دہلی میں دلت لڑکی کا ریپ اور قتل امیت شاہ خاموش کیوں ؟

   

برندا کرت

وندنا کٹاریہ ہندوستانی ویمنس ہاکی ٹیم کی ایک بہترین کھلاڑی ہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ وہ پوری جانفشانی سے ٹوکیو اولمپکس میں اپنی ٹیم کیلئے کھیلی تھی، ٹیم انڈیا کی کامیابی کو یقینی بنانے جان توڑ کوشش کررہی تھی۔ ہردوار کے روشن آباد میں واقع اس کے گھر پر اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے ہلہ بول دیا۔ وہ وندنا کٹاریہ کے ارکان خاندان کو گالیاں دے رہے تھے۔ ان کی ذات کے خلاف بکواس کررہے تھے۔ نسل پرستانہ فقرے کس رہے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ارجنٹائن کے خلاف ہندوستانی ویمنس ہاکی ٹیم کی ناکامی پر وہ وندنا کے گھر کے باہر آتش بازی کررہے تھے، رقص کررہے تھے، یہ سب کیوں کیا جارہا تھا؟ اس لئے کہ وندنا ایک دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ ہندوستانی ٹیم کی شکست کیلئے اعلیٰ ذات کے لوگ ٹیم میں دلت کھلاڑیوں کی موجودگی کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ ہاں ان خاطیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور ہاں گاؤں کے دوسرے لوگوں نے اس واقعہ کی مذمت بھی کی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مجرمین کو وندنا کٹاریہ جیسی قومی ہاکی کھلاڑی اور اس کے ارکان خاندان کے خلاف نسل پرستانہ جملے کسنے اور ان کی ذات کو گالیاں دینے کی ہمت کیسے ہوئی؟ دراصل ذات پات اونچ نیچ کی جو درجہ بندی یا زمرہ بندی نے اور ہمارے معاشرتی نظام نے ہی اس درجہ بندی نے منظوری دی ہے، جس کے نتیجہ میں اعلیٰ ذات کے لوگ دلتوں کی وقفہ وقفہ سے توہین کرتے رہتے ہیں۔ آج ہندوستان پر حکومت کرنے والوں کی زبان سے ہمدردی کا ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا۔ اس دلت بچی کی عمر صرف 9 سال تھی۔ اپنی ماں کیلئے غیرمتوقع تحفہ تھی۔ اس کی ماں نے ہمیں بتایا کہ اس نے ماں بننے کی ساری اُمیدیں چھوڑ دیں تھیں۔ اسی لئے بھی وہ ہمارے خاندان کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور سب اسے بہت پیار کرتے تھے۔ میں نے اپنے دیگر کامریڈس کے ہمراہ اس لڑکی کی غم زدہ ماں سے ملاقات کی تاکہ اس سے اظہار تعزیت و اظہار یگانگت کیا جاسکے۔ اس وقت ہم نے دیکھا کہ ہمیں درجنوں فکرمند شہری گھیرے ہوئے تھے اور ان میں ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جو متوفی بچی کی کالونی میں رہتے ہیں۔ ان کی تائید و حمایت کیلئے شہر کے مختلف مقامات سے آنے والے مرد و خواتین کی بھی کافی تعداد جمع ہوگئی تھی۔ لوگ اپنی کالونیوں اور بستیوں سے سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکل آئے تھے تاکہ اس بہیمانہ جرم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس واقعہ کا دردناک پہلو یہ رہا کہ جرم اور گناہ کے ثبوت و شواہد کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اکثر چھوٹے بچوں کی نعش نذرآتش نہیں کی جاتی بلکہ دفن کی جاتی ہے لیکن اس واقعہ میں بچی کی نعش کو جلا دیا گیا۔ متوفی بچی کے والدین اور رشتہ داروں کا الزام ہے کہ 9 سالہ گڑیا کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی اور پھر قتل کردیا گیا۔ بعض بزرگ شہریوں نے بتایا کہ اس واٹر کولر کو اس طرح رکھا جاتا جس سے سڑک پر سے گزرنے والے بھی اپنی پیاس بجھا سکتے تھے۔ اسی طرح کے واٹر کولرس کی تنصیب دہلی کے مختلف علاقوں میں کی جاتی ہے لیکن پتہ نہیں، اب کی بار واٹر کولر کو شمشان گھاٹ کے اندر کیوں رکھا گیا اور یہی واٹر کولر کمسن بچی کی موت کا سبب بنا۔ وہ دن میں پہلے ہی ایک مرتبہ اس کولر سے پانی لاچکی تھی اور دوسری مرتبہ جب وہ گئی کچھ دیر بعد ہی پنڈت نے اس کی ماں کو یہ کہتے ہوئے طلب کیا کہ اس کی بیٹی کی طبیعت بگڑ گئی ہے جس کے ساتھ ہی ماں تڑپتی ، بلکتی، اکیلی ہی شمشان پہنچ گئی جہاں اسے اس کی بیٹی کی بے حس و حرکت پڑی نعش دکھائی گئی۔ پنڈت کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی شاک سرکٹ کی زد میں آگئی۔ اس وقت وہاں چار آدمی موجود تھے۔ ان لوگوں نے کسی کو بھی کال کرنے نہیں دیا۔ وہ صدمہ میں تھیں، ان لوگوں نے خاتون کو بتایا کہ وہ آخری رسومات کے تمام انتظامات کریں گے اور پھر ان لوگوں نے ایک کاغذ پر اس کے انگوٹھے کے نشان حاصل کئے۔ بچی کے باپ کو بھی وہی پیغام بھیجا گیا۔ جب وہ شمشان گھاٹ پہنچا تب شمشان کے باب لداخلہ بند تھے۔ اس کے آنے کے چند منٹ بعد لڑکی کی نعش کو چتا پر رکھ دیا گیا اور پھر آگ لگا دی گئی۔ اس کے ماں باپ کو وہاں سے اس وقت تک جانے نہیں دیا گیا جب تک کہ لڑکی کی نعش تقریباً نہیں جلی۔ جیسے ہی دلت کالونی کے مکینوں کو غم زدہ والدین سے اس واقعہ کا علم ہوا تو سب شمشان پہنچے اور ان لوگوں نے جلتی چتا سے لڑکی کے جسم کے ماباقی حصوں کو کھینچ نکالا پھر کہیں جاکر پولیس وہاں پہنچی اور اس نے ان لوگوں کو حراست میں لے لیا جنہیں لوگوں نے پکڑ رکھا تھا۔ لڑکی کے والدین سے ایسا سلوک کیا گیا جیسے وہ مجرمین ہوں۔ وہاں موجود لوگوں کے مطابق علاقہ کے ایک بدنام زمانہ پولیس مخبر نے لڑکی کے والد کو نہ صرف بڑے حقارت آمیز انداز میں ڈھکیلا بلکہ ایک تھپڑ بھی رسید کیا ، گالی گلوچ کی اور کہا کہ وہ جھوٹا الزام عائد کررہا ہے۔ متاثر دلت خاندان پر پولیس شکایت درج نہ کروانے کیلئے زبردست دباؤ ڈالا۔ یہی وجہ تھی کہ اگلی شام تک متوفی لڑکی کے والدین کو پولیس نے حراست میں رکھا۔ باالفاظ دیگر پولیس نے غم زدہ ماں باپ سے ان کا حق غم بھی چھین لیا۔ انہیں اپنی بیٹی کی موت کا سوگ تک منانے نہیں دیا گیا تاہم جب لوگوں نے سڑکوں پر احتجاج شروع کیا۔ تب ماں باپ دونوں کو بالاخر رہا کیا گیا تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خاطی پولیس والووں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دلتوں کی اس کالونی کے قریب ہی دہلی کنٹونمنٹ کی ایک کالونی ہے جہاں محکمہ دفاع کے عہدیدار رہتے ہیں، وہاں سخت پہرہ بھی ہوتا ہے۔ یہ دراصل دو کالونی نہیں بلکہ دو دنیا ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے ان کے درمیان چند کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن حقیقی زندگی زندگی میں ان میں غربت اور ذات پات کی تفریق نے ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا کردیا۔
حال ہی میں پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اُمور داخلہ نے درج فہرست طبقات وسائل کی خواتین اور بچوں کے خلاف مظالم اور جرائم سے متعلق پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ 2017-19ء میں دلت خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں 15.5% اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح خصوصی عدالتوں میں دلت خواتین اور بچوں پر مظالم سے متعلق مقدمات کی بھرمار ہے اور یہ مقدمات برسوں سے عدالتوں میں زیردوران ہیں جس میں ایس سی ؍ ایس ٹی لڑکیوں و خواتین کی عصمت ریزی سے کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے کیونکہ موجودہ قوانین پر موثر عمل آوری نہیں کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی نفاذ قانون کی ایجنسیوں کا رویہ بھی معاندانہ ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ خاطی بہ آسانی بری کردیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں طاقتور و بااثر طبقات سے تعلق رکھنے والے مجرمین کے حوصلے دن بہ دن بلند ہوتے جارہے ہیں، تاہم اس دلت لڑکی کے کیس میں ہمیں بتایا گیا کہ پولیس نے ایس سی، ایس ٹی ایکٹ یا پاسکو کے تحت مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر کی نقل دینے سے بھی انکار کردیا لیکن احتجاج پر پولیس ایف آئی آر کی کاپی دینے پر مجبور ہوئی۔ لڑکی کے باقیادت یونین پوسٹ مارٹم کیلئے روانہ کئے گئے لیکن یہ بھی کہا گیا کہ ریپ کے الزام ثابت نہیں ہوگا۔
اس معاملے میں یہی کہا جارہا ہے کہ دہلی میں بھی ہاتھرس کی نقل کی جارہی ہے جس کے بارے میں ایسا گیا تھا کہ وہاں 19 سالہ لڑکی کی باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات قائم تھے۔ وہاں بھی تفتیش کی آدھی رات کے دوران زبردست آخری رسومات انجام دی گئی اور دہلی میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ وہاں بھی پولیس نے ملزمین کی طرف داری کی دہلی میں بھی پولیس نے متاثرہ لڑکی اور اس کے والدین کے وقار کو ٹھیس پہنچایا۔ چونکہ دہلی پولیس راست وزیر داخلہ امیت شاہ کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کے باوجود امیت شاہ کیوں خاموش ہیں۔ ہم نے ان کی زبان سے متوفی لڑکی اور اس کے غم زدہ ارکان خاندان کیلئے ہمدردی کے دو الفاظ نہیں سنے ؟کیا ہم نے لڑکی کی زبردست آخری رسومات انجام دیئے جانے کی مذمت میں امیت شاہ کے دو الفاظ سنے ہیں؟ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر متاثرہ کے والدین کو ہراساں کرنے اور حراست میں لینے والے پولیس عہدیداروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، کیا یہ دوغلا یا دوہرا پن نہیں ہے؟ جس کے خلاف عوام احتجاج کررہے ہیں اور دوسری طرف متوفی لڑکی کی ماں انصاف کی منتظر ہے۔