دہلی مئیر کا انتخاب کب ہوگا؟

   

نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ تو ہمسفر کی تلاش ہے
میرے شوقِ خانہ خراب کو تیری رہگذر کی تلاش ہے

ملک کے دارالحکومت شہر دہلی میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کا عمل مکمل ہوئے کئی ہفتے گذر چکے ہیں۔ کارپوریشن میں عام آدمی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا تھا اور اس پر بی جے پی کا پندرہ سال سے جاری تسلط ختم ہوگیا تھا ۔ بی جے پی تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس شکست کو برداشت کرنے یا قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ عام آدمی پارٹی بھی دہلی میں بی جے پی کی طاقت اور اس کی سازشوں کے آگے بے بس ہوتی نظر آ رہی ہے کیونکہ اکثریت رکھنے کے باوجود عام آدمی پارٹی اپنا مئیر بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے ۔ بی جے پی درکار تعداد نہ رکھنے کے باوجود مئیر بنانے کا دعوی کر رہی ہے ۔ حالانکہ ابتداء میں بی جے پی دہلی یونٹ کے صدر نے یہ واضح کردیا تھا کہ چونکہ اکثریت عام آدمی پارٹی کو ملی ہے اس لئے مئیر بھی اسی پارٹی کا ہوگا ۔ تاہم مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے بعد میں اچانک ہی پارٹی کے موقف کو تبدیل کردیا اور کہا تھا کہ بی جے پی بھی مئیر بنانے کی کوشش کرے گی ۔ بی جے پی کا یہ اعلان خود اس بات کاثبوت ہے کہ بی جے پی توڑ جوڑ اور انحراف کے ذریعہ مئیر کا عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے جو عوامی رائے کی تضحیک کے مترادف ہے ۔ عوام کی رائے پارٹی کے خلاف ہونے کے باوجود اس طرح منتخب عوامی نمائندوں میں انحراف کو ہوا دینا در اصل جمہوری عمل کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے ۔ بی جے پی عوامی رائے کے ذریعہ ہی ملک کے اقتدار پر فائز ہوئی ہے ۔ کئی ریاستوں میں اسے اقتدار حاصل ہوا ہے اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد اقتدار کا اور مرکزی ایجنسیوں کا جس طرح سے بیجا اور غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعہ اپوزیشن اور مخالف آوازوں کو دبایا کچلا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ بی جے پی اپنے اقدامات کے ذریعہ جمہوری عمل کا مذاق بنانے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اپوزیشن حکومتوں کو انحراف کے ذریعہ زوال کا شکار کرتے ہوئے پارٹی نے اقتدار پر قبضہ جمالیا ہے اور یہ غیر قانونی عمل ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ایسی حرکتوں سے بی جے پی اور تمام دوسری برسر اقتدار جماعتوں کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔
دہلی میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات انتہائی شدت کے ساتھ لڑے گئے تھے ۔ انتخابی مہم میں رائے دہندوں کو رجھانے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوششوں میں کسی بھی پارٹی نے کوئی کسر نہیںچھوڑی ۔ ہر جماعت نے اپنے طور پر ہر ممکن جدوجہد کی ۔ کئی ہتھکنڈے اور حربے اختیار کئے گئے ۔ بی جے پی کے کئی اعلی قائدین نے انتخابی مہم میں حصہ لیا ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ تو گھر گھر گئے اور مہم چلائی تھی اس کے باوجود پارٹی کو اقتدار بچانے میں کامیابی نہیں ملی اور کارپوریشن پر سے اس کا تسلط ختم ہوگیا ۔ عام آدمی پارٹی کو 250 رکنی کارپوریشن میں اکثریت حاصل ہوئی ۔ اس کے باوجود بی جے پی کی جانب سے مئیر کے عہدہ کیلئے کوشش کرنا اور عام آدمی پارٹی کے مئیر کے انتخاب کو روکنا جمہوری عمل سے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ پارٹی کو اس طرح کی غلبہ والی سیاست سے گریز کرتے ہوئے جمہوری عمل اور مروجہ قوانین کی پابندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح سے عوامی رائے سے کھلواڑ کرنے کی کوشش نہیںکی جانی چاہئے ۔ اگر عام آدمی پارٹی کے کونسلرس کو انحراف کیلئے مجبور کیا جاتا ہے اور اپنی صفوں میںشامل کرلیا جاتا ہے تویہ غیر جمہوری عمل ہوگا ۔ اس سے عوامی رائے کی تضحیک ہوگی ۔ عوام سے مذاق کرنے کے مترادف ہوگا ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ان تمام باتوں کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر دلی میونسپل کارپوریشن پر بھی اپنے قبضہ اور تسلط کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے تیار ہے ۔
عام آدمی پارٹی کی دہلی میں حکومت ہے ۔ میونسپل کارپوریشن میں بھی اسے اقتدار حاصل ہوا ہے تو اسے بھی اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ بی جے پی کے ساتھ سیاسی کھیل کو طوالت دینے کی بجائے فیصلہ کن اقدام کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوامی رائے کی حفاظت کرنا خود عام آدمی پارٹی کی بھی ذمہ داری ہے ۔ جب اسے اکثریت حاصل ہے تو مئیر کے انتخاب میں کوئی تاخیر نہیں کی جانی چاہئے ۔ جس طرح آج مئیر کے انتخاب کی کوشش ناکام ہوئی ہے اگر ایسی اور کوششیں ناکام ہوئیں تو بی جے پی اپنے عزائم میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ اس بات کو ذہن میںر کھتے ہوئے عام آدمی پارٹی کو حکمت عملی بنانی چاہئے ۔