دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک

   

مودی کا مشن کشمیر … نیا جال پرانے شکاری
ہاتھ جوڑ قیادت سے انصاف نہیں ملے گا

رشیدالدین
جموں و کشمیر کے عوام کو انصاف کی فراہمی میں نریندر مودی حکومت کس حد تک سنجیدہ ہیں ، اس کا اندازہ وزیراعظم کی جانب سے طلب کردہ کشمیری قائدین کے اجلاس سے ہوا۔ جمہوریت کی بحالی کی سمت پیشرفت کے ایجنڈہ کے ساتھ طلب کردہ اجلاس سے عوام کو کافی توقعات تھیں لیکن یہ اجلاس نتیجہ کے اعتبار سے ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ اہم سیاسی جماعتوں کے 14 قائدین شاہی دربار کے بلاوے پر مصاحبین کی طرح سر کے بل اجلاس میں شرکت کے لئے حاضر ہوگئے جبکہ انہوں نے ایک سال تک نظربندی کی بے عزتی کو فراموش کردیا۔ کشمیر کی تقسیم اور 370 اور 35-A کی برخواستگی سے قبل ہی سیاسی اور عوامی قائدین کو گھروں اور جیلوں میں محروس کردیا گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں سارے کشمیر کو عملاً نظربند رکھا گیا تاکہ کوئی احتجاج نہ ہو۔ ایک سال تک اپوزیشن کو کشمیر میں داخلہ کی تک اجازت نہیں تھی۔ ان تمام ناانصافیوں اور بے عزتی کے گھونٹ پی کر 14 قائدین نریندر مودی کے دربار میں حاضر ہوگئے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ کشمیری عوام کا کیا قصور تھا کہ انہیں خصوصی موقف سے محروم کردیا گیا ۔ برخلاف اس کے شاہی دربار کے درباریوں کی طرح مودی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کشمیری قائدین نے جذبہ کشمیریت کی توہین کی ہے۔ مرد قائدین سے تو بہتر واحد خاتون کشمیری لیڈر محبوبہ مفتی نے مودی کے آگے ہاتھ نہیں جوڑا اور کشمیریوں کے جذبات اور احساسات کی بھرپور ترجمانی کی۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے طئے شدہ ایجنڈہ کے مطابق قائدین کو کشمیر کے ریاست کے موقف کی بحالی اور اسمبلی انتخابات کا لالی پاپ دیا جبکہ خصوصی موقف کی بحالی پر دونوں خاموش رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست کے موقف کی بحالی کی کوئی اہمیت نہیں جب تک کہ خصوصی موقف بحال نہ ہوجائے۔ الیکشن اور ریاست کا موقف ذیلی باتیں ہیں جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ سیاسی قائدین کو عوام کے جذبات اور احساسات سے زیادہ سیاسی فائدہ کی فکر ہے لہذا تمام مرد قائدین مودی کے آگے صف بستہ دکھائی دیئے۔ کئی قائدین بڑھ کر ہاتھ جوڑنے لگے جبکہ کانگریس کے غلام نبی آزاد نے مودی سے اپنی پرانی یاری کو نبھاتے ہوئے سکوت اختیار کیا۔ سوائے محبوبہ مفتی کے کسی نے دفعہ 370 اور 35-A کی بحالی کی بات نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے سیاسی قائدین کو دوبارہ دکان چمکانے کے لئے الیکشن کا راستہ مل چکا ہے اور وہ مودی کے دربار سے الیکشن کی بھیک لے کر خوشی خوشی واپس لوٹ گئے ۔ مودی نے دل اور دلی کی دوری مٹانے کی بات کہی۔ تین گھنٹوں تک کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی باتیں کی گئیں جو محض دکھاوا اور مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ دل اور دلی کی دوری کا مودی اور امیت شاہ کو اس وقت خیال کیوں نہیں آیا جب 5 اگست 2019 ء کو کشمیریوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا جارہا تھا۔ اس وقت دل اور دلی کی دوری یاد کیوں نہیں آئی جب احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلنے والوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ مودی کو کشمیریوں کے زخم اس وقت یاد کیوں نہیں آئے جب سیکوریٹی فورسس نے دہشت گردی کے نام پر بے قصوروں کو نشانہ بنایا۔ کشمیر میں جمہوریت کی بحالی کے عنوان سے اجلاس دراصل ’’نیا جال پرانے شکاری‘‘ کے مترادف ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر کوئی بھی بات چیت 370 اور 35-A کی بحالی کے بغیر ادھوری ہے۔ بھلے ہی ریاست کا درجہ بحال نہ ہو اور نہ ہی انتخابات کرائے جائیں لیکن عوام کو ان کا حق لوٹا دیا جائے ، وہ صحیح معنوں میں انصاف ہوگا۔خصوصی موقف کے بغیر ریاست کا درجہ اور الیکشن ایسا ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم ۔ صرف لفاظی اور خوش کن باتوں سے کشمیریوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ 7 برسوں میں مودی نے اپنی لفاظی کا کئی بات مظاہرہ کیا۔ اٹل بہاری واجپائی کے انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت کے احترام کے نعرہ کو مودی نے بھی دہرایا تھا ۔ اتنا ہی نہیں مودی نے آگے بڑھ کر یہاں تک کہا کہ کشمیری عوام سے گولی سے نہیں بلکہ میٹھی بولی سے بات کی جائے گی۔ باتیں تو کان خوش کرنے کیلئے اچھی ہیں لیکن حکومت کا عملی اقدام اس کے برخلاف ہے۔ اجلاس کے بعد اصل مسائل پر سیاسی قائدین کی خاموشی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حق اور انصاف کے حصول کے لئے ہاتھ جوڑ قیادت کام نہیں آئے گی۔ ہاتھ جوڑنے سے حقوق حاصل نہیں کئے جاسکتے بلکہ اس کے لئے سر توڑ جدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے۔ کشمیری قائدین نے مودی کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی شناخت حتیٰ کہ اسلامی شناخت کی بھی پرواہ نہیں کی۔ کشمیری قائدین ہندوستان کے ساتھ اپنے احسان کے رشتہ کو بھول گئے۔ ملک کی تقسیم کے وقت مسلم اکثریتی ریاست کے باوجود کشمیری عوام نے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا۔ شیخ عبداللہ کی قیادت میں کشمیری مسلمانوں نے ہندوستان کو اختیار کرتے ہوئے ملک کے دیگر مسلمانوں کے حوصلے میں اضافہ کیا تھا ۔ آج شیخ عبداللہ کے جانشین اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کے بجائے حکومت کے آگے ہاتھ جوڑ رہے ہیں۔ ہاتھ جوڑ قیادت کشمیریوںکو انصاف نہیں دلاسکتی۔ کشمیریوں کے جذبات جاننے ہوں تو حکومت کو حریت کانفرنس قائدین سے بات چیت کرنی چاہئے ۔

دل اور دلی کی دوری ختم کرنے کا احساس نریندر مودی کو کم از کم دو سال بعد جاگا ہے ۔ 5 اگست کو کشمیر میں عوامی حقوق کے قتل کو دو سال مکمل ہوجائیں گے ۔ دو سال کے اس عرصہ میں حقوق سے محروم عوام کے دل سے دلی کا دور ہونا فطری ہے۔ کشمیر کے عوام کا ہندوستان کے ساتھ رشتہ جذباتی ہونے کے ساتھ اعتبار اور بھروسہ کا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے ہندوستان پر بھروسہ کیا جس کے عوض میں شریفانہ معاہدہ کے تحت خصوصی مراعات دی گئیں۔ یہ خصوصی موقف کشمیریوں پر کوئی احسان نہیں بلکہ ہندوستان پر بھروسہ کرنے کے جواب میں خیرسگالی کا ایک مظاہرہ تھا۔ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کو خصوصی مراعات کھٹک رہی تھیں ، لہذا منصوبہ بند طریقہ سے ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست کو ہندو اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کی سازش کی گئی۔ جہاں تک خصوصی مراعات کا سوال ہے آج بھی شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلیوں کو کشمیر کی طرح مراعات حاصل ہیں لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کو صرف کشمیریوں کے حقوق کھٹک رہے تھے۔ ہمت ہو تو شمال مشرقی ریاستوں کے خصوصی مراعات ختم کر کے دکھائیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا خیال اچانک کیوں آیا ؟ نریندر مودی کیا واقعی بدل گئے یا پھر عالمی سطح پر بدنامی اور دباؤ نے انہیں کشمیر میں جمہوریت کی بحالی کا ڈرامہ کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ مودی حکومت کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھیں تو یہ محض ایک سیاسی حربہ کے سوا کچھ نہیں ۔ خصوصی موقف کی بحالی میں سپریم کورٹ کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا لیکن سپریم کورٹ میں مقدمہ کا بہانہ بناکر اس مسئلہ پر اجلاس میں مباحث نہیں ہوئے ۔ دستور نے کشمیریوں کو حقوق فراہم کئے لیکن پارلیمنٹ کے ذریعہ تمام حقوق چھین لئے گئے۔ ٹھیک اسی طرح مودی حکومت اگر چاہے تو دوبارہ قانون سازی کے ذریعہ خصوصی موقف بحال کرسکتی ہے اور سپریم کورٹ کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی حدبندی کا کام جاری ہے جس کی تکمیل کے بعد انتخابات کرائے جائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ حلقوں کی حدبندی کے نام پر مسلم اکثریتی حلقوں کو مساوی آبادی والے حلقوں میں تبدیل کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ خصوصی مراعات ختم کرنے کے بعد گزشتہ دو برسوں میں کشمیر میں دوسروںکو بسانے کا کام تیزی سے انجام دیا گیا ۔ اراضیات کی غیر کشمیریوں کو خریدی کی اجازت کے ذریعہ کشمیریوں کے معاشی حقوق متاثر کئے گئے ۔ دو سال تک عوامی اور سیاسی قیادتوں پر پابندیوں کے دوران بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کرلی۔ جب مشن کشمیر مکمل ہوگیا تو جمہوریت کی بحالی کے نام پر نیا کارڈ کھیلا جارہا ہے۔ کشمیر میں جمہوریت کی بحالی سے زیادہ خصوصی مراعات کی بحالی کی ضرورت ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ خود کو کشمیریوںکا ترجمان اور مسیحا ظاہر کرنے والے سیاسی قائدین نے خود اپنی غیر قانونی اور غیر انسانی حراست پر حکومت سے سوال تک نہیں کیا۔ جن قیادتوں کی آوازیں دب جاتی ہیں، وہ دراصل اپنے مفادات کے اسیر بن جاتے ہیں جس کا نتیجہ حاکم وقت کے آگے ہاتھ جوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ عوام نے ہاتھ جوڑ قیادت پر کافی تبصرے کئے ہیں، ان میں سے ایک تبصرہ یہ بھی تھا کہ ’’کشمیریوں کو چھوڑیئے ۔مودی جی ہمیں کچھ دیجئے ‘‘۔ دو برسوں میں سنگھ پریوار نے جنت نشاں کشمیر میں جارحانہ فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا ہے جس کے نتیجہ میں ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ نریندر مودی نے کشمیر پر اجلاس طلب کرتے ہوئے کشمیری قائدین کے امیج کو داؤ پر لگادیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب عوام اپنے حقوق کے لئے قائدین پر بھروسہ کئے بغیر خود جدوجہد کیلئے تیار ہوں گے ۔ موجودہ حالات پر نواز دیوبندی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
گنگناتا جارہا تھا اک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک