دہلی تشدد‘ خون ریزی کے دوران امیدوں او ربھائی چارے کی کہانیاں سامنے ائی ہیں

,

   

برج پور میں منگل کے روز جس مسجد کو شر پسندوں نے توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگائی تھی اس سے 100میٹر کے فاصلے پر مسلمانوں نے مقامی ہندوؤں کے ساتھ ملکر مندر کو حفاظت کی ہے

نئی دہلی۔ نارتھ ایسٹ دہلی کے مختلف علاقوں میں اس ہفتہ پیش ائے تشدد اور خون ریزی کے ہولناک واقعات کے دوران ہندو اور مسلمانوں کی ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنے کی کہانیاں آپسی بھائی چارے کے لئے ایک نئی امید کی کرن پیدا کرنے کی وجہہ بن رہی ہیں۔

برج پور میں منگل کے روز جس مسجد کو شر پسندوں نے توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگائی تھی اس سے 100میٹر کے فاصلے پر مسلمانوں نے مقامی ہندوؤں کے ساتھ ملکر مندر کو حفاظت کی ہے۔

جمعرات کے روز فاروقیہ مسجد کے باہر کھڑے ہوکر مقامی محمد طارق اور مدن سنگھ نے ہم آہنگی کی بات کی۔

طارق نے کہاکہ ”ہم نے دیکھا کہ مذکورہ گلی میں ہجوم داخل ہورہا ہے جہاں پر مسجد کھڑی تھی اور انہوں نے کچھ منٹوں میں ہی مسجد کو آگ لگادی۔کچھ دیر بعد ایک او رہجوم علاقے میں داخل ہوا ور وہ مندر کی طرف بڑھنے کی کوشش کررہاتھا۔

ہم نے دیگر ہندؤ پڑوسیوں کے ساتھ ایک انسانی زنجیر بنائی اور فسادیوں کومندر کے قریب جانے سے روکا“۔ ان کے بازو میں کھڑے ایک مقامی دوکان کے مالک سنگھ نے کہاکہ ”ہم کئی سالوں سے ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں اور کچھ باہر کے لوگ اسکو توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

ہمارے مسلم پڑوسی تشدد کے واقعات میں ملوث نہیں ہیں۔حقیقت تو یہ ہے انہوں نے ہماری مندر کی حفاظت کی ہے“۔اندروہار میں سات سے اٹھ ہندو فیملیاں نے خوف کے ماحول میں کسی اور مقام پر منتقل ہوگئے مگر تارہ دیوی کی حفاظت پچھلے دودنوں سے ان کے مسلم پڑوسی کررہے ہیں۔

دیوی ایک آشا ورکر ہے اور وہ اس علاقے میں پچھلے35سالوں سے رہ رہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ”پیر کے روز جب ہمارے پڑوسی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ یہاں پررہنے کے لئے مجھے چھوڑ کر چلے گئے کئی مسلمانوں نے انہیں روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔

انہوں نے ہمیں بھروسہ دلایا کہ کوئی بھی انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا وہ ہماری حفاظت کریں گے“۔

اندرا وہار کی مرکزی سڑک پر مسلمان چوبیس گھنٹے ایک مندر کی حفاظت میں کھڑے ہیں۔ ج

معرات کے روز61سالہ نوشاد جو پیشہ سے ٹیلر ہیں دیگر دو لوگوں کے ساتھ مندر کے باہر بیٹھ گئے۔انہوں نے کہاکہ ”وہ (ہندو) علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ (ہندو) واپس ائیں گے۔

اگر کوئی اس مندر کو توڑ دیتا ہے تو ہم ان ہندوؤں کا کس طرح سامنا کریں گے“۔ مقامی لوگوں نے کہاکہ جب منگل کے روز ایک پڑوس میں ہجوم داخل ہوا توہندؤوں نے کم سے کم 24مسلم فیملیو ں کو گوکال پور کی گنگا پور میں حفاظت کی ہے۔

وہیں ان میں سے زیادہ تر اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے پاس چلے گئے اور کچھ اپنے گھروں میں اب بھی موجود ہیں۔ ایک گھریلو ملازمہ سریتا کمار نے کہاکہ ”جب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک ہجوم مسلمانوں پر حملہ کررہا ہے تو ہم نے دو گھر والوں کو بلایا اور ان سے ہمارے گھر میں جاکر رہنے کااستفسار کیا۔

انہوں (ہجوم) نے ہمارے مسلم پڑوسیوں کے تمام گھروں کو تباہ کردیا۔ ہم یہاں پر پچھلے تیس سالوں سے رہ رہے ہیں۔ تو پھر ہم انہیں کس طرح مرنے کے لئے چھوڑ سکتے ہیں؟“۔ مصطفے ٰ آباد میں بھی اسی طرح کی کہانیاں سامنے ائی ہیں

۔ دلبیر سنگھ ایک دوکاندار نے کہاکہ ”دوستوں کی طرح ہم ایک ساتھ بڑھے ہوئے ہیں۔

ہم (مقامی ہندو) نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے جو چوبیس گھنٹے مسلمانوں کے گھروں کے باہر بیٹھیں گے۔ ہم کسی کوبھی انہیں ہاتھ لگانے نہیں دیں گے“