خاتون پہلوانوں کا دھرنا حکومت خاموش ، گودی میڈیا غائب

   

روش کمار
جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے جنترمنتر پہنچ کر دھرنے پر بیٹھی خاتون پہلوانوں سے اظہار یگانگت کیا ۔ دھرنے پر بیٹھی ان ریسلرس نے تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین سے درخواست کی ہے کہ وہ اس دھرنے میں شامل ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کریںتاکہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ برج بھوشن سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکے ۔ ستیہ پال ملک نے کہا کہ فوری ایف آئی آر درج کی جانی چاہئے ورنہ وہ گاؤں گاؤں سے لوگوں کو جنتر منتر کے اس دھرنے میں حصہ لینے کیلئے بھیج دیں گے ، ستیہ پال ملک کو چلنے میں تکلیف ہوتی ہے پھر بھی وہ اس دھرنا میں شامل ہوئے اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ وہ 25 اپریل کو راجستھان کے سیکر میں تھے لیکن وہاں سے واپس ہو کر 26 اپریل کو دوپہر خاتون کشتی کھلاڑیوں کے احتجاج میں شامل ہوگئے ، ستیہ پال ملک کے احتجاجی دھرنا میں پہنچنے سے ان کھلاڑیوں کا حوصلہ ضرور بڑھا ہوگا ۔ کپل سبل کے بعد ستیہ پال ملک دوسرے سیاسی لیڈر ہیں جو کھلاڑیوں کی حمایت میں آگے آئے ہیں اور ان کی مدد کررہے ہیں ۔ ستیہ پال ملک کے خیال میں حکومت کو برج بھوشن کو عہدہ سے ہٹانے اور اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرنی چاہئے تھی ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ آدھی رات میں آواز لگانے پر وہ ان کھلاڑیوں کے درمیان آجائیں گے ۔ گزشتہ دنوں پرشانت ٹنڈن اور کرن تھاپر کو دیئے گئے انٹرویو میں ستیہ پال ملک نے کئی رازوں کا انکشاف کیا لیکن وزیراعظم مودی نے ابھی تک ستیہ پال ملک کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ ستیہ پال ملک نے خاتون کشتی کھلاڑیوں کی حمایت کرتے ہوئے کچھ یوں کہا’’ ڈلاڈلی بیٹیاں جو سخت اور برے حالات میں محنت کر کے ہمارا قومی پرچم دنیا بھر میں لہراتی ہیں ، میڈلس لیکر آتی ہیں اُس وقت تو ہم بڑی بے شرمی سے اُن کو چائے پر بلاتے ہیں انہیں تہنیت پیش کرتے ہیں ان کے ساتھ تصویر کشی کرواتے ہیں اور آج یہ سڑک پر بیٹھی ہیں یہ ہم سب کیلئے ڈوب مرنے کی بات ہے ۔ میں آپ سے یہی کہونگا کہ یہ جب تک لڑیں ان کا ساتھ دینا ہے اور یہ تعداد روز بڑھنی چاہئے میں خود کھاپوں اور باقی جگہوں پر جاؤں گا لوگوں کو بھیجوں گا چونکہ یہ لڑائی صرف ان کی نہیں ہے یہ لڑائی ہمارے ملک کی بیٹیوں کی عزت و احترام کی لڑائی ہے‘‘ ۔ جہاں تک ان خاتون ریسلرس کے احتجاجی دھرنے کا سوال ہے یہ لوگ شوق سے دھرنے پر نہیں بیٹھی ۔ تین ماہ میں دوسری مرتبہ یہ خاتون کھلاڑی دھرنے پر بیٹھی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اس سے ان کی پریکٹس پر اثر پڑرہا ہوگا ان کیلئے ایک ایک دن بھاری گذر رہا ہے ۔ ہر دن صبح صبح اپنے اکھاڑے میں پہنچنے والے یہ کھلاڑی جنتر منتر میں ہر صبح صبح دوڑ لگارہے ہیں کسرت کررہے ہیں ان کے کوچ اسی مقام پر پریکٹس کروانے لگے ہیں ۔ کوئی بھی کھلاڑی پریکٹس کا ایک دن بھی نہیں گنواسکتا ۔ جنتر منتر پر قومی اور بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی صبح صبح پریکٹس کرنے لگ گئے کیونکہ انہیں اس کے بعد دن بھر احتجاج کیلئے بیٹھنا ہے اس دہلی میں کھلاڑیوں کی یہ حالت ہوجائے گی ان لوگوں نے کبھی نہیں سوچا ہوگا عام وقت ہوتا یعنی 2014 سے پہلے کا ہندوستان ہوتا تو ان پہلوانوں کی پریکٹس اور احتجاج کے ویڈیوز کو گھنٹوں چیانلوں پر چلایا جاتا اور اتنا دباؤ بن جاتا کہ دوپہر تک وزیر اسپورٹس کا استعفی بھی منظر عام پر آجاتا لیکن اب چیانل کا مطلب ’’ خبر کو غائب کردینا ہے ‘‘ ان چیانلوں پر اپوزیشن قائدین کے مکانات و دفاتر اور کاروباری اداروں پر دھاووں سے لیکر غیرضروری تنازعات کی ساری خبریں چلتی ہیں بس اپوزیشن جب حکومت سے سوال کرتی ہے تو خبر غائب ہوجاتی ہے اس طرح جب عوام ، کسان یا یہ کھلاڑی حکومت سے سوال کرتے ہوئے اپوزیشن کی طرف جاتے ہیں ، اپوزیشن ( مخالف ) بنتے ہیں تو یہ خبریں بھی چیانلوں سے غائب کردی جاتی ہیں ، جب کوئی کھلاڑی اولمپک میں میڈل حاصل کرتا ہے یا حاصل کرنے والا ہوتا ہے تو دنیا بھر کے نیوز چیانل کھلاڑی کے گاوں پہنچ جاتے ہیں محلہ میں چلے جاتے ہیں گھر کے اندر کچن اور بیڈروم میں چلے جاتے ہیں کیمرہ لیکر ماں سے بات کررہے ہوتے ہیں ۔ باپ سے بات کررہے ہوتے ہیں ۔ جذباتی سوالات کے ذریعہ رلارہے ہوتے ہیں اور یہ بہن بہنوئی اور یہاں تک کہ اسکول کے ٹیچر کو پکڑ لاتے ہیں اور ان کا انٹرویو چل رہا ہوتا ہے یاد کریں تو ایسے وقت میں لگتاہے کہ ہمارے کھلاڑی اور ان کا خاندان میڈیا کے درمیان میں ہی رہتا ہے لیکن آج جب وہی کھلاڑی جنتر منتر پر احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہیں تو ان کی بات لوگوں تک نہیں پہنچائی جارہی ہے ۔ کھلاڑی ہی شکایت کررہے ہیں کہ جنتر منتر پر انٹرویو لینے تو بہت لوگ آتے ہیںلیکن بات کیا ہے کہ وہ انٹرویو کہیں دکھائی نہیں دیتا عجیب ملک اور دورآگیا ہے ۔ کسان احتجاج کرنے آتے ہیں تو انہیں گودی میڈیا میں دہشت گرد بنایا جانے لگتا ہے اولمپک میڈلس جتنے والے کھلاڑی دھرنے پر بیٹھتے ہیں تو میڈیا وہاں سے غائب ہوجاتا ہے ۔ آج کھلاڑیوں کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ میڈیا ان کی بات نہیں دکھا رہا ہے مگر حکومت پر اثر کیوں نہیں پڑرہا ہے ۔ سارا قصور میڈیا پر ہی کیوں ؟ حکومت اپنی ذمہ داری کیوں نہیں نبھاتی ۔ کھلاڑیوں سے بات کیوں نہیں کرتی ؟ ببپتاپھوگاٹ ونیش پھوگاٹ کی بہن ہیں اور ببیتا بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں اور بی جے پی میں ہی ہیں ۔ یو پی بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کی عہدیدار ہیں ۔ ان کے ٹوئیٹر ہینڈل میں وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ تصویر ہے ایک اور تصویر ہے جسے بیانر فوٹو کہتے ہیں وہ وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ ہے ۔ وزیراعظم مودی ببیتا پھوگاٹ کو ٹوئیٹر پر فالو کرتے ہیں ، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور مرکزی وزیر سمرتی ایرانی بھی ببیتا پھوگاٹ کو فالو کرتی ہیں ۔ 25 اپریل کو ببیتا پھوگاٹ نے ٹوئیٹ بھی کیا کہ میں پھر سے یہی کہنا چاہوں گی کہ ایک سیاسی لیڈر نہیں کھلاڑی ہونے کے ناطے اپنے کھلاڑیوں ساتھیوں کے ساتھ کھڑی ہوں ۔ چیف منسٹر ہریانہ نے بھی کہا ہے کہ کوئی بھی خاطی بخشا نہیں جائے گا اور مجھے پوری امید ہیکہ ہمارے کھلاڑی ساتھیوں کے ہر مطالبہ پر صحیح انصاف ہوگا ۔ کم از کم ببیتا پھوگاٹ کے اس بیان اور ٹوئیٹ پر ہی گودی میڈیا کے مباحث بدل جانے چاہئے تھے ۔ ببیتا پھوگاٹ نے بیان دیا ہے ، پی ٹی آئی نے اس بیان کو جاری کیا ہے اور اس کی بنیاد پر کئی جگہ یہ خبر شائع ہوئی ہے اس کے باوجود ان کھلاڑیوں کا شکوہ ہے کہ میڈیا ان کی باتوں کو نہیں دکھارہا ہے ۔ ببیتا نے پی ٹی آئی سے کہا ہیکہ نگرانی پیانل کی ان کی ساتھی رادھیکا شری من نے پوری رپورٹ پڑھنے نہیں دی پڑھنے سے پہلے ہی چھین لی ، امر اُجالہ نے لکھا ہے کہ رادھیکا نے اس الزام کو مسترد کردیا ۔ ببیتا نے بیان دیا ہیکہ میں نے قطعی رپورٹ کے کچھ ہی صفحات پڑھے تھے اور مجھے کچھ اعتراض تھے لیکن رادھیکا شری من نے آکر رپورٹ چھین لی ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ میں اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں جو احتجاج کررہا ہے اس لئے میں رپورٹ نہیں پڑھ سکتی ، ببیتا پھوگاٹ اس کمیٹی کی رکن ہے جسے خاتون پہلوانوں کی شکایت پر تحقیقات کرنے کا کام سونپا گیا ہے ۔ اب اگر ببیتا کا بیان بھی گھنٹوں کوریج کا موضوع نہیں بنتا ہے توکیا کیا جاسکتا ہے ، ببیتا کا یہ بیان بتارہا ہے جنتر منتر پر خاتون پہلوان کتنی مشکل لڑائی لڑنے چلی گئیں ہیں ۔ دنیشں پھوگاٹ اور ببیتا پھوگاٹ کی بہن گیتا پھوگاٹ نے بھی احتجاج کی تصویر کو ٹوئیٹ کیاہے اور لکھا ہیکہ ہم انصاف چاہتے ہیں ۔ گپتا پھوگاٹ اولمپک کھلاڑی رہی ہیں ۔ دولت مشترکہ کھیلوں میں گولڈ میڈل جیت چکی ہیں ۔ وزیراعظم انہیں بھی فالو کرتے ہیں ۔ دنیش پھوگاٹ ، ببیتا پھوگاٹ کے علاوہ ان کی تین اور بہنیں کشتی کھلاڑی ہیں ۔ عامر خاں نے ان بہنوں کی جدوجہد پر فلم بنائی دنگل جو چین میں بھی بڑے شوق سے دیکھی گئی مگر جب یہی بہنیں جنتر منتر پر بیٹھی ہیں تو ان کی یہ بھی شکایت ہے کہ کوئی میڈیاا نہیں دکھانا تک مناسب نہیں سمجھا اور حکومت جواب تک نہیں دیتی اور ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جاتی ۔ ان کھلاڑیوں نے پچھلی بار سیاسی لیڈروں سے دور رہنے کی کوشش کی تھی وہ چاہتے تھے کہ ان کے دھرنے کو سیاسی نظر سے نہ دیکھا جائے یہ کھلاڑی بھی گودی میڈیا کے جھانسے میں آکر اسی طرح اپوزیشن کو دور کررہے تھے لیکن اس کے بعد بھی گودی میڈیا ان کے ساتھ نہیں ہے ۔ اب تو آپ سمجھ جائیں کہ گودی میڈیا کس کا ہے ؟ بہرحال ان کھلاڑیوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ گودی میڈیا صرف حکومت کی بات دکھاتا ہے اس کی تائید وحمایت کرتا ہے اور حکومت کے آگے ہاتھ جوڑے ہاں جی ہاں جی کرتا ہے ۔