دشمن کو بھی سینے سے لگانا نہیں بھولے

   

ڈاکٹر شجاعت علی
آئی آئی ایس ‘ریٹائرڈ

حضور اکرم ﷺ پر میری جان قربان کہ آپ نے ماں باپ کی عظمت اور ان کی خدمت کا درس دے کر ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالیا ہے۔ آقائے دو جہاں فرماتے ہیں کہ والدین کے درمیان تیرا تخت پر سو جانا اس طرح کہ تو ان کو ہنساتاہو اور وہ تجھے ہنساتے ہو اس کام سے افضل ہے کہ تو فی سبیل اللہ تلوار سے جہاد کرے۔ (درمنشور ص ۳۷۱، ج ۴، از بیہقی) ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور بولا کہ میں آپ سے بیعت ہجرت کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں اورمیں نے اپنے والدین کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ دونوں میری جدائی کی وجہ سے رو رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا واپس جاؤ جیسے تم نے انہیں رُلادیا ہے ویسے ہی انہیں ہنسا دو۔ (الاداب المفرد)
یہ دونوں ہی حدیثیں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہوئی ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ والدین کی خوشنودی عین خدا کی خوشنودی ہے ان کا قہر خدا کا قہر ہے جس سے ان کے والدین خوش نہیں اس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش نہیں۔ بڑی خوش نصیب ہے وہ اولاد جو اپنے ماں باپ کا حق ادا کرے اور ان کی حکم عدولی نہ کرے کیونکہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔ ایک اور حدیث ہے جس میں آقا نے فرمایا کہ اولاد کے حق میں باپ کی دعا ایسی ہی ہے جیسے کسی نبی کی دعا ان کی امت کے لئے ہوتی ہے۔ اتنی عظیم حدیثوں کے باوجود آج کی ہماری نسل ماں باپ کو وہ مقام ، وہ عزت، وہ وقارنہیں دے رہی ہے جس کا ان پر حق ہے اور جو فرض نماز سے کچھ کم نہیں۔
قرآ ن کریم میں بار بار یہ تاکید کی جارہی ہے کہ تم اپنے والدین کے ساتھ ہر حال میں بہترین سلوک کرو اور ان کی کسی بھی بات پر اُف تک نہ کرو۔ چاہے اس میں سے ایک یا دونوں ہی ضعیف کیوں نہ ہو۔ (پارہ ۵۱ ۔سورہ بنی اسرائیل )
اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہم نے نصیحت کی ہے۔ (پارہ ۲۱۔ سورہ لقمان)
مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ماں باپ کے سامنے خوش و خرم رہنا ان کو خوش و خرم رکھنا ان کے سامنے مسکرانا، ہنسنا اور ان سے ایسی باتیں کرنا جن سے ان کا دل خوش ہوجائے اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجائے۔ یہ سب ثواب ہے اور ایک طرح کی خدمت ہے جو جہاد سے افضل ہے لیکن بڑے افسوس ، دکھ اور تردد کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آج کی نسلیں اتنا بڑا ثواب کیوں حاصل نہیں کرتیں۔ نہ اس میں پیسہ خرچ ہوتاہے ، نہ کوئی محنت کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی کوئی مصیبت جھیلنی پڑتی ہے۔ کیوں کہ مسکراہٹ ہی زندگی ہے اور بزرگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ تمہاری کسی بات سے کسی کے چہرے پر ہنسی چھا جائے تو سمجھو کہ تم نے 60 سال کی عبادت کا ثواب حاصل کرلیا ہے ۔ ہمارے مذہب اسلام نے جہاں دینی فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا ہے وہیں والدین کو وقت دینے ، انہیں خوش رکھنے اور ان کے درد کو بانٹنے کی ترغیب دی ہے۔ ہر شخص کو جو اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو وقت دیتا ہے ان کی تفریح طبع کا خیال رکھتا ہے ان کو مطمئن رکھنے کے لئے ان پر خرچ کرتا ہے تو کیا اس پر یہ فرض نہیں ہے کہ جن ماں باپ نے اسے اپنے نیندیں حرام کرکے پروان چڑھایا ہے جس نے اپنے آرام کو آرام نہیں سمجھا ہے اور جس نے ننھے پودے کو سائے دار درخت میں تبدیل کردیا ہے تو کیا اس کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ ان کی خدمت کرکے اپنی آخرت کو سنوار لے۔
آج کے نوجوان اپنے آپ کو اپنے ماں باپ سے زیادہ عقل مند ، قابل اور سمجھ دار سمجھنے لگے ہیں جو ان کی نہ سمجھی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب تک ماں باپ اپنی جوان اولاد کی دامے درمے سخنے مدد کرنے کے لائق رہتے ہیں بچے ان کی بڑی قدر کرتے ہیں جیسے ہی بڑھاپا والدین کو گھیر لیتا۔ وہ اس شعر کے مصداق ہوجاتے اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں کہ
دولت آئی تو سب گھیرلیا کرتے ہیں
مفلسی آئی تو منہ پھیر لیا کرتے ہیں
ماں کی عظمت اپنی جگہ پر ہے لیکن باپ کی اہمیت کا اس حدیث شریف سے اندازہ کیجئے کہ ماں اگر بتیس مرتبہ بھی نافرمان بچے کو بدعا دے دے تو وہ بدعا نہیں لگتی باپ اگر اولاد کے خلاف ایک مرتبہ بھی بدعا کردے تو اس کا فوری اثر سامنے آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باپ کی بدعا اور اللہ کے بیچ کوئی پردہ نہیںہے۔ ایک شخص حضور ؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے باپ کے پاس میری کچھ رقم ہے وہ دیتا نہیں ہے تو حضور اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہی ہے۔
اللہ والوں کا کہنا ہے کہ بعض اولیاء کو اللہ کی معرفت کا راستہ صرف والدین کے حسن سلوک کی بناء پر ملاہے لہٰذا ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہر وقت ، والدین سے حسن سلوک سے پیش آنے کی دعا مانگتے رہنا چاہئے۔ قرآن کریم کی ایک آیت سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ماں باپ کے سامنے اُف تک نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس آیت کا مقصد ِنزول بتاتا ہے کہ یہ آیت کسی ایسے آدمی کے بارے میں اتری ہے کہ جس نے والدین کے سامنے اُف کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ آنے والی نسلوں کی تنبیہ کردی ہے کہ ماں باپ کا مقام بہت بلند ہے لہٰذا ان کی شان میں اُف تک بھی نہ کہا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں احسان جتانے والا اور ماںباپ کو ستانے والا اور شراب کی عادت رکھنے والا داخل نہ ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص نے اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا جس نے والد کو تیز نظر سے دیکھا۔ فرمان الٰہی ہے کہ اگر تیری ماں تجھ سے ناراض ہے تو یقینا تو جنت کی چابی گم کرچکا ہے۔ میں تیرے سارے گناہ بخشتا ہوں لیکن تو صرف اپنی ماں کو راضی کرلے۔حدیث شریف کا تیسرا حصہ والدین کی خدمت کے بارے میں ہے اس میں والدین کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیاگیاہے۔ والدین کی بے ادبی نہیں کرنی چاہئے ان کے سامنے تکبر سے پیش نہیں آنا چاہئے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مطیع بیٹے کی محبت اور شفقت سے ایک نگاہ والد کی طرف ایک مقبول حج کا ثواب رکھتی ہے۔
اسلام عالمی امن اور بقائے انسانیت کا نقیب ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں تو وہیں آقائے دو جہاں حضور اکرم ﷺ رحمتہ العالمین ہیں۔ آقا نے بار بار بزرگوں کی عزت ان کا احترام اور ان کی دلجوئی کا حکم دیا ہے۔ خواہ وہ مشرک یا کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت علی ؑ کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر روز ایک انتہائی نحیف و کمزور یہودی بوڑھے کے پیچھے پیچھے چلتے اس دور کے مسلمان یہ منظر بار باردیکھتے تو ان سے رہا نہیں گیا اور ایک دن حضرت علی ؑ کو روکا اور ان سے پوچھا کہ اے علی ؑ یہ کیا ماجرا ہے آپ اسلام کے دشمن اس یہودی کے پیچھے سایہ کی طرح لگے رہتے ہیںتو علی ؑنے فرمایا کہ کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہے ہو کہ یہ یہودی بزرگ ناتواں ہیں اور ان کے جسم پر رعشہ طاری ہے اور مجھے ڈر ہے کہ یہ کہیں راستے میں گر نہ پڑیں، میں چاہتا ہوں کہ انہیں ایسی صورت میں ان کے گھر تک پہنچادوں۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ بزرگوں کی خدمت کرنا اسلام کے سوا کچھ بھی نہیں ۔شاید ایسے ہی عظیم واقعات کی عکاسی کرنے کے لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
دشمن کو بھی سینے سے لگانا نہیں بھولے
ہم اپنے بزرگوں کا زمانہ نہیں بھولے