خواتین کا اہم گروپ جو شاہین باغ کے حقیقی منتظمین ہیں

,

   

نئی دہلی۔ شاہین باغ کا احتجاج 29جنوری کے روز45ویں روز میں داخل ہوگیا‘ اس کے متعلق سیاسی جماعتوں اور ان کی طرف سے پیسے ادا کئے جانے کے الزامات پر جواب دیتے ہوئے 22سالہ روبی نے کہاکہ ہم گاندھی جی کے تین بندر ہیں۔

اگر تیس سے پچاس خواتین پر مشتمل ایک گروپ جس میں سب سے کم عمر22جبکہ سب سے عمررسید60سالہ عورتیں جو خیمہ میں ایک قلعہ بنائی ہوئی ہیں کوئی ردعمل ظاہر کرنے سے انکار کررہی ہیں تو اس کا مقصد ان کی توجہہ مضبوط ہے۔

انہوں نے کہاکہ وہ اسی وقت روڈ نمبر13اے سے اٹھیں گے جب ”کالا قانون سی اے اے“ برخواست کیاجائے گا۔ کیسے ایک قدآمت پسند گھریلوکام کرنے والے والی‘ کچھ پیشہ وارانہ اور کالج طلبہ کے گروپ حکومت کو چیالنج کررہا ہے؟ ان کی پشت پناہی کون کررہا ہے؟‘ ”ہم کرتے ہیں“کچھ دس عورتوں نے متحدہ طور پر28جنوری کے روز شہہ نشین کا انتظام کیاتھا۔

عمررسیدہ میں سے ایک جامعہ نگر کی ساکن ظہیرہ نے کہاکہ”ہم تمام لیڈران ہیں“۔ مذکورہ خواتین نے مختلف گروپس تشکیل دئے ہیں جس کی وقت فوقتا ذمہ داریاں تبدیل ہوتی ہیں اس میں شہہ نشین‘ ہجوم کی دیکھ بھال کرنا اور شر پسندوں پر نظر رکھنے کی ذمہ دارایاں ہیں۔

نازیہ شکیل نے اس کی شروعات کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”ڈسمبر15کی رات‘ جب پولیس نے جامعہ ملیہ پر حملہ کیا‘ ہماری کالونی تک ایک مارچ نکالاگیاتھا۔

اس روز خوف میں ہم لوگ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ پھر افرتفری پیدا ہوگئی‘ لوگ ادھر ادھردوڑ رہے تھے۔کچھ وقت کے بعد جب حالات معمول پر ائے ہم گھروں کے باہر نکلے‘ جس میں تمام پڑوسی مرد اور خواتین شامل تھے۔ اگر ہم گھر کے باہر نہیں نکلتے تو کب ہم نکلتے تھے؟“۔

ایک اور عورت جس کی کم عمر جامعہ میں تعلیم حاصل کررہی ہے نے مزیدکہاکہ ”ہم لوگ ہائی وے تک ائے۔ہم صرف بیٹھے تھے‘ ہمارے دل دھڑک رہے ہیں‘خوف میں تھے ہم۔ کچھ لوگ3سے 4بجے رات کو گھر واپس لوٹے۔

ایسے اس کی شروعات ہوئی“۔ہائی وے پر کچھ لوگ شرم وہار کے غریب علاقے کے لوگ جنھیں خوف تھا کہ اب ان کے گھروں کو نشانہ بنایاجائے گا“۔

انہو ں نے کہاکہ 16ڈسمبر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ بڑھی تعداد کو دیکھ کر ایک گروپ جس میں کارول باغ کی پرکاش دیوی ہیں نے جائزہ لے لیا‘ انہوں نے بھی احتجاجی دھرے میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔انہوں نے کہاکہ ”میں یہاں نہیں ہوسکتی تھی“۔

کون پیسے فراہم کررہا ہے۔

موقع کا ایک دورہ اس بات کا انکشاف کرے گا کہ وہاں پر کس قدر کم خرچ پر احتجاج کیاجارہا ہے۔ کوشک نے کہا کہ”کچھ لوگوں نے ایک جنریٹر کی پیشکش کی ہے۔

کھانے میں مقامی چپس ہیں“۔اہم رکن شاہین کوثر نے کہا ہے کہ ایک مدد کرنے والے نے مائیک سسٹم فراہم کیا۔ سپلائنگ کمپنی والے نے ”پیشگی رقم لی ہے جس کو کسی طرح سے پورا کرکے“ ہم نے ادا کیاہے۔

احتجاج کے متعلق ”سیاسی طاقتیں“ بے ہودی باتیں کررہے ہیں تاکہ ہمارے احتجاج کو بدناک کرسکیں۔ کوثر کا کہنا ہے کہ ”یہاں پر کوئی فنڈنگ نہیں ہے‘ نہ کوئی نقدی ہے اور نہ ہی پے ٹی ایم ہیں“۔

کوثر علاقے میں اٹھویں جماعت تک اسکول چلاتی ہیں۔مختلف یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس یہاں پر آکر رنگ برنگے پوسٹرس اور پلے کارڈس تیار کرکے دے رہے ہیں

اس کوچلا کون رہا ہے

نازیہ‘ کہکشاں اور ریتو کوشک یہ وہ نام ہیں جو شاہین باغ میں مختلف ذمہ داریوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
سرد راتوں کے باوجود یومیہ پروگرام میوں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔

اقرا کا کہنا ہے کہ ”تعداد میں اضافہ کے ساتھ ہمیں انتظامات کرنے میں کافی دشواریاں پیش آتی ہیں۔شامیانہ کھینج لیاجاتا ہے‘ ایک ٹیبل کو اسٹیج بناکر رکھ دیاجاتا ہے۔

پیپرس کو ہٹاکر ایک رجسٹرار وہاں رکھ دیاجاتا ہے تاکہ اسپیکرس اور دیگر لوگ اس میں اپنی دستخط ثبت کریں