دفعہ 370 کی منسوخی ، سپریم کورٹ کا فیصلہ

   

ریاستوں کیلئے خطرہ کی گھنٹی

روش کمار
جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی موقف و خصوصی درجہ عطا کیا گیا تھا جسے وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے منسوخ کردیا جس پر وادی میں کافی غم و غصہ اور برہمی پائی جاتی تھی ‘ اب سپریم کورٹ نے بھی اس معاملہ میں حکومت موافق فیصلہ دیتے ہوئے دفعہ 370 کی منسوخی کو برقرار رکھا ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا وفاقیت پر حملہ ہے ؟ وفاقیت کو دستور کے اہم جذبہ روح کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ کیا اس فیصلہ کو بنیاد بناکر مرکزی حکومت کسی بھی ریاست کا اپنے حساب سے بٹوارہ یا تقسیم کرسکتی ہے؍ کیوں اس فیصلے کو ریاستوں پر لٹکتی ہوئی تلوار کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ اس تعلق سے لائیولا کے منوسبسٹین Manu Sabstian کا مضمون اوراخبار’ ہندو ‘ کا اداریہ پڑھا جانا چاہیئے۔ ہم نے 11 ڈسمبر کو بھی ان پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا تھا مگر ’ دی ہندو‘ نے 974 الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے تفصیلی اداریہ لکھا ہے ، عام طور پر جس جگہ پر دو اداریئے شائع ہوا کرتے ہیں آج کے اداریہ میں صرف سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جگہ دی گئی ہے، اوپر سے لیکر نیچے تک اس فیصلہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اخبار’ دی ہندو‘ نے جس نظریہ ، جس پہلو سے اس فیصلہ کو دیکھا ہے اس کی بات ہونی چاہیئے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اخبار ’ ہندو‘ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کیوں وفاقیت مخالف لکھا ہے۔ اس کیلئے انگریزی کا ایک لفظ Omnious کا استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کچھ برا ہونے والا ہے جس سے منحوس اشارہ ملتا ہے۔
ہم ان پہلوؤں کی بات کریں گے جسے شائد ہی کسی ہندی اخبار میں خصوصی جگہ دی گئی ہو۔ اس لئے ہم سب سے پہلے فیصلہ کے اگلے دن یعنی 12 ڈسمبر کی صبح قارئین کے گھروں میں پہنچے ہندی کے تین بڑے اخباروں کے پہلے صفحہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ’ دینک بھاسکر‘ کی پہلی سرخی ہے ’’ کشمیر پر ہر بھارتی کا حق‘‘ اس پر ہمارا سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلہ سے یہ یقینی ہوا ہے کہ کشمیر پر ہر ہندوستانی شہری کا حق ہے، اس سے پہلے کیا ہر ہندوستانی شہری کا کشمیر پر حق نہیں تھا۔ ’ دینک جاگرن‘ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کچھ یوں سرخی لگائی ’’ سات دہوں کا تنازعہ ختم ‘‘ اس کے صفحہ اول پر دفعہ 370 کو سرخ نشان سے کاٹا گیا ہے، اب اس پر ہم ایک خیال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ 27 نومبر 1963 کو پنڈت نہرو نے ہی لوک سبھا میں کہہ دیا تھا کہ دفعہ 370 گھس چکا ہے کوئی شک نہیں کہ کشمیر کا پوری طرح سے انضمام ہوچکا ہے تب پھر جاگرن نے کیوں لکھا کہ سات دہوں کا تنازعہ اوردرد اپنے اختتام کو پہنچا۔ جاگرن کے ادارتی صفحہ پر وزیر اعظم نریندر مودی کا مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’ انضمام کو طاقت عطا کرنے والا فیصلہ ‘‘ اگر آپ اس مضمون کو پنڈت نہرو کے بیان سے ملاکر دیکھیں تو سوال اُٹھتا ہے کہ جب انضمام پورا ہوچکا ہے تب پھر یہ انضمام کو تقویت پہنچانے والا فیصلہ کیسے ہے۔ اب ’ امراُجالا ‘ کی سرخی دیکھیئے ’’ آخر 370 سے پوری آزادی‘‘ اخبار کا زور پوری آزادی پر ہے۔ ایک اخبار کہتا ہے تنازع و درد ختم ہوا، ایک کہتا ہے ہر بھارتی شہری کو حق مل گیا، ایک کہتا ہے کہ پوری آزادی ملی۔
اگر ہم ہندی اخبارات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ صرف دو اخبارات نے اس بارے میں تفصیلی کوریج دیا ہے۔ ہم نے گنتی کی ہے کہ ان دو اخبارات میں دفعہ 370 سے متعلق سپریم کورٹ کے بارے میں کتنی خبریں نمایاں طور پر اور باکس کی شکل میں پیش کی گئی ہیں۔ ہماری گنتی میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن 25 سے زیادہ خبریں، اداریہ، چھوٹے باکس میں بیان صرف ’ امر اُجالا‘ اور ’ جاگرن ‘ میں شائع ہوئے ہیں ان میں 90 فیصد سے بھی زیادہ حصہ حکمراں جماعت کے ذریعہ سے دیا گیا ہے اور عدالت کے فیصلہ کی باتوں کو دیا گیا ہے۔ ہندی کے کروڑوں قارئین کو اسی طرح سے وقفہ وقفہ پر اس موضوع پر دوا پلائی جاتی رہی ہے۔ لہذا انہیں صرف ایک ہی بات کا پتہ ہے اور جو بات سنگھ کی بات ہے، اپوزیشن کی کاہلی اور سنگھ کی محنت کی وجہ سے یہ موضوع اتنا بڑا ہوگیا۔ جاگرن میں ہی یہ شائع ہوا ہے کہ جموں کشمیر کے پاس نہیں تھی کوئی اقتدار اعلیٰ، جب کسی بھی قسم کا اقتدار اعلیٰ تھا ہی نہیں‘ داخلی بھی نہیں خارجی بھی نہیں تب یہ باتیں کیوں پھیلائی گئیں کہ کشمیر دفعہ 370 کے ہٹنے سے جڑ رہا ہے، اس سے ملک کی سالمیت مستحکم ہورہی ہے۔ کیا اس طرح کی تقاریر اور خطابات کے ذریعہ لوگوں تک یہ بات پہنچائی گئی کہ اس کا ختم ہونا ضروری ہے تب ہی ایک ہوگا جبکہ 370 کی وجہ سے کشمیر کو کسی بھی طرح کی اقتدار اعلیٰ ملی ہی نہیں تھی۔ اب ہم بات کریں گے اخبار ’ دی ہندو‘ کے اداریہ کی۔ ایک قاری کے طور پر یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ الگ رائے کیا ہے؟ کیا اس میں کوئی دَم ہے۔ دفعہ 370 کو لیکر آپ کو جو بتایا گیا اور جس پر آپ یقین بھی کرتے ہیں کیا وہ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ کیوں ’ دی ہندو‘ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو نامبارک اشارہ مانا، مرکز ۔ ریاستوں کے تعلقات یا اس کیلئے استعمال ہونے والے وفاقیت پر حملہ مانا ہے۔
سپریم کورٹ نے دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو ملے خصوصی موقف یا درجہ کو ختم یا منسوخ کرنے کے فیصلہ کو صحیح ٹہرایا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف Judicial difference ہے یعنی ایک طرح سے مرکز نے جو قدم اٹھایا اسے احترام کے ساتھ قبول کرلیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ کئی معاملوں میں عدالت کے ہی اپنے موقف سے ہٹ کر لیا گیا لگتا ہے۔وفاقیت ، جمہوری عمل اور قانونی عمل کی پاکیزگی پر عدالت اپنے ہی نظریہ سے پیچھے ہٹتی لگ رہی ہے ، یقینا یہ فیصلہ بی جے پی کیلئے سیاسی جیت ہے لیکن یہ فیصلہ وفاقیت کے اُصولوں سے چھیڑ چھاڑ کو بھی منظوری دیتا ہے۔ تاریخی حوالوں کو سمجھنے میں چوک ( غلطی ) کرتا ہے اور دستوری عمل کو کمتر کرتا ہے۔ اس فیصلہ کے ذریعہ وفاقیت کے اُصولوں پر سب سے خطرناک حملہ تب ہوتا ہے جب عدالت اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ جب کوئی ریاست صدر راج کے تحت ہو تب پارلیمنٹ اس کے بارے میں قانون سازی کرسکتی ہے۔ ریاست کی اسمبلی کی بجائے پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے۔ عدالت کا یہ موقف کان کھڑے کرنے والا ہے اور دستور کیلئے بنیادی ڈھانچہ کے فیصلہ کی نفی کرتا ہے۔ اس کے چلتے اب چھوٹ مل جائے گی کہ ریاستوں کے مخالف فیصلہ لئے جانے لگیں کہ جسے تبدیل کرنا مشکل ہوجائے گا، حکومت اور اس کے حامی اس بات سے خوش ہیں کہ دستوری بنچ نے ان کے موقف پر تصدیق کی مُہر لگائی ہے اور درخواست گذاروں کے مضبوط دلائل کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے دفعہ 370 منسوخ کرتے ہوئے غلط ارادوں سے کام کیا جب 370 کو منسوخ کرنے کیلئے صدر راج نافذ کرکے ریاست کا خصوصی درجہ ختم کردیا گیا تاکہ جموں وکشمیر کے منتخبہ نمائندوں کی رائے لینی نہ پڑے۔
یہ اداریہ کہہ رہا ہے کہ اگر کسی ریاست میں صدر راج نافذ کردیا جائے، اس ریاست کی قسمت کسی اور طریقہ سے طئے کردی جائے تو اس کھیل کو عدالت کے فیصلہ سے منظوری مل جائے گی جو آنے والے وقت میں خطرناک ہوسکتی ہے۔ مرکز کے ہاتھ میں اب اس فیصلہ نے ایسا ہتھیار دے دیا ہے کہ پہلے صدر راج نافذ ہوگا اور پھر اس ریاست کا بنیادی ڈھانچہ تک بدل دیا جائے گا۔ صدر راج نافذ کرکے پارلیمنٹ کیلئے اس کا اہتمام کیا جاسکے گا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر کئی لوگوں نے اس بنیاد پر سوال اُٹھائے ہیں۔ ہم نے آپ کے سامنے اخبار ’دی ہندو ‘ کے اداریہ کا ایک ہی حصہ پیش کیا ہے۔ یہ حصہ جو ہم پیش کررہے ہیںآپ غور سے پڑھیئے۔ اخبار ’ ہندو‘ نے لکھا ہے کہ مرکزی حکومت نے بی جے پی کے پرانے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے ایک پیچیدہ راستہ اختیار کیا، ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں بانٹا گیا۔ 5 اگسٹ 2021 کو ایک حکمنامہ کے تحت قانون کو جموں و کشمیر پر لاگو کیا گیا ہے اور کچھ تشریحات بدلی گئیں تاکہ ریاست کی اسمبلیوں کیلئے ودھان سبھا کا استعمال منسوخ کیا جاسکے۔ اخبار آگے لکھتا ہے کہ دفعہ 370(3) کے تحت دستور ساز اسمبلی کو ہی ایسی تبدیلی یا ترمیم کرنے کا اختیار حاصل تھا۔
عدالت نے یہ کہا ہے کہ 5 اگسٹ کے اس آرڈر کے کچھ حصے غیردستوری تھے کیونکہ وہ ایک طرح سے دفعہ 370 کی طرح ہی ترمیم کررہے تھے جس کی اجازت نہیں تھی مگر عدالت نے 6 اگسٹ کے اس آرڈر کو صحیح ٹہرایا جس میں دفعہ 370 کو بحال مانا گیا۔ کہا گیا کہ 5 اگسٹ کے آرڈر کے علاوہ بھی صدر جمہوریہ ایسا کرسکتے ہیں۔ اسے یوں سمجھئے کہ 5 اگسٹ کے ودھان سبھا کی تجویز کو تقویت دینے والے آرڈر سے مرکز نے اپنی کارروائی کو قانونی طور پر مضبوط کرنے کا کام کیا لیکن دوسرے ہی دن ایسا آرڈر لیکر آگئے جس میں کہا گیا کہ اگر تجویز نہ ہو تب بھی صدر جمہوری یہ ایسا کرسکتے ہیں۔ صدر بناء کسی تجویز کے بھی خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرسکتے ہیں۔ اخبار نے فیصلہ کے مکمل جائزہ کے بعد یہ اداریہ لکھا ہے۔ کتنے اخباروں نے اسے اہمیت کے ساتھ جگہ دی ہے کہ سپریم کورٹ نے 5 اگسٹ کے حکمنامہ کے کچھ حصہ کو غیر دستوری مانا ہے یا کسی اخبار نے آپ کو بتایا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس سوال کو کھلا چھوڑ دیا کہ پارلیمنٹ کیا ریاست کو صدر راج والی ریاست میں بدل سکتی ہے یا نہیں۔ اگر اس پر بھی فیصلہ آجاتا تو کیا ویسا فیصلہ آتا جو آیا ہے۔