دہلی2020فسادات۔ عدالت نے نو مسلمان مردوں کو 7سال قید کی سزا سنائی

,

   

سزا میں سنانے میں نرم رویہ اختیار کرنے او راصلاح کا حوالہ دینے والے وکیل دفاع کی بات کونوٹ کرتے وہئے مذکورہ جج نے کہاکہ کیس میں جرم کے نتیجے پر سنائی جانے والی سزا میں اصلاحی نظریہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔


نئی دہلی۔ یہاں کی ایک عدالت نے 2020شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں قصور وار ٹہرائے گئے دو افراد کو یہ مشاہدہ کرتے ہوئے سات سال قید کی سزا سنائی ہے‘کہ فرقہ وارنہ فسادات ایک ایسا خطرہ ہے جو شہریوں کے درمیان بھائی چارے کے احساس کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہاکہ مجرموں کا کاروائیوں نے سماجی تانے بانے‘ معیشت او رملک کے استحکام پر گہرا داغ چھوڑا‘ اسکے علاوہ لوگوں میں عدم تحفظ کااحساس پیداکیااور معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم اہنگی کو خطرہ لاحق ہوا۔ایڈیشنل سیشنس جج پولاستیا پرام چالایا نے یہ حکم جاری کیا کہ محمد شہنواز‘ محمد شعیب‘ شاہ رخ‘ راشد‘ آزاد‘ اشرف علی‘ پرویز‘ محمد فیصل اور راشدسزادی گئی ہے۔

عدالت نے 13مارچ کو دوملزمین کومجرم قراردیتے ہوئے کہاتھا کہ استغاثہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات معقول شک سے بالا تر ثابت ہوتے ہیں۔جج نے کہاکہ ”تمام مجرموں کوائی پی سی کی دفعہ 436کے تحت قابل سزا جرم کے لئے سات سال کی قید کی سزا بھگتنی ہوگی۔

اور ہر مجرم کو 20,000روپئے کاجرمانہ ادا کرنا ہوگا“۔اے ایس جے یہ بھی کہاکہ جرمانے کی وصولی سے 1.5لاکھ روپئے شکایت کنندہ یامتاثرہ کو معاوضے کے طور پر ادا کئے جائیں گے اورجرمانے کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں ہر مجرم کوچھ ماہ کی سادہ قید کی سزا دی جائے گی۔

مذکورہ جج نے کہاکہ ”فرقہ وارانہ فسادات وہ خطرہ ہے‘ جو ہمارے ملک کے شہریوں میں بھائی چارے کے احساس کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔

فرقہ وارانہ فسادات کو عوامی انتشار کی سب سے پرتشدد شکلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو معاشرے کو متاثرکرتا ہے اور اس سے نہ صرف جان ومال کا نقصان ہوتا ہے بلکہ سماجی تانے بانے کو بھی نقصان ہوتا ہے“۔

انہو ں نے کہاکہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران بے گناہ او رعام لوگ ان کے قابو سے باہر کے حالات کے حالات میں پھنس جاتے ہیں جسکی وجہہ سے موجودہ کیس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے‘ مجرموں کو فرقہ وارانہ فسادات میں جہاں علاقائی حدود ایکٹ ہوتاکا ارتکاب کیاگیاہے کہ میں ملوث کیاجاتا ہے جس نے اندراو رباہر کے لوگوں کو متاثر کیاہے۔

جج نے کہاکہ ”اس طرح‘ اس معاملے‘مجرموں کے ذریعہ کیے گئے جرم کا اثر شکایت کنندہ کوپہنچنے والے نقصان تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ ان کاروائیوں نے ہماری قوم کے سماجی تانے بانے‘ معیشت او راستحکام پر گہرا داغ چھوڑا ہے او رمبینہ کاروائیوں نے معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے لوگوں میں عدم تحفظ کااحساس پیدا کیاہے“۔

سزا میں سنانے میں نرم رویہ اختیار کرنے او راصلاح کا حوالہ دینے والے وکیل دفاع کی بات کونوٹ کرتے وہئے مذکورہ جج نے کہاکہ کیس میں جرم کے نتیجے پر سنائی جانے والی سزا میں اصلاحی نظریہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔