دینی مدارس پر ہیمنتا بسوا شرما کا بیان

   

جواں حیات کے ان نوجوان ارادوں کو
بدل سکے تُو کبھی ترے بس کی بات نہیں
بی جے پی کے قائدین ایسا لگتا ہے کہ پاری اور عوام میںاپنی برتری کو یقینی بنانے کے جنون میں پاگل ہونے لگے ہیں۔ پارٹی قائدین کی جانب سے وقفہ وقفہ سے انتہائی اشتعال انگیز اور متنازعہ بیان بازیاں عام ہوگئی ہیں۔ اسے روز کا معمول بھی بنالیا گیا ہے ۔ کہیںسے کوئی لیڈر اٹھتا ہے اور کوئی بیان جاری کردیتا ہے ۔ کبھی مسلمانوںکونشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی دوسری اقلیتی برادریوں کے حلاف زہر افشانی کی جاتی ہے ۔ کبھی مساجد اور گردواروں کو ختم کرنے کی مذموم بات کی جتی ہے تو کبھی دینی مدارس پر نشانہ لگایا جاتا ہے ۔ کبھی کسی کے کھانے پر مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے تو کبھی کسی کے لباس پر تنقید کی جاتی ہے ۔ کبھی کسی کے رہن سہن پر مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے تو کبھی کسی کی مذہبی روایات کو زہر افشانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ پارٹی کے ویسے تو بیشتر قائدین ہیں جو اس طرح کی اشتعال انگیزیاں کرتے ہیں لیکن چنندہ قائدین ایسے ہیں جووقفہ وقفہ سے عوامی توجہ حاصل کرنے اور سرخیوں میں رہنے کیلئے اس طرح کی بیان بازیاں مسلسل کرتے ہیں اور زہر اگلتے ہوئے اپنی بیمار اور جنونی سوچ کو آشکار کردیتے ہیں۔ ان قائدین میں آسام کے چیف منسٹر ہیمنتا بسوا شرما زیادہ شہرت پانے لگے ہیں۔ ہیمنتا بسوا شرما ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستی کا زہر اگلنے میں چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ کو بھی پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی حکومت اورکارکردگی سے عوامی توجہ ہٹانے کیلئے شائد اس طرح کی بیان بازیاں کرتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میںسماج میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تاہم چیف منسٹر آسام اس کی پرواہ نہیں کرتے ۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ بی جے پی کی اعلی قیادت اور اس کے مرکزی قائدین کی جانب سے بھی چیف منسٹر آسام کی سرزنش نہیں کی جاتی بلکہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے اور ن پر کی جانے والی تنقیدوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس طرح بی جے پی راست یا بالواسطہ طور پر ان کی شر انگیزیوں کی حمایت کرتی ہے اور چیف منسٹر آسام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اس طرح کی زہر افشانی کا سلسلہ برقرار رکھیں۔ چیف منسٹر آسام مسلسل دینی مدارس کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کی ریاست میں کئی مدارس کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے اور اب وہ دیگر ریاستوں کے مدارس پر بھی زہر افشانی کر رہے ہیں۔
ہیمنتا بسوا شرما نے سرکاری امداد سے چلنے والے دینی مدارس کو بند کردینے کی بات کہی ہے ۔ یہ چیف منسٹر آسام کی بیمار ذہنیت کی عکاسی ہے ۔ وہ ایک مخصوص فرقہ اور ان کے مدارس کو مسلسل نشانہ بناتے ہوئے اپنی جنونی کیفیت کا بار بار اظہار کر رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کی اعلی قیادت ان پر لگام کسنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ چیف منسٹر آسام کے اس طرح کے بیانات کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ وہ ایک ذمہ دار عہدہ پر فائز کردئے گئے ہیں۔ وہ ریاست کے سربراہ ہیں اور انہیں اس طرح کی بیان بازیوں سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ اس کیلئے تیار نہیں ہیں۔ چیف منسٹر کو اپنی سوچ اور زبان پر لگام لگانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان ایک دستوری اور جمہوری ملک ہے ۔ اس ملک کے دستور اور قانون نے ہر مذہب کے ماننے والوںکو مساوی حقوق اور اختیارات دئے ہیں۔ ہر شہری کیلئے اس کی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض بھی ہیں۔ قانون اور دستور کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر شخص اپنے مذہب پر نہ صرف عمل کرسکتا ہے بلکہ اس کی تبلیغ بھی کرسکتا ہے ۔ یہ حق کسی سیاسی پارٹی یا حکومت کا دیا ہوا نہیں ہے ۔ اس ملک کے دستور میں یہ گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ ریاست کے چیف منسٹر رہتے ہوئے اس طرح کے دستوری حقوق کی پامالی کی وکالت کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے ۔ زیادہ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ وہ مسلسل اس طرح کی شر انگیزی کرتے جا رہے ہیں۔ ان کے خلاف قانونی طورپر بھی کارروائی کی جانی چاہئے اور سیاسی طور پر بھی بی جے پی کو ان کو قابو میں کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔
بی جے پی کے کئی قائدین اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ چند دن قبل مدھیہ پردیش میں ایک بی جے پی لیڈر نے مساجد اور گردواروں کو ناسور قرار دینے کی قابل مذمت حرکت کی ہے ۔ اقلیتی برادریوں کے مذہبی مقامات اور ان کی درسگاہوں کے تعلق سے سماج میں زہر پھیلانا کوئی خدمت نہیں بلکہ یہ سماج اور ملک کی بدخدمتی ہے ۔ دینی مدارس کی اہمیت ہندوستان کی جنگ آزادی سے رہی ہے ۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ان مدارس کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور خاص طور پر ذمہ دار عہدوں پر فائز افراد کو اپنی منفی اور بیمار سوچ ترک کرتے ہوئے مثبت انداز میں سوچنے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ سماج میں نفرت کو فروغ دینے اور دو برادریوں اور طبقات کے مابین منافرت پھیلانے کی کوششوں کی کسی کو بھی اجازت نہیںدی جاسکتی چاہے وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو۔
ٹکنالوجی ‘ بیجا استعمال پر روک ضروری
دنیا تیز رفتار سے ترقی کرتی جا رہی ہے ۔ ٹکنالوجی کے شعبہ میں خاص طور پر ترقی اور نت نئی اختراع کی رفتار خاص طور پر زیادہ تیز ہے ۔ اس کی وجہ سے دنیا میں بڑی تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں۔ ٹکنالوجی کے استعمال سے جہاں مثبت اور تعمیری پہلو سامنے آرہے ہیں وہیں اس کے منفی استعمال اور تخریبی پہلو بھی دنیا کے سامنے رونما ہور ہے ہیں۔ آج ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے اس دور میں کچھ گوشوں کی جانب سے منفی اور غلط استعمال عام ہونے لگے ہیں۔ اس ٹکنالوجی کے منفی استعمال کے ذریعہ دوسروںکو نشانہ بنانا یا پھر ان کے فرضی ویڈیو بنانا یا ان کی شبیہہ اور شناخت کو متاثر کردینا عام ہونے لگا ہے ۔ سماج میں شہرت اور مقام رکھنے والی شخصیتوں کے ویڈیوز بنائے جا رہے ہیں اور ان کی شبیہہ بگاڑی جا رہی ہے ۔ مصنوعی ذہانت یا پھر آرٹیفیشل انٹلی جنس کے ذریعہ بھی جہاں سماج اور عوام کی بہتری کیلئے مثبت اور اچھے کام کئے جاسکتے ہیں وہیں اس کا منفی استعمال بھی زیادہ ہونے لگا ہے اور اس کے ذریعہ سماج میں بے چینی کی کیفیت بھی پیدا ہونے لگی ہے ۔ ٹکنالوجی کی ترقی ہر ملک اورہر قوم کی ضرورت ہے ۔ دنیا جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے اس میںٹکنالوجی کا بڑا دخل ہے لیکن اس کے بیجا استعمال کے تعلق سے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس تعلق سے جہاں درکار قانونی پہلووں کا جائزہ لیا جانا چاہئے وہیں سماجی سطح پر شعور بیداری بھی ضروری ہے ۔ صرف ترقی کے نام پر ٹکنالوجی اور نت نئی اختراعات کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اور مثبت پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر کسی طرح کی روک اور حد لگانے کے تعلق سے بھی غور ہونا چاہئے ۔ ٹکنالوجی کن ہاتھوں میں زیادہ محفوظ ہوسکتی ہے اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ ہر شئے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور مثبت پہلووں کو اختیار کرکے منفی پہلووں سے بچنا اہمیت کا حامل ہوگا ۔