دریچوں تک چلے آئے تمہارے دور کے خطرے

,

   

یکساں سیول کوڈ … اتراکھنڈ میں پہلا تجربہ
کشمیر فائلز … ہندوتوا کا سہارا

رشیدالدین
کامیابی ہو کہ شکست انسان کو قابو میں ہونا چاہئے۔ اگر ان مواقع پر بے قابو ہوجائیں تو نتائج سنگین ہوسکتے ہیں اور یہ زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بی جے پی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار ویسے تو 2014 سے ہی بے قابو ہیں لیکن 5 ریاستوں کے نتائج کے بعد معاملہ جنون کی کیفیت اختیار کرچکا ہے۔ 4 ریاستوں میں اقتدار میں واپسی کے بعد ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سرگرمیاں تیز ہوچکی ہیں۔ اسمبلی انتخابات کے دوران کرناٹک کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہم چلائی گئی ۔ حجاب کے مسئلہ کو تنازعہ کی شکل دی گئی اور ملک بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا گیا۔ کرناٹک سے چلائی گئی مہم آخرکار کامیاب ہوگئی۔ چار ریاستوں میں کامیابی کا جشن تھما بھی نہیں تھا کہ اترپردیش اور اترا کھنڈ سے جارحانہ فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے سے قبل ہی ہجومی تشدد اور مسلمانوں پر حملوں کے واقعات شروع ہوگئے۔ مخالفین کے خلاف یوگی کا بلڈوزر حرکت میں آگیا۔ نتائج کے بعد یہ حال ہے تو پھر تشکیل حکومت کے بعد کیا ہوگا ؟ اترپردیش ، آسام ، ہریانہ ، کرناٹک ، گجرات اور مدھیہ پردیش میں ہندوتوا ایجنڈہ کے تجربہ کے بعد اتراکھنڈ کا انتخاب کیا گیا۔ دوسری مرتبہ چیف منسٹر بنتے ہی پشکر سنگھ دھامی نے ریاست میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کردیا ۔ کابینہ کے پہلے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے لئے اعلیٰ اختیاری کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ شادی بیاہ ، طلاق ، وراثت اور دیگر معاملات میں ہر شہری کیلئے یکساں قوانین ہوں گے اور پرسنل لاز کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ یکساں سیول کوڈ کے بارے میں قانون سازی کا اختیار مرکز کو حاصل ہے یا پھر ریاستیں بھی اپنے طور پر قانون بناسکتی ہیں، یہ ایک طویل قانونی بحث ہے۔ پشکر دھامی نے یکساں سیول کوڈ کا اعلان ظاہر ہے اپنی مرضی سے نہیں کیا ہوگا بلکہ آر ایس ایس کے اشارہ پر یہ اعلان کیا گیا۔ 2024 عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے منصوبہ کا تجربہ اتراکھنڈ سے کیا جارہا ہے۔ پشکر دھامی نے چناؤ مہم میں یکساں سیول کوڈ کا وعدہ کیا تھا ۔ پشکر دھامی یہ بھول گئے کہ عوام نے انہیں شکست دے کر اس تجویز کو عملاً مسترد کردیا ہے لیکن بی جے پی عوام کے مسترد کردہ شخص کے ذریعہ ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری چاہتی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعلان توقع کے برخلاف نہیں ہے کیونکہ سنگھ پریوار اتراکھنڈ میں تجربہ کرتے ہوئے عوامی اور عدالتی ردعمل دیکھنا چاہتا ہے تاکہ قومی سطح پر نفاذ میں کوئی دشواری نہ ہو۔ رام مندر ، کشمیر کی دفعہ 370 اور یکساں سیول کوڈ ہمیشہ بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل رہے ہیں۔ رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اور مرکز نے کشمیری کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کو پارلیمنٹ کے ذریعہ ختم کیا۔ اب یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی باری ہے۔ اگرچہ یکساں سیول کوڈ سے دیگر مذاہب بھی متاثر ہوں گے لیکن اصل نشانہ اسلامی شریعت ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ اور عدالتی فیصلوں کی آڑ میں شریعت میں مداخلت کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگر ملک میں سیکولر اورجمہوری طاقتوںکا کمزور موقف جاری رہا اور مسلم قیادتیں بے حسی کا شکار رہیں تو ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ سے بی جے پی کو کوئی طاقت روک نہیں پائے گی۔ 2014 ء سے آج تک مودی حکومت کی ناکامیوں کی طویل فہرست ہے لیکن عوام کو مذہبی جنون اور منافرت کی خوراک پلاکر حقیقی مسائل کو بھلادیا گیا۔ عام ہندو کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ معاشی مسائل سے زیادہ ہندو راشٹر کی تشکیل اہمیت رکھتی ہے۔ جب ہندو مملکت بن جائے گی تو حکومت کی تمام مراعات کے حقدار صرف ہندو رہیں گے۔ شہر سے لے کر گاؤں تک چلائی گئی اس مہم میں سادہ لوح ذہنوں کو بھی آلودہ کردیا ہے۔ بی جے پی کے منصوبوں پر عمل آوری نے عدلیہ سے بھی کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ حکومت کے ہر فیصلہ پر مہر لگانے کا کام عدلیہ کر رہی ہے۔ حجاب کے معاملہ میں ماہرین قانون نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شریعت میں حجاب کے لزوم کے بجائے عدالت کو دستور میں دی گئی انفرادی آزادی اور اپنی پسند اختیار کرنے کے حق کو تسلیم کرنا چاہئے تھا۔ حجاب کا معاملہ ابھی برقرار ہے کہ ’’کشمیر فائلز‘‘ فلم کے ذریعہ سماج کو بانٹنے کی سازش رچی گئی۔ کشمیری پنڈتوں کے نقل مقام اور مظالم کی داستان تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔ آر ایس ایس کے تیار کردہ اسکرپٹ پر فلم تیار کی گئی جس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھول دیا گیا۔ تھیٹرس میں نمائش کے دوران جو اشتعال انگیز ویڈیوز منظر عام پر آرہے ہیں، وہ ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔ فلم میں کانگریس اور فاروق عبداللہ کو ٹارگٹ کیا گیا جبکہ کشمیری پنڈتوں کے نقل مقام کے وقت دہلی میں وی پی سنگھ حکومت تھی جسے بی جے پی کی تائید حاصل تھی۔ کشمیر میں بی جے پی کا گورنر تھا۔ ’’کشمیر فائلز‘‘ کے ذریعہ جموں و کشمیر کے مجوزہ اسمبلی چناؤ کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے اور یہی مہم 2024 عام انتخابات تک برقرار رہے گی۔ ملک کو کشمیر فائلز کی نہیں بلکہ روزگار ، صحت ، ترقی اور خوشحالی کے فائلز کی ضرورت ہے ۔ فلم بنانا ہے تو پھر ’’گجرات فائلز‘‘ بنائیں جہاں مودی اورامیت شاہ کی نگرانی میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ گجرات میں مسلمانوں پر مظالم کشمیری پنڈتوں کی داستاں سے زیادہ سنگین ہیں۔ فائلز بنانی ہو تو 2014 ء سے آج تک مختلف عنوانات سے مسلمانوں پر حملوں کے واقعات کو پیش کیا جائے۔ غلام نبی آزاد نے صحیح کہا کہ کشمیری پنڈتوں سے کئی گنا زیادہ مسلمان دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں کشمیر فائلز کو ٹیکس فری کردیا گیا تاکہ نفرت کی مہم تیزی سے پھیلائی جاسکے۔ کشمیری پنڈتوں کی نعشوں کا سودا کرتے ہوئے فلم ساز نے 500 کروڑ کا کاروبار کیا لیکن وہ آمدنی کا کچھ حصہ کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری پر خرچ کرنے تیار نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ دہلی اور دیگر ریاستوں میں فلم کے پوسٹر لگانے کی ذمہ داری بی جے پی قائدین کو دی گئی ہے۔ بقول اروند کجریوال 8 برس تک ملک کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہنے کے باوجود مودی کو 2024 ء میں کامیابی کیلئے ڈائرکٹر ویویک اگنی ہوتری کے چرن میں پناہ لینی پڑ رہی ہے کیونکہ 8 برسوں میں مودی کا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ ہریانہ میں بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے کسی میدان میں فلم کی نمائش کا اعلان کیا تھا لیکن ڈائرکٹر ویویک اگنی ہوتری نے چیف منسٹر سے ربط قائم کرتے ہوئے مفت میں فلم کی نمائش کو روک دیا۔ دیگر ریاستوں میں فلم پر ٹیکس معاف کرنے کے مطالبہ کے بجائے فلم کو یو ٹیوب پر پیش کیا جائے تاکہ ساری دنیا فری میں مشاہدہ کرسکے۔ بی جے پی کی سرپرستی میں ویویک اگنی ہوتری نے کشمیری پنڈتوں کے نام پر دولت کمانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ فلم کی جس طرح تشہیر کی گئی اب لوگ حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں اور خود پنڈتوں نے فلم کی مخالفت شروع کردی ہے۔ الغرض ہندوتوا کو کشمیری فائلز کا سہارا مل چکا ہے۔
اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کے لئے دوسری میعاد آسان نہیں رہے گی کیونکہ اکھلیش یادو نے یوگی کو اسمبلی میں راست چیلنج دینے کیلئے لوک سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اکھلیش یادو اور اعظم خاں نے لوک سبھا سے استعفیٰ دے کر اسمبلی کے ذریعہ بی جے پی کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔ اعظم خاں کو زیادہ دن تک جیل میں بند نہیں رکھا جاسکتا اور کسی نہ کسی دن عدالت سے ضمانت حاصل ہوگی۔ اکھلیش اور اعظم خاں کے لوک سبھا سے استعفیٰ نے یوگی کی نیند اڑا دی ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی دراصل الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا کمال ہے۔ اس بارے میں کئی ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں۔ 304 اسمبلی حلقوں میں پوسٹل بیالٹ میں سماج وادی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ سرکاری ملازمین اور ٹیچرس پوسٹل بیالٹ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ حقیقی معنوں میں نتیجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ مشینوں کی الٹ پھیر کے ذریعہ بی جے پی 255 نشستوں پر کامیابی حاصل کرپائی جبکہ 2017 ء میں اسے 312 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ سماج وادی پارٹی کی تعداد 46 سے بڑھ کر 111 ہوگئی ۔ نشستوں کا یہ فرق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں دھاندلی کے باوجود اس بار کا ثبوت ہے کہ اترپردیش کا حقیقی نتیجہ یوگی کے حق میں نہیں رہا۔ اکھلیش یادو نے یوگی کا اسمبلی میں مقابلہ کرنے کیلئے خود کو اترپردیش تک محدود کردیا ہے اور اب اترپردیش کی سیاست کا حقیقی کھیل کھیلا جائے گا۔ وسیم بریلوی نے موجودہ حالات پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
دریچوں تک چلے آئے تمہارے دور کے خطرے
ہم اپنے گھر سے باہر جھانکنے کا حق بھی کھو بیٹھے