دائرۃ المعارف عثمانیہ کا وجود خطرہ میں، کئی شعبہ جات کو بند کردیا گیا

   


مستقل ڈائرکٹر نہیں، مخطوطات کا ترجمہ بند، ہزاروں کتابیں مارکیٹنگ کی منتظر
حیدرآباد ۔2 ۔ڈسمبر (سیاست نیوز) دائرۃ المعارف عثمانیہ یونیورسٹی کے وجود کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔ 1888 ء میں دنیا بھر سے عربی مخطوطات کے ترجمے اور تحفظ کے مقصد سے قائم کردہ یہ ادارہ آج حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ ادارہ کی ابتر صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں مستقل ڈائرکٹر کا تقرر نہیں کیا گیا اور مخطوطات کے ترجمے کا پراجکٹ اچانک روک دیا گیا ۔ مستقل اور عارضی ملازمین کی تعداد دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔ دائرۃ المعارف کا ایڈمنسٹریٹیو آفس مہر بند کردیا گیا جبکہ پریس ، بائینڈنگ سیکشن اور دیگر اہم شعبہ جات غیر کارکرد ہوچکے ہیں۔ دائرۃ المعارف دراصل عثمانیہ یونیورسٹی کے تحت ہے جسے محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت بجٹ جاری کیا جاتا ہے۔ تلنگانہ حکومت نے اقلیتی بہبود سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں دائرۃ المعارف کی کارکردگی کے بارے میں تین صفحات پر مشتمل تفصیلات جاری ہیں جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ 130 برسوں میں دائرۃ المعارف نے 240 ٹائٹل شائع کئے ہیں۔ مورخین کی رہنمائی کیلئے تقریباً 800 جلدیں مختلف شعبہ جات میں تیار کی گئی ہیں۔ دنیا بھر سے ریسرچ کرنے والے افراد اور ماہرین تعلیم اس ادارہ سے استفادہ کرتے ہیں۔ شعبہ طب کی نامور تصنیفات کا عربی زبان سے ترجمہ کرتے ہوئے تقریباً 25 جلدیں تیار کی گئی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے دائرۃ المعارف دن بہ دن زوال کی طرف پیشرفت کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ادارہ کو بند کرنے اور کسی اور لائبریری کو مخطوطات منتقل کرنے کا اعلان کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر مصطفی شریف نے ڈائرکٹر کی حیثیت سے مخطوطات کی کے ترجمہ کا پراجکٹ منظور کرایا تھا جس کی مالیت 37 کروڑ تھی۔ اس پراجکٹ کے تحت کام جاری تھا کہ اچانک مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے پراجکٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایڈیٹوریل اسٹاف جس میں علماء اور عربی سے ترجمہ کے ماہرین موجود ہیں، ان کی تعداد گھٹ کر 8 ہوچکی ہے جبکہ 17 منظورہ پوسٹ ہیں۔ ادارہ کی برقراری اور ترقی سے حکومت کی عدم دلچسپی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے رجسٹرار کو انچارج ڈائرکٹر مقرر کیا۔ ڈائرکٹر کا عہدہ عدالتی کشاکش کا شکار ہوچکا ہے۔ دائرۃ المعارف کے ایڈمنسٹریٹیو آفس کو مہربند کردیا گیا اور ٹیلیفون غیر کارکرد ہوچکا ہے۔ دائرۃ المعارف کے منظورہ اسٹاف کی تعداد 90 ہے، جو آج گھٹ کر 20 ہوچکی ہے جن میں زیادہ تر عارضی اور کنٹراکٹ ملازمین ہیں۔ ترجمہ کے پراجکٹ کے آغاز کے بعد میڈیسن ، انڈین ہسٹری اور دیگر شعبہ جات کی تقریباً 10 کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ دائرۃ المعارف نے ترجمہ کی گئی کتابوں کے تقریباً دس ہزار سے زائد نسخے موجود ہیں لیکن انہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہے۔ غیر معیاری بائینڈنگ کے نتیجہ میں مارکٹ میں کتابوں کی کوئی مانگ نہیں ہے۔ عربی سے انگریزی میں ترجمہ کی گئی ان کتابوں کی نکاسی حکام کیلئے ایک اہم مسئلہ ہے۔ دائرۃ المعارف میں دنیا بھر سے نادر مخطوطات حاصل کرتے ہوئے ان کی تحقیق اور ترجمہ کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ ادارہ میں 300 مخطوطات کا ترجمہ تقریباً 2.25 لاکھ صفحات پر مشتمل ہے اور 300 سے زائد جلدیں ہیں۔ 43 مختلف مضامین میں یہ ترجمے کئے گئے ۔ حال ہی میں دائرۃ المعارف کی کتابوں کو سعودی عرب کے بک فیر میں رکھا گیا تھا لیکن کسی نے توجہ نہیں دی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دائرۃ المعارف کا تحفظ کرتے ہوئے حکومت نادر مخطوطات کے ترجمہ کو یقینی بناسکتی ہے۔ حکومت نے ہر سال انتہائی معمولی بجٹ جاری کیا ہے جو ملازمین کی تنخواہوں اور مینٹننس کے لئے بھی کافی نہیں ہے۔ اس تاریخی ادارہ کے تحفظ پر نہ صرف حکومت بلکہ غیر سرکاری اداروں کو توجہ مرکوز کرنی چاہئے ورنہ بعد میں پچھتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سابقہ ڈائرکٹر نے بعض مترجمین کو ملازمت سے علحدہ کردیا ہے۔ سابقہ ڈائرکٹر کی جانب سے مبینہ طور پر فنڈس کے بیجا استعمال کی جانچ کی جارہی ہے ۔ اس تاریخی ادارہ کی عمارت انتہائی خستہ ہوچکی ہے اور عثمانیہ یونیورسٹی نے مرمت اور تزئین نو کے کام پر توجہ نہیں دی۔ ر