دہلی مئیر کا انتخاب ‘ بی جے پی کی شکست

   

دارالحکومت دہلی میں بالآخر ؎مئیر کا انتخاب عمل میںآچکا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی امیدوار شیلی اوبرائے نے اس انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے بی جے پی کو شکست سے دو چار کردیا ہے ۔ بی جے پی کی یہ کراری شکست ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کو انتخابات میں عوامی ووٹ کے ذریعہ ہی شکست ہوگئی تھی لیکن بی جے پی مرکز میں اپنے اقتدار اور لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ بزور طاقت کامیابی حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی یہ کوشش سپریم کورٹ کے احکام کے بعد ناکام ہوگئی ۔ ماہ ڈسمبر میںدہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے اور یہاں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کے پندرہ سالہ اقتدار کو ختم کرتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس طرح کے نتائج کی شائد بی جے پی کو توقع نہیںتھی ۔ بی جے پی نے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے کئی ہتھکنڈے استعمال کئے ۔ پہلے تو دہلی کی تین کارپوریشنس کو ایک کردیا گیا اور پھر نت نئے انداز سے انتخابات پر اثر اندز ہونے کی کوشش کی ۔ کئی مرکزی قائدین نے بھی دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میںمہم چلائی اور عوام سے رابطے کئے ۔ تاہم عام آدمی پارٹی کو عوام کی تائید حاصل ہوئی جس نے نصف سے زیادہ نشستوںپر کامیابی حاصل کرتے ہوئے میونسپل کارپوریشن پر قبضہ جمالیا ۔ تاہم بی جے پی کو یہ شکست ہضم نہیںہوئی ۔ پارٹی نے لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ نامزد ارکان کو مئیر کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا اختیار دینے کی کوشش کی تاہم عوام کے ووٹ سے شکست کے باوجود مئیر کا عہدہ حاصل کرلیا جائے ۔ ڈسمبر کے بعد سے تین مرتبہ مئیر کے الیکشن کو ملتوی کیا گیا تھا اور بالآخر عام آدمی پارٹی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے احکام میںیہ واضح کردیا کہ اس معاملہ میں دستوری احکام واضح ہیں اور لیفٹننٹ گورنر کی جانب سے نامزد کردہ ارکان کو مئیر کے انتخاب میںووٹ ڈالنے کا حق نہیںرہے گا ۔ بی جے پی کیلئے یہ فیصلہ اس کے عزائم کو ناکام بنانے والا رہا اور اس نے جو بھی ہتھکنڈے اختیار کئے تھے اس فیصلے کی وجہ سے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے اور بالآخر عوام کے فیصلے کے مطابق مئیر کا عہدہ عام آدمی پارٹی کو چلا گیا ۔
بی جے پی کی سیاسی غلبہ کی حکمت عملی جمہوری عمل کیلئے مضر ثابت ہوتی جا رہی ہے ۔ خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت قرار دینے والی بی جے پی اپنے عمل کے ذریعہ ملک کی سیاست میں ایک ایسی روایت عام کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو جمہوریت کیلئے صحتمند نہیں کہی جاسکتی ۔جمہوریت میں عوام ہی با اختیار ہوتے ہیں۔ عوام کا فیصلہ ہی قطعی اور آخری ہوتا ہے ۔ عوام کے ووٹوںکے ذریعہ حکومتیں بنتی ہیں ‘ بگڑ جاتی ہیں۔ کوئی تخت سے تختہ پر پہونچ جاتا ہے تو کسی کے نصیب میںتختہ سے اچانک تخت آجاتا ہے ۔ یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے اور ہندوستان کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ ہماری جمہوریت دنیا بھر میںعزت و احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ اس جمہوریت کا تحفظ کرنا سبھی جماعتوں اور سبھی سیاسی قائدین کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ ملک کے عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کے استحکام میںاپنا رول ادا کرتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوںاور قائدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس جمہوریت کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اپنے عہدہ یا اپنے مفاد کی خاطر جمہوری اصولوںکو داغدار نہ کیا جائے ۔ قانون سے کوئی کھلواڑ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ قانون کی پابندی کرتے ہوئے عوام کے فیصلے کو قبول کرنے کی جراء ت سبھی میں ہونی چاہئے ۔ ہر کسی کو یہ ماننا ہوگا کہ جمہوریت ہندوستان کی روح ہے اور اس کو متاثرکرنے کی کسی کو کوشش نہیںکرنی چاہئے اور نہ ہی کسی کو اجازت دی جانی چاہئے ۔
عوام کے ووٹوںسے جو حکومتیں منتخب ہوتی ہیں وہی منطقی حکومت کہلاتی ہے تاہم بی جے پی نے اقتدار کی ہوس میں یا پھر اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے مرکز میں اپنے مستحکم اقتدار کا زیادہ ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی ریاستی حکومتوںکو زوال کا شکار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی گئی ۔ اس کیلئے باضابطہ سازشیں کی گئیں۔ اس کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا ۔ کئی گوشوں کا الزام ہے کہ اس کیلئے پیسے کی طاقت استعمال کی گئی اورارکان اسمبلی کو خریدنے سے بھی گریز نہیںکیا گیا ۔ یہ سارا کچھ جمہوری اصولوں کے مغائر ہے اور دہلی میں مئیر کے انتخاب سے بی جے پی کو دوہری شکست ہوئی ہے ۔ پارٹی اگر عوام کے فیصلے کو فراخدلی سے قبول کرلیتی تو یہ جمہوریت کیلئے بہتر ہوتا ۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارٹی کو دوہری شکست ہوئی ہے ۔