درمیان آمدنی کے لوگ معاشرے کے اب نئے غریبوں میں شامل

,

   

حیدرآباد۔معیشت کے تمام شعبہ جات پر اس عالمی وباء کا اثر پڑا ہے‘ مگر اس کا سب سے زیادہ بوجھ اگر کسی پر پڑا ہے تو وہ درمیان آمدنی والے لوگ ہیں جنھیں ہم میڈل کلاس طبقہ کہتے ہیں۔

ہماری ہمدردیاں کسانوں‘ مہاجرین ورکرس اور دیہی علاقوں سے ہیں مگر درمیانی آمدنی والے لوگوں کو کیا‘ بالخصوص ان کا جو شہری علاقوں میں ہیں؟۔

مذکورہ لوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کام بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی ملازمت سے محروم ہوگئے ہیں۔

درمیانی آمدنی والوں لوگوں میں پانچ سے پچاس ہزار ماہانہ کی کمائی کرنے والے لوگ آتے ہیں۔

مذکورہ لاک ڈاؤن او رعالمی وباء کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس کا اثر راست طور پر درمیانی آمدنی والے لوگوں پر پڑا ہے جو معاشرے کے نئے غریبوں میں شامل ہوگئے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے بعد نچلے طبقے کے لوگوں کو کم سے کم آمدنی شروع ہوگئی‘ ملازمہ کے طور نوکریاں ملیں‘ مذکورہ اٹورکشہ شروع ہوگئے جیسا وہ پہلے کیا کرتے تھے۔

ٹھیک اسی طرح اونچی طبقے کو ضروریات زندگی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔

درمیانی آمدنی والے لوگوں کی ملازمتیں چلی گئیں اور روز بہ روزکے اخراجات ان کے لئے پریشانیوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

انہیں نہ تو کوئی تنخواہ مل رہی ہے اور حکومت کی جانب سے ٹیکس میں کوئی راحت فراہم کی گئی ہے۔

جی ہاں فیکٹریوں نے اپنا پروڈکشن شروع کردیا ہے مگر کیا درمیانی آمدنی والے لوگوں کے پاس مصنوعات کو خریدنے اور اس کو استعمال کرنے کے لئے درکار پیسہ ہے؟۔

یہ محض اس لئے ہوا ہے کیونکہ وہ نچلی اور اونچے طبقے کے درمیان میں دب کر سینڈ ویچ بن گئے ہیں‘ ان کے پاس اتنا پیسہ ہونا چاہئے کہ وہ ان حالات سے گذر سکیں؟یہ حقیقت ہے اس سے آگے کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔

مذکورہ لوگ خانگی اسکولوں میں یونیورسٹیوں‘ کالجوں‘ افیس اسٹنٹس‘ ڈاٹا انٹری اپریٹرس‘ سلیس پرسن‘ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں اسٹنٹ منیجرس‘ ریسپشنسٹ‘ چھوٹے کاروباری‘

جو موبائیل کی چھوٹی دوکانیں اور فون خدمات‘ ان کی مرمت کی دوکانیں چلاتے اور دیگر صنعتی خدمات انجام دیتے ہیں ان میں شامل ہیں۔

پچھلے تین مہینوں میں اس طرح کی بے شمار خبریں ائی ہیں کہ کئی اداکاروں نے اپنے ملازمین کو بے یارومددگار چھوڑ دیاہے اور کئی نے ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کردی ہے۔

کوا کے مظہر علی نے انکشاف کیاہے کہ ”جن کی آمدنی ماہانہ 15,000روپئے ہوتی ہے اور ایک درمیانی آمدنی والے ہونے کا ان پر دباؤ ہے‘ وہ بڑی مشکل سے کچھ بچا پارہے ہیں۔

دوسرے لوگ ان کی مدد کرنے کے متعلق نہیں سونچ رہے ہیں اورٹھیک اسی طرح وہ بھی کسی سے مدد کی گوہار لگانے کے لئے ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں‘انہیں اپنے وقار پر کارضرب محسوس ہورہی ہے۔

ان میں سے ایسے کئی لوگ ہیں جن کو تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو اپنی فیملی کی آمدنی کو واحد ذریعہ ہیں“۔

مظہر نے مزید کہاکہ ”آندھر ا پردیش میں اساتذہ خودکشیاں کررہے ہیں اور اسی طرح حال تلنگانہ میں بھی ہوسکتا ہے۔

یہ وقت ہے۔ حکومت کو اس طرح کے خاندانوں کے ساتھ بنیادی راشن کی فراہمی کے ساتھ مدد کے لئے آگے آنا چاہئے“۔

درایں اثناء کئی ملازمتیں تیزی او ربے رحمی کے ساتھ ختم کردی گئیں۔ آزاد دوکانیں اپنے عملے میں کمی لارہی ہیں‘ ڈیلیوری عملے کو برطرف کردیاگیاہے اور سپلائی چین میں سرگرم بڑے پیمانے پر میڈل کلاس طبقے کو انڈسٹری کی ریڑھ کی ہڈی کو تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔

ملازمین ان کو تنخواہیں یہ کہتے ہوئے ادا کرنے سے قاصر ہیں کہ”کاروبار ماند ہے۔ ہم کیسے تنخواہیں ادا کریں“۔

اصغر علی اسکولو ں اور این جی اوز کے کنسلٹنٹ نے کہاکہ ”شہر میں 3700کے زائد اساتذہ ہیں جنہیں مدد کی اشد ضرورت ہے۔

انہیں پچھلے تین ماہ سے اب تک تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انتظامیہ بھی بے بس ہوگیاہے کیونکہ حکومت اورعالمی وباء نے انہیں آمدنی سے محروم کردیا ہے۔

اس سے زیادہ پریشان کن یہ ہے کہ کئی بستی اسکولیں بن ہوگئے ہیں کیونکہ وہاں پر نہ تو داخلہ ہورہے ہیں اور نہ ہی وہ کرایہ اور تنخواہیں ادا کرپارہے ہیں“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”جس طرح غریبوں کو بنیادی کھانے کی سہولتیں دی جارہی ہیں‘ میڈل کلاس بالخصوص کم آمدنی والے میڈیکل کلاس کے لئے بھی یہ کیاجانا چاہئے“۔

عارضی طور پر کئی میڈل کلاس لوگوں کو گھریلو کام کاج‘ پکوان‘ گھروں سے ٹیوشن اور ٹیلرس کا کام انجام دیتے ہوئے دیکھا جارہا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے اخراجات پورے کرسکیں۔

شائستہ جو ایک اسٹور میں کام کرتی تھیں نے کہاکہ ”گاہکوں کی عدم موجودگی کے سبب مجھے کام سے نکال دیاگیاہے

۔ بنیادی ضرورتوں اورگذرے کے لئے میں کام کی تلاش میں ہوں“۔

میڈل کلاس کو امداد فراہم کئے بغیر مگرپٹرول او رڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعہ مذکورہ حکومت معاشی بحالی کی کوشش کررہی ہے۔