دنیا کو اسرائیل کی دہشت گردی نظر کیوں نہیں آتی ؟

   

روش کمار

غزہ میں رہنے والے 23 لاکھ لوگ کیا ختم کردیئے جائیں گے ؟ کیا اس مرتبہ غزہ کو بچایا جاسکے گا یا پوری طرح اسے ختم کردیا جائے گا اس کا وجود مٹادیا جائے گا ؟ کیا یہاں کے عام لوگ بھوک اور بموں سے مار دیئے جائیں گے ؟ حماس کے حملہ نے غزہ کو داو پر لگادیا ہے ، حماس نے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنالیا ہے اور حماس کے ترجمان نے کہا ہیکہ وہ یرغمالیوں کے سہارے اسرائیل اور امریکی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو رہائی کا مطالبہ کرے گا ؟ لیکن کیا حماس اس کے سہارے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو روک پائے گا ؟ فلسطینی لسیجلیٹو کونسل کے رکن مصطفے نگروتی نے کرن تھاپر کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ حماس نے قیدیوں کے تبادلہ کا ایک آفر کیا ہے اگر اسرائیل حماس کی پیشکش کو مان لے تو 36 گھنٹوں میں امن بحال ہوسکتا ہے ۔ اسرائیل کی قید میں تمام خاتون قیدیوں کی رہائی کے عوض حماس اپنی تحویل میں موجود اسرائیلی شہری قیدیوں کو چھوڑ دے گا ۔ اسرائیلی سپاہیوں کی رہائی کے عوض حماس نے تمام مرد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی مانگ کی ہے ۔ اس معاملہ میں مملکت قطر اور مصر مصالحت کی کوشش کررہے ہیں دونوں ملک ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیل حماس کا یہ مطالبہ مان لے گا ؟ یہاں 2006 کے ایک واقعہ کا دکر کرنا ضروری ہے تب حماس نے ہی اسرائیل کے ایک فوجی گیلاٹ شالٹ کو اغوا کر لیا جسے 5 سال بعد 2011 میں رہا کیا گیا ۔ 19 سال کے گیلاٹ شالٹ کو اسرائیل کے اندرونی علاقہ سے اغوا کیا گیا تھا اس واقعہ میں اسرائیل کے دو سپاہی بھی مارے گئے تھے جوابی کارروائی میں اسرائیل نے غزہ پر بہت بمباری کی ۔ پانچ سال تک یہ تنازعہ چلتا رہا اور آخر میں اسرائیل کو تقریباً ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا پڑا جنہیں اسرائیل نے دہشت گردانہ حملوں کا الزام عائد کر کے قیدی بنالیا تھا ۔ وزیراعظم نتن یاہو نے فضائیہ کے اڈہ پر اغوا کردہ اسرائیلی سپاہی کا خیرمقدم کیا تھا اس حساب سے حماس کے پاس جتنے بھی یرغمالی ہیں ان سے وہ بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے لیکن اسرائیلی فوج نے کہا ہیکہ یرغمالیوں کے خاندانوں کو جانکاری دے دی گئی ہے اور یہ بھی کہا ہیکہ اس جنگ میں یرغمالیوں کی پرواہ نہیں کی جائے گی ۔ کیا ایسا وزیراعظم نتن یاہو کیلئے آسان ہوگا ؟ حماس نے اے پی سے کہا ہیکہ ہم نے اس جنگ کی کافی تیاری کی ہے اور ہم ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں پھر چاہے وہ طویل جنگ ہی کیوں نہ ہو ۔ دہشت گردی کے نام پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے تمام ملک غزہ کے ساتھ ہونے جارہے اس دہشت گردی پر کیا موقف اختیار کریں گے یہ ان کی سخت اور بڑی آزمائش ہے ۔ اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہو کر وہ غزہ کو برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتے ۔ ان کے اتحاد کے باوجود بھی غزہ کا سچ دنیا کے سامنے آرہا ہے ۔ کئی دہوں سے یہاں کے لوگ بناء حقوق کے زندگی گزار رہے ہیں ۔ لوگ بناء کسی بنیادی سہولتوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ غزہ کے بچوں پر جو قہر برپا کیا گیا ہے کیا کوئی اسے کوئی بڑا عالمی لیڈر دہشت گردی قرار دے سکے گا ؟ ہم نے اخبارات کی کئی رپورٹس اور مضامیان چھان دیئے ہیں ان میں صاف دکھ رہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں سے کتنی سخت نفرت کرتا ہے یقین نہ آرہا ہوں تو نتن یاہو کے داخلی سلامتی کے وزیر کا بیان آپ دیکھ لیجئے جسے رائٹرس نے شائع کیا ہے ۔جاریہ سال جنوری کی ایک خبر ہیکہ نتن یاہو کے وزیر داخلی سلامتی نے پولیس کو حکم دیا کہ عام مقامات سے فلسطینی جھنڈے ہٹادیئے جائیں ۔ ان کا یہی بیان ہے کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانا بھی دہشت گردی کی حمایت کرنا ہے ، حماس کی کارروائی کو لیکر دنیا دو خیموں میں بٹ گئی ہے ۔ دہشت گردانہ کارروائی کہے یا فلسطین کی تحریک آزادی یا جدوجہد آزادی ، مگر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نتن یاہو نے داخلی سلامتی کے وزیر کی نظر میں دہشت گردی کیا ہے ؟ فلسطین کا جھنڈا لہرانا بھی دہشت گردی کی حمایت کرنا ہے تو اتنا غرور ہے اور نفرت بھی تو اس پورے معاملہ میں دہشت گردی کی تعریف اسرائیل اور اس کے حامی ملک طے کررہے ہیں ۔ اس وقت دنیا کے اسٹیج پر ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جو غزہ اور مغربی کنارہ کے حق میں بولنے کی جرات رکھتا ہو ۔ سبھی اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہو کر نہتے فلسطینیوں پر بم برسائے جانے کا ویڈیو حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جب اسرائیل کہتا ہے کہ وہ غزہ میں بجلی کی سپلائی نہیں کرے گا تو کیا آپ جانتے ہیکہ اسرائیل وہاں 24 گھنٹے میں سے 4 گھنٹے کی بجلی سربراہ کررہا تھا ۔ اسرائیل غزہ کو بجلی دیتا نہیں ہے بلکہ غزہ کو یہ بجلی خریدنی پڑتی ہے ۔ غزہ کے واحد پاور پلانٹ میں نصف گنجائش رہ گئی ہے اس کا ڈیزل بھی اسرائیل سے آتا ہے باقی آدھی بجلی اسرائیل سے خریدی جاتی ہے ۔ اس بجلی میں بھی اسرائیل کٹوتی کرتا رہتا ہے جس کا غزہ کی عام زندگی کے علاوہ وہاں کے اسپتالوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔ جب اسرائیل کہتا ہے کہ وہ غزہ کو کھانے پینے کی اشیاء کی سربراہی روک دے گا تب کیا آپ جانتے ہیں کہ 2007 سے 2010 کی ناکہ بندی کے دوران اسرائیل فی فرد کیلوری کے حساب سے کھانا سربراہ کررہا تھا ۔ اسرائیلی حکومت کے ناقدین نے کہا تھا کہ ایسا حماس پر دباو بنانے کیلئے کیا گیا تھا ۔ اسرائیل کی فوج نے جواب میں کہا کہ ایسا کھانے کی قلت پیدا کرنے کیلئے نہیں کیا گیا تھا ۔ کیا جواب ہے ؟ 2012 میں اس بارے میں کافی خبریں شائع ہوئی تھیں ۔ عالمی قوانین کے مطابق عام عوام میں جان بوجھ کر بھوک مری پھیلانا ایک جنگی جرم ہے ۔ اسرائیل غزہ پر کئی طرح کی ضرورت کے سامان کی درآمد پر پابندی بھی لگاتا ہے جس میں ادویات ، کھیتی باڑی کے اوزار اور عمارتوں کی تعمیر کے سامان شامل ہیں۔ 2011 کے یروشلم پوسٹ اور این بی سی کی ایک خبر آپ کے ساتھ شیر کرتا چاہتا ہوں 2007 میں اڈورڈاسنوڈن کی وکی لیکس میں پردہ فاش ہوا تھا کہ اسرائیل غزہ کی معاشی حالت کو بالکلیہ طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے اس حالت میں لانا چاہتا ہے کہ کسی طرح سے چلتی رہی اور انسانی حقوق کا تنازعہ بھی نہ بنے ۔ اسرائیل دارالحکومت اتل ابیب میں امریکی سفارت خانہ نے یہ جانکاری واشنگٹن کو روانہ کی تھی ۔ یہ خبر کئی جگہوں پر شائع ہوئی ، امریکی نیوز ایجنسی این بی سی نے بھی اس خبر کو شائع کیا تھا لکھا تھا کہ اسرائیل کو بھی پتہ تھا کہ اس کی اس پالیسی سے علاقہ کے عام لوگوں پر بہت برا اثر پڑرہا ہے صاف ہے کہ غزہ کو مٹانے کی کوششیں حماس کے حملے کے پہلے سے ہی ہوتی رہی ہیں ۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کہہ رہے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے تھے اسرائیل پر جنگ مسلط کی گئی لیکن یہ صحیح نہیں لگتا ۔ غزہ پر اسرائیل کا حملہ واقعی کسی بھی طرح پہل نہیں ہے الگ الگ پیمانے پر غزہ سے لیکر مغربی کنارہ میں لوگوں کے مارے جانے کی تعداد بتارہی ہیکہ اسرائیل نے ہمیشہ ہی جنگ کی ہے ۔ اسرائیل غزہ ہی نہیں مغربی کنارہ میں بھی ہمیشہ جنگ کرتا رہا ۔ اسرائیل کو غزہ کی فکر نہیں ہے اس مرتبہ وہ کئی دہوں کیلئے وہ غزہ کی صورت بگاڑنا چاہتا ہے اس لئے آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا سوال ہیکہ آیا غزہ میں رہنے والے 23 لاکھ لوگ کیا مٹادیئے جائیں گے ۔ غزہ کی لمبائی 41 کلو میٹر اور چوڑآئی بارہ کلو میٹر ہے ایک مقام پر تو چوڑائی صرف 6 کلو میٹر رہ گئی ہے ۔ دہلی سے چار گنا چھوٹی سی جگہ پر 23 لاکھ لوگ مقیم ہیں یہ اس کرہ ارض پر تیسری ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ آبادی ہے اس جگہ کی حالت بتاتی ہے کہ کس طرح یہاں کے رہنے والے لوگوں کو ایک تنگ جگہ میں ٹھونس دیا گیاہے اور ہوا پانی بند کردیا گیا اس لئے اسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے ۔ اسرائیل لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ غزہ چھوڑ دیں لیکن وہ یہ نہیں بتایا کہ غزہ چھوڑ کر کہاں جائیں کس راستے سے جائیں ؟ کیا اسرائیل انہیں اپنی زمین سے کہیں اور جانے کا راستہ دے گا ۔ اقوام متحدہ نے تو یہ بھی کہا ہیکہ اس وقت جو لڑائی ہوئی ہے وہ یوں ہی پیدا نہیں ہوئی بلکہ برسوں تک فلسطینی علاقوں پر قبضہ سے پیدا ہوئی ہے یہ وہ بیان ہے جو اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو کے بیان کو خود رد کردیتا ہے ۔ نتن یاہو نے کہا کہ ہم نے جنگ شروع نہیں کی لیکن اب ہم اسے ختم کریں گے ۔ یہ بیان نہ صرف اس معاملہ میں بلکہ تاریخی طور پر بھی بالکل غلط ہے ۔ نتن یاہو کو بھی پتہ ہے کہ غزہ کے تمام 23 لاکھ لوگ حماس کے حامی نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے جنگجو ، غزہ کے کئی لوگوں نے کہا کہ وہ نہ تو حماس کے ارکان میں اور نہ ہی فلسطینی اتھاریٹی کے لیکن وزیراعطم نتن یاہو کیلئے غزہ کا خاتمہ ضروری ہوگیا ہے ۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیسے پچھلے کچھ عرصہ سے نتن یاہو غزہ کو چھوڑ کر مغربی کنارہ میں معاملہ کو اُکسا رہے تھے کیا یہ اپنے آپ میں یہ دہشت گردی نہیں کہ مغربی کنارہ میں فلسطینی لوگوں کو 565 طرح کے چیک پوائنٹس رکاوٹوں سے گذرنا پڑتا ہے یہاں کہ لوگوں کو اسپتال جانے کیلئے کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں کیا یہ دہشت گردی نہیں اس علاقہ کے بارے میں جانکاری رکھنے والے فضل الرحمن صدیقی نے بتایا کہ مغربی کنارہ میں فلسطینیوں کو اُکسانے کی کئی کوشش ہوتی ہیں ۔ غزہ سے اسرائیلیوں کو نکال کر مغربی کنارہ کی طرف بسایا گیا ۔ غزہ میں ایک بھی اسرائیلی نہیں بچا ۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 250 سے زیادہ لوگ مارے گئے چونکہ ایک ایک کر کے لوگ مارے گئے اس لئے ان کا مارا جانا دنیا سے اوجھل رہا ۔ 2023 کے دس مہینوں میں ہی اسرائیلی سیکوریٹی فورسس نے تقریباً 40 بچوں کا قتل کیا ہے ۔ اسرائیلی وزیروں کے بیانات آئے ہیں کہ مغربی کنارہ میں چلے گا حق اسرائیلیوں کا ہے عربوں کا نہیں ۔ یہاں کے یروشلم میں مسجد الاقصی ہے وہاں پر نتن یاہو کی فوج اور پولیس کے لوگ نمازیوں کو تنگ کر نے لگے اس طرح سے ساری توجہ مغربی کنارہ پر تھی تاکہ یہاں کشیدگی پیدا کر کے اسرائیل کے لوگوں کو نتن یاہو اپنے پیچھے ایک جٹ کرسکیں ۔ مغربی کنارہ میں مصروف ہونے کی وجہ سے اسرائیل کی توجہ ہٹ گئی اور پھر حماس نے تیاری کرلی اس کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کو اس تیاری کا پتہ کیسے نہیں چلا ۔ نتن یاہو نے ہمیشہ یہی چال چلی کہ فلسطینیوں کو ان کا حق نہ ملے اور وہ اسرائیل کے مرہون منت رہیں ۔