حیدرآباد میں بڑھتے جرائم

   

کتنی حقیقتیں ہیں توجہ کی منتظر
منزل سے بے نیاز ہے ذوقِ سفر ابھی
حیدرآباد میں بڑھتے جرائم
حیدرآباد کو ملک کے میٹرو پولیٹن شہروں میں ایک محفوظ ترین شہر سمجھا جاتا تھا۔ یہاں جرائم کی شرح دیگر شہروں کی شرحوں کے مقابل کم ہوا کرتی تھی۔ سال 2017ء میں ریاست تلنگانہ اور شہر حیدرآباد میں جرائم کے بارے میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ڈاٹا میں بتایا گیا تھا کہ یہ شہر انسانوں کے رہنے کیلئے ایک محفوظ مقام ہے۔ ناگپور، کوزی کوڈ، کوئمبتور جیسے چھوٹے شہروں سے حیدرآباد کا تقابل کیا جائے تو حیدرآباد میں جرائم میں افسوسناک اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار ہر وقت اس بات پر خوشی ظاہر کرتے ہیں کہ شہر اور ریاست کے ماباقی علاقوں میں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ خواتین اور بچوں کے خلاف سائبر کرائم کا اگر ڈاٹا دیکھا جائے تو یہ بھی کم ہی بتائے گا حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آئے دن عصمت ریزی، قتل، اغواء اور دھوکہ دہی، کام کی جگہ خواتین کو جنسی ہراسانی کے واقعات ہورہے ہیں۔ خواتین کی سلامتی کو یقینی بنانے انہیں جنسی ہراسانی سے محفوظ رکھنے کیلئے ’’شی ٹیم‘‘ تشکیل دی گئی جس نے خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کو کم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس طرح پولیس کی ہمہ وقت چوکسی نے جرائم کی شرح میں کمی لائی ہے۔ اس کے باوجود جرائم کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں وہ خود پولیس، حکومت اور عام شہریوں کیلئے تشویشناک ہیں۔ دو روز قبل ہی شہر کے مضافات شمس آباد میں ایک وٹرنری ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور اسے زندہ جلادینے کا واقعہ رونما ہوا۔ اس علاقہ میں ایک اور خاتون کی جلی ہوئی نعش دستیاب ہوئی۔ یہ واقعات پولیس کیلئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے چیلنج بن گئے ہیں۔ عام خیال یہ ہیکہ ملک کے دارالحکومت دہلی جرائم کے معاملہ میں بھی دارالحکومت کا درجہ رکھتی ہے جہاں جرائم کی شرح 40.4 فیصد بتائی گئی ہے جبکہ دیگر میٹرو شہروں جیسے بنگلور میں 8.9 فیصد، ممبئی میں 7.2 فیصد اور چینائی میں 3.6 فیصد جرائم ریکارڈ کئے گئے ہیں لیکن حیدرآباد میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔ کام کی جگہ خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی کے واقعات سال 2017ء میں 24 فیصد تھے اور اس کے بعد یہ 30 فیصد ہوگئے۔ قتل، اقدام قتل، حملے، عصمت ریزی کے بعد متاثرہ خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دینے والے واقعات پر توجہ دی جائے تو حیدرآباد شہر بھی جرائم کے معاملہ میں دیگر شہروں کے مساوی ہوگیا ہے۔ جرائم میں کمی کیلئے پولیس کے دعویٰ اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس شہر میں وقت بہ وقت آپریشن، چبوترہ آپریشن اور دیگر چوکسی کے مظاہرے کرتے ہوئے خود کی کارکردگی کو بہتر ثابت کرتی ہے۔ خصوصی چوکسی کے حوالہ سے عام شریوں کو ہراسانی اور پریشان کرنے کا معمول بنا لیا ہے۔ پولیس کو اصل جرائم اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ وہ صرف عام شہریوں کو مجرم کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہراساں کرتی رہتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پولیس کی باریک نظر مجرموں کی شناخت میں ماہر ہوجائے۔ غیرسماجی عناصر پر کڑی نظر رکھنے اور مضافات میں پٹرولنگ کو بڑھاتے ہوئے جرائم کے رونما ہونے کو روکا جاسکتا ہے۔ گذشتہ سال ڈائرکٹر جنرل پولیس ایم مہندرا ریڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے جرائم کی شرح میں 32 فیصد تک کمی آئی ہے۔ گذشتہ 3 سال کے دوران شہر حیدرآباد میں جرائم کا ریکارڈ سامنے آیا ہے یہ تشویشناک ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی سے بھی جرائم پیشہ افراد خائف نہیں ہیں۔ شمس آباد میں وٹرنری ڈاکٹر کی موت کیلئے ذمہ دار خاطیوں کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد لی تھی جب ٹیکنالوجی سے جرائم پر قابو پانے میں مدد ملنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو پھر آئے دن سنگین واقعات کا رونما ہونا پولیس کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ہندوستان کی مجموعی پیداوار میں 4.5 فیصد کمی
سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے ملک میں مجموعی پیداوار کی شرح 4.5 فیصد ہوجانے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے ہندوستانی معیشت کو لاحق خطرات کی جانب اشارہ دیا ہے۔ مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت کی شعبدہ بازیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا کہ اب مودی حکومت کو ملک کی معیشت کو بچانے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماہ ستمبر کے اختتام تک ملک کی شرح پیداوار کی صورتحال گھٹ گئی ہے تو یہ 2013ء کے بعد سے سب سے کم شرح ہے۔ اس سے ملک کے اندر معاشی بحران پیدا ہونے کا اشارہ ہے۔ بی جے پی حکومت میں خاتون وزیرفینانس نرملا سیتارامن کی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کو نظرانداز کردیا جانا بہت بڑی غلطی ہے۔ پارلیمنٹ میں اسی ہفتہ کے اوائل میں وزیرفینانس کی حیثیت سے نرملا سیتارامن نے معاشی پیداوار کو بہتر بنانے کیلئے 32 اقدامات کرنے کا حوالہ دیا تھا لیکن ان کوششوں کے باوجود اگر ملک کی معیشت کی تصویر دھندلی دکھائی دے رہی ہے تو حکومت کو ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے چند ناکارہ یا بدعنوانیوں سے دوچار بنکوں کا سایہ ملک کی معیشت پر پڑنے لگا ہے تو سارا مالیاتی شعبہ تباہ ہوسکتا ہے۔ اسی لئے حکومت کو ابھی سے جرأتمندانہ اور اختراعی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہندوستان میں معاشی بہتری کے کئی وسائل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کو مناسب طریقہ سے بروئے کار لائے۔ اپنی کارکردگی کا سارا زور این آر سی اور سی اے بی (شہریت ترمیمی بل) پر لگائے گی اور ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی حد تک ہی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے گی تو پھر آنے والے دنوں میں کساد بازاری، معاشی سست روی سے عوام کو بری طرح دوچار ہونا پڑے گا۔