دہلی فسادات۔ حکومت اور پولیس کا رول

   

امن و آمان کی برقراری میں حکومت اور محکمہ پولیس کا اہم رول ہوتاہے ،اس لئے ایسے افراد کومنتخب کرکےحکومت کے ایوانوں میں پہنچانا چاہئے جودیانتدار ،ہمدرد ،رعایہ کے بہی خواہ اور ملک کے سیکولر کردار کی حفاظت میں سنجیدہ ہوں، محکمہ پولیس میں ایسے افراد کو ملازمت دی جانی چاہئے جو انسانیت نواز اور عادلانہ و انصاف پسندانہ مزاج کے حامل ہوںاور ہر قیمت پر ملک میں امن و آمان برقرار رکھنے کی ان کو فکر دامن گیر ہو،پرامن سماج میں بگاڑو فساد برپا کرنے والوں پر ان کی کڑی نظر ہو،شہریوں کی جان و ما ل اور ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہو،محکمہ پولیس کے پورے ملازمین خواہ وہ اعلیٰ منصب پر ہوں کہ ادنیٰ منصب پر بھید بھائو سے بالکل پا ک ہوں،مذہبی ،قومی ،فکری و نظری ،سیاسی و خاندانی روابط و تعلقات ان کے فرائض و ذمہ داریوںکے نبھانے میں ہرگز حائل نہ ہوں،پولیس کوکشادہ ذہن ،وسیع النظر ،وسیع القلب، انسانیت نواز ،رحمدل ہونا چاہئے، محکمہ پولیس ’’انسان دوست ‘‘ ہوتاہے ،یقیناً ایسا ہی ہونا چاہئے ،لیکن ہمارے جمہوری ملک میں اکثر اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے اور عملاً ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گویا محکمہ پولیس میں انسان دوست کم اور انسان دشمن زیادہ ہیںکیونکہ حکومت اور پولیس میں چھپے شرپسند عناصر ہی اکثر لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ پیدا کرنے کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں، حکومت کے ذمہ دار اور پولیس امن و آمان کے قیام میںاگر سنجیدہ ہوں تو ہر گز شرپسند عناصر کو سراٹھانے کا موقع نہیں مل سکتا،حکومت اور پولیس کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کریں، سماج میں امن و آمان کو یقینی بنائیں ، جرائم کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو روکنے کی ممکنہ کوشش کریں، یقیناً حکومت و پولیس عدل و انصا ف کے ساتھ اپنے پرائے کی تخصیص کے بغیر قانون نافذ کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ، جرائم کے سدباب میں مجرمین کی تفتیش بڑی اہم ہوتی ہے ،اس لئے پوری دیانت داری کے ساتھ ثبوتوں اور حقائق کی روشنی میں مقدمہ کا اندراج ہونا چاہئے،اپنی منصبی ذمہ داری نبھانے میںغفلت و کوتاہی کے ارتکاب سے پولیس کا کردار داغدار ہوجاتا ہے ،اپنی طاقت کا اس کو قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے بروقت استعمال کرنا چاہئے ، شرپسند عناصر اگر امن و آمان کو درہم برہم کرنے کی کوشش کریں تو ان کی سخت گرفت بھی ہواور ان کو قرار واقعی سزا دلانے میں محکمہ پولیس پوری طرح سنجیدہ ہویہی وہ حقائق ہیں جن پر عمل کرنے سے ملک میں امن و آمان برقرار رہ سکتا ہے ۔آزادی سے قبل پھر آزادی کے بعد ہمارے ملک میں کئی ایک فسادات رونما ہوئے ان کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اکثر فسادات یکطرفہ رہے ہیں، مسلمانوں نے سونچے سمجھے منصوبہ کے مطابق منظم طریقہ سے کبھی کوئی فساد ہی نہیں کیا،اکثر غیر مسلم شرپسند عناصر نے ہی درندگی مچائی ہے،نفرت کی سیاست کرنے والے نیتائوں نے ہمیشہ نفرت کی آگ بھڑکاکر شرپسند عناصر کو اکسایا ہے ،پھر کیا تھا بے قصور شہریوں (مسلمانوں) کا خون بہایا گیا ،مسلمانوں کے املاک و جائیداد ،کاروبار و تجارت کو نقصان پہنچانے کیلئے لوٹ مار اور آتش زنی کا کھیل کھیلا گیا ،نہتے و بے قصور مسلمان ہجومی تشددکے ہاتھوں لٹتے پٹتے رہے ،اس کے باوجود اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نصرت و مدد سے مسلمان دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوسکے ،اللہ سبحانہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ،مسلمان جب تک دین پر قائم رہیں گےاللہ سبحانہ ان کی حفاظت فرمائے گا، کوئی ان کا بال بیکانہیں کرسکے گا ، وہ دن ضرور آئے گا کہ اسلام ہی کرئہ ارض کا مقدرہوگا یہ بھی کہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے جذبہ سے ظلم ڈھانے والے شر پسند عناصرخود ان شاء اللہ ختم ہوجائیں گے ،اسلام اور مسلمان دنیا سےنہ کبھی ختم ہوئے ہیں اور نہ کبھی ختم ہونگے ،بقول علامہ احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ ۔
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیںگے اعداء تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچہ تیرا
وطن عزیز سے محبت چونکہ مسلمانوںکی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اس لئے مسلمان ہی ملک کے سچے بہی خواہ ثابت ہوسکتے ہیں اس لئے وہ کبھی ملک چھوڑنے یا جوابی اقدامات اختیار کرنے کاتصور بھی نہیں کرتے ،مسلمان اللہ کی رحمت سے مایو س نہیں ہیں اس لئے ہمیشہ یہی خیال کرتے ہیںکہ ان شاء اللہ آج نہیں تو کل حالات درست ہوجائیں گے ، لیکن افسوس اس وقت ہر آنے والے دن کے ساتھ سدھار کے بجائے بگاڑ میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ، تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ فسادات سیاسی سرپرستی کے بغیر انجام نہیں پاسکتے ، ان کے پیچھے ضرور حکومت کے بدعنوان عہدیداروں اور پولیس کے منصب داروںکا ہاتھ ہوتا ہے ، ان کی سرپرستی کے بغیر فسادی شرپسندوں کوپرامن ماحول کے بگاڑنے کی ہمت نہیں ہوسکتی ، آثار و قرائن بلکہ شواہد کی روشنی میں دہلی کے منصوبہ بند رونما ہونے والے فسادات میںیہی کچھ صورتحال مشاہدہ میںآئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اُکسانے والے سیاسی لیڈروں کے جارحانہ بیانات اور محکمہ پولیس کی جانبدارانہ روش پر کئی ایک سوالات اٹھائے جارہے ہیں،چونکہ ایسے شواہد اکھٹا ہوئے ہیںجو ان سوالات کومزید تقویت بخشتے ہیں، دہلی کے نشان زد مسلم علاقوں اور ان کی رہائشی و تجارتی جائیدادو ں کوایسی آگ لگائی گئی کہ وہاں سے اٹھنے والے آگ کے شعلوں اور دھوئیں سے یہ گمان ہورہا تھا کہ شاید آتش فشاں پھٹ پڑا ہو،ان حالا ت میں اس خونی فساد کے بڑھاوا دینے میں پولیس کی مجرمانہ غفلت کوسپریم کورٹ کے ججس نے بھی تسلیم کیا ہے ، کانگریس نے الزام عائد کیا کہ سیاہ قوانین پر ہونے والےپرامن احتجاجات کے خلاف بھڑکائے گئے دہلی فسادکے کیس میں پولیس کی سرزنش کرنے کی پاداش میں جسٹس مرلیدھر کا تبادلہ کیا گیاہے،تاکہ کئی بی جے پی رہنمائوں کو بچایا جاسکے اور تشدد کی سرزنش کا پردہ فاش نہ ہوسکے ۔ ’’روزنامہ سیاست ۲۹۔فروری ۲۰۲۰ ء کے اداریہ میں’’ججس پر عتاب ‘‘کے زیر عنوان لکھا ہے ججس صاحبان پر مودی حکومت کا عتاب ہندوستان میں عدل و انصاف کا گلا گھونٹنے کی ایک گھناونی ترکیب ہے ،آگے یہ سوال اٹھایاگیاکہ دہلی فساد پر قابو پانے میں ناکام پولیس اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والے بی جے پی قائدین کے خلاف ایک شکایت پر شکایت کنندہ کے خلاف ہی کارروائی کی جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی کہاوت پر عمل ہورہا ہے ۔ پولیس شہریوں کی جان کا تحفظ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ، حکومت شہریوں کو راحت دینے کے فرض سے راہ فرار اختیار کی ہوئی ہے ۔’’ سابق ڈی جی پی پرکاش سنگھ کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس کی غیر فعالیت کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے ۔ اس سے پہلے جامعہ تشدد اور جے این یو تشدد معاملے میں بھی ان کا رول سوالوں کے گھیرے میں تھا اور ان پر تمام طرح کے الزام لگے ۔ کیا وجہ ہے ‘‘؟ ’’سابق پولیس کمشنر اجے رائے شرما کہتے ہیں کہ پولیس ایک ایسا آلہ ہے جو ریاست وحکومت کا ہتھیار ہوتا ہے۔دلی کے معاملے میں یہ ہتھیار مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔حالانکہ ملک کا قانون کہتا ہے کہ اگر پولیس کے سامنے کوئی جرم ہو رہا ہے تو اسے فوراً حرکت میں آنا چاہیے لیکن آہستہ آہستہ یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے‘‘۔دہلی میں قتل و غارت گری اور آتشزنی کا یہ ننگا ناچ تین دن تک جاری رہا پولیس کے سامنے دنگائی تشددکرتے رہےاور وہ خاموش تماشائی بنی رہی تو کیا اس پر سوال نہیں اُٹھے گا؟۔غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ شاید کسی کے اشاروں پر پولیس نہ صرف دنگائیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی بلکہ ان کے ساتھ کہیں کہیں شریک فساد بھی تھی، یہ خود حکومت اور پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتا ہے ۔اس وقت دنیا کے کونے کونے میں متنازعہ قوانین کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے وجہ یہ ہے کہ یہ قوانین دستور میں دی گئی آزادی کے یکسر مغائر ہیں، اس (Non Violence Protest) پرامن احتجاج کوسبوتاج کرنے کی غرض سے دہلی فساد رونما کرکے اس کو Violence protest پرتشدد احتجاج میں تبدیل کرکے بدنام کرنے کی ایک سازش کی گئی ہے ،ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے دستور وقانون کی رو سے یہ کوئی مذہبی (State)ریاست نہیں ہے،اسلام اور اس کے قوانین پر اعتراضات کرنے والوں اور اس کو ایک تشدد پسند مذہب بتاکر بدنام کرنے کی سازش رچنے والوں کو اسلام کی اولین ریاست مدینہ منورہ کے عادلانہ و منصفانہ بھائی چارہ پر مبنی منشور کا کھلے ذہن سے مطالعہ کرنا چاہئے، اس موضوع پر لکھی گئی تاریخی کتب میں غیر مسلموں کے جان و مال اور عبادت گاہو ں کے تحفظ سے متعلق چشم کشا تفصیلات موجود ہیں،’’ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین میں اس پر جو عمل آوری ہوئی ہے اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، حضور انور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مواثیق ،معاہدات اورفرامین کے ذریعہ اس تحفظ کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا فرمادی تھی۔ جس میں غیر مسلم شہریوں کے جا ن و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی کامل ضمانت دی گئی ہے ، اسے امام ابوعبیدہ قاسم بن سلام ، امام حمید بن زنجویہ ، ابن سعد او ربلاذری وغیرہ نے روایت کیا ہے ، ’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ،اہل نجرن اور ان کے حلیفوں کیلئے ان کی جانوں ، ان کے مذہب ان کی زمینوں ان کے اموال ان کے راہبوں اور پادریوں ،ان کے موجود و غیر موجود افراد ،ان کے مویشیوں اور قافلوں اور ان کے استھان ( مذہبی مقامات ) وغیرہ کی ضامن اور ذمہ دار ہے ، جس دین پر وہ ہے اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا ، ان کے حقوق اور ان کی عبادتگاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی ، نہ کسی پادری نہ کسی راہب نہ کسی سردار کو اور نہ کسی عبادتگاہ کے خادم کو خواہ اس کا عہدہ معمولی ہو یا بڑا اس سے نہیں ہٹایا جائے گا اور ان کو کوئی خوف و خطرہ نہ ہوگا،(الطبقات الکبری ، لابن سعد۱۔۲۸۸۔۳۵۸)ایک خالص اسلامی اسٹیٹ کےدستور میں غیر مسلموں کو دئے گئے تحفظات سے جمہوری ممالک کے ذمہ داروں کوروشنی حاصل کرکے بلالحاظ ِ مذہب و ملت رعایہ کے حقوق کا تحفط اور ملک و قوم کی بقا اور اس کی ترقی کی فکر کرنی چاہئے ۔