن سفالی ہوتے تھے ، لوگ اچھے لگتے تھے، فکر اچھی تھی ، ایک دوسرے کی اعانت دریغ نہیں رکتے تھے ۔ سونے اور بیدار ہونے کے اوقات مقرر تھے ۔ سب قدرتی نظام کے تابع تھے ۔ بیماریاں نہیں تھیں۔ تساہل پسندی عام ہوئی اور عیش و عشرت میں پڑگئے تو آرام پسند ہوگئے ۔ تساہلات نے آ گھیرا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اپنی تہذیب اور ا پنے کلچر سے علاقہ رکھنا یقیناً فخر و مباہات کی بات ہے۔ ساتھ ہی نئی نسل کو ہماری تہذیبی ، سیاسی ، سماجی اور ادبی قدروں کے ساتھ مذہبی رواداری سے واقف کروانا بھی ضروری ہے کہ وہی ہمارے اس عظیم ورثے کے نگہبان ہیں۔