دہلی‘ ممبئی دفاتر پر ائی ٹی سروے کے بعد برطانیہ نے بی بی سی کی بھر پور حمایت کی

,

   

جیم شانان برائے شمالی ائیر لینڈس ڈیموکرٹیک یونینسٹ پارٹی(ڈی یو پی)نے بحث کی شروعات یہ کہتے ہوئے کی کہ یہ ”دھاوا“ دراصل ”ملک کے رہنماء کے خلاف بے چین کردینے والی ایک دستاویزی فلم کی ریلیز کے جان بوجھ کر کیاجانے والا یہ اقدام“ تھا۔


دہلی او رممبئی میں بی بی سی دفاتر پر تقریبا59گھنٹوں کے سروے کے دوران انکم ٹیکس عہدیداروں کی وقت گذاری ایک ہفتہ بعد مذکورہ برطانوی حکومت نے منگل کے روز ایک پارلیمانی بحث کے دوران برٹش براڈ کاسٹنگ کاپوریشن (بی سی سی) کی بھر پور مدافعت کی ہے۔

حکومت نے کہاکہ براڈکاسٹرکی ادارتی آزاد بہت اہم ہے اور یہ کہ ”چھاپوں“کے حوالے سے خدشات ہندوستانی حکومت کے سامنے لائے گئے۔ اس بحث میں یہ تبصرے بھی شامل تھے کہ برطانیہ کو اپنی پریس کی آزاد پر کس قدر فخرہے“۔

ٹوری ڈیوڈ روٹلی نے کہاکہ ”ہم بی بی سی کے ساتھ کھڑے ہیں‘ ہم بی بی سی کو فنڈ دیں گے’ہم سمجھتے ہیں کہ بی بی سی عالمی خدمات کافی اہم ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ بی بی سی کوادارتی آزاد ہونا چاہئے“اشارہ دیاکہ بی بی سی کنزرویٹیو پارٹی اور لیبر پارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”آزادی کلیدی ہے‘ اور ہم چاہتے ہیں کہ اس کی اہمیت کو بشمول ہندوستان کے سارے دنیا کے اپنے دوستوں تک پہنچائیں“۔جیم شانان برائے شمالی ائیر لینڈس ڈیموکرٹیک یونینسٹ پارٹی(ڈی یو پی)نے بحث کی شروعات یہ کہتے ہوئے کی کہ یہ ”دھاوا“ دراصل ”ملک کے رہنماء کے خلاف بے چین کردینے والی ایک دستاویزی فلم کی ریلیز کے جان بوجھ کر کیاجانے والا یہ اقدام“ تھا۔


لیبر پارٹی کے ایک ایم پی بی بی سی ملازمین کو خصوص کر رات بھر دفتر میں گذارنے اور تفتیش کے مراحل سے گذرانے پر تاسف کا اظہار کیا۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ان حالات میں واضح طور پر یہ لاگو ہوتا ہے کہ جمہوریت میں میڈیاسیاسی قائدین پر بلاخوف وخطر اثرات کے تنقید کرنے اور ان کی چھان بین کرنے کا اہل ہوتا ہے“۔

دہلی او رممبئی میں بی بی سی دفاتر پر انکم ٹیکس سروے کے متعلق تشویش کا اظہار کرنے والوں میں ایک برطانوی پہلے سکھ رکن پارلیمنٹ تانمان جیت سنگھ دھاسی کا نام بھی شامل ہے

محکمہ انکم ٹیکس نے بی بی سی ہندوستان کے دفاتر پر انٹرنیشنل ٹیکس اور بی بی سی کی ذیلی اداروں کی قیمتوں کی منتقلی پر خدشات کے حوالے سے ایک سروے کیا۔ تین روز ہ سروے کے دوران ملازمین کے لیاب ٹاپس اور موبائیل آلات کی جانچ کی گئی ہے۔

سروے کے اختتام پر بی بی سی نے اعلان کیاتھاکہ وہ بغیر کسی خوف میں ائے اپنی رپورٹنگ کو جاری رکھے گا۔

محکمہ انکم ٹیکس نے کہا ہے کہ بی بی سی گروپ کے بعض اداروں کی آمدنی اور ہندوستان کی آمدنی ان کے کاموں کے دائرہ کار کے ساتھ ”متناسب“ نہیں تھی او ران بیرونی ملک اداروں کی طرف سے کی گئی متعدد منتقلیوں پر ٹیکس ادا نہیں کیاگیاتھا۔