خطبہ کے دوران چھینکنے والے کا الحمدللّٰہ کہنا

   

سوال: بسا اوقات جمعہ کے خطبہ دوران چھینک آجاتی ہے ، ایسے وقت میں الحمدللّٰہ کہنا چاہئے یا نہیں جبکہ یہ بات مشہور ہے کہ خطبہ کے دوران سرکار کا نام مبارک آئے تو درود نہیں پڑھنا چاہئے۔ تو کیا چھینکنے والے پر الحمدللّٰہ کہنا ضروری ہے یا نہیں ؟
جواب : جب خطیب خطبہ کیلئے نکلے تو بفحوائے حدیث شریف نہ کوئی نماز ہے اورنہ کلام کرنا ہے ۔ دوران خطبہ ہمہ تن گوش ہوکر خطبہ سننا لازم ہے۔ دوران خطبہ بات چیت حتی کہ ذکر و اذکار بھی منع ہیں اس لئے اگر کسی شخص کو خطیب کے خطبہ دیتے وقت چھینک آجائے تو اس پر شرعاً ’’ الحمدللّٰہ ‘‘ کہنا نہیں ہے۔ تاہم صحیح قول یہی ہے کہ ایسا شخص دل میں الحمد للہ کہہ لے۔ بدائع الصنائع جلد اول صفحہ ۴۰۴ میں ہے : وأما العاطس فھل یحمد اللہ تعالیٰ ؟ فالصحیح : أنہ یقول ذلک فی نفسہ لان ذلک لمالا یشغلہ عن سماع الخطبۃ۔ فقط واللہ أعلم

اولاد کے لئے وصیت
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ساری موروثی جاگیر اور گھر کا ایک ایک تنکا بیت المال میں واپس کردیا تھا، یعنی آپ کے وصال کے وقت آپ کی اولاد کے لئے معاش کا کوئی سامان باقی نہیں تھا۔ وفات سے کچھ دیر پہلے آپ کے برادرِ نسبتی مسلمہ بن عبد الملک نے عرض کیا: ’’امیر المؤمنین! آپ نے مال و دولت سے اپنی اولاد کا منہ ہمیشہ خشک رکھا اور اُنھیں اب خالی ہاتھ چھوڑکر جا رہے ہیں، لہذا ان کے متعلق مجھے یا خاندان کے کسی اور شخص کو کچھ وصیت فرما دیجئے!‘‘
یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’تم کہتے ہو کہ میں نے مال و دولت سے اولاد کا منہ ہمیشہ خشک رکھا۔ خدا کی قسم! میں نے ان کا کوئی حق نہیں مارا، البتہ جس مال میں ان کا کوئی حق نہیں تھا، انھیں نہیں دیا۔ تم کہتے ہو کہ میں ان کے متعلق کسی کو وصیت کرتا جاؤں، سو اس معاملے میں میرا وصی اور ولی خدائے تعالیٰ ہے، جو نیکوکاروں کا دوست ہے۔ میرے بچے اگر خدا سے ڈریں گے تو وہ ان کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال دے گا اور اگر وہ گناہ میں مبتلا ہوئے تو میں ان کے لئے مال چھوڑکر انھیں گناہ پر مزید دلیر اور طاقتور نہ بناؤں گا‘‘۔اس کے بعد آپ نے اپنی اولاد کو اپنے سامنے بلایا اور آنکھوں میں آنسو بھرکر فرمایا: ’’میری جان تم پر قربان کہ تمھیں میں خالی ہاتھ چھوڑے جا رہا ہوں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے تمھیں ایسی حالت میں چھوڑا ہے کہ کسی مسلمان یا ذمی کا تم پر کوئی حق نہیں ہے، جس کے لئے وہ تم سے مطالبہ کرسکے۔ میرے بچو! تمہارے باپ کے اختیار میں دو باتوں میں سے ایک تھی، پہلی بات یہ کہ تم خوب دولت مند ہوجاؤ اور باپ دوزخ میں جائے اور دوسری بات یہ کہ تم خالی ہاتھ رہ جاؤ اور تمہارا باپ جنت میں جائے۔ پیارے بچو! تمہارے باپ نے دوسری بات پسند کی ہے، خداوند قدوس تمہارا حافظ و نگہبان ہے، وہی تم کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے گا!‘‘۔ (تاریخ اسلام سے اقتباس)