ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری

   


ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کہیں مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے بستے ہیں۔ کئی مذاہب ایسے ہیں جن میں کئی ذاتیں بھی ہیں اور ان کے اپنے الگ الگ ریتی رواج ہیں ۔ لوگ اپنے اپنے انداز میں اپنے مذہب کو اختیار کرتے ہیں اور ہر مذہب و ذات پات کے طریقہ کار اور روایات مختلف ہیں۔ خاص طور پر پسماندہ طبقات میں کئی ذات پات سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں اور ہر کوئی اپنی الگ شناخت بھی رکھتے ہیں۔ کئی ریاستوں میں ذات پات کے اعداد و شمار اہمیت کے حامل ہیں اور ان سے انتخابی نتائج پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ اسی وجہ سے کئی ذات پات سے تعلق رکھنے والے افراد کا یہ مسلسل اصرار تھا کہ ذات پات کی بنیاد پر بھی مردم شماری کی جائے تاکہ سبھی ذات پات والوں سے انصاف ہوسکے ۔ انہیں سماجی سطح پر برابر کا مقام مل سکے ۔ تعلیم اور روزگار کے شعبہ جات میں انہیں مناسب نمائندگی اپنی تعداد کے مطابق مل سکے ۔ مرکز اور ملک کی کئی ریاستوں میں برسر اقتدار بی جے پی کی جانب سے حالانکہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے مطالبہ کی تائید ضرور کی گئی ہے لیکن اس مردم شماری کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی کوئی پہل کی گئی ہے ۔ بہار تاہم ملک کی اب ایسی پہلی ریاست بن گئی ہے جہاں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا عمل شروع کردیا گیا ہے ۔ بہار میں اس پہل کو ایک تاریخی قدم قرار دیا جا رہا ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ سماج کے پچھڑے اور پسماندہ طبقات کیلئے فلاح و بہبود کی اسکیمات شروع کرنے کیلئے اس مردم شماری سے سائنٹفک ڈاٹا دستیاب رہے گا اور حکومتیں اس کے مطابق اپنی پالیسیوں اور پروگرامس کو قطعیت دے سکتی ہیں۔ بہار میں جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اور کانگریس کی مخلوط حکومت ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو کا کہنا ہے کہ مہا گٹھ بندھن میں شامل تمام ہی جماعتیں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی حامی تھیں تاہم چند ماہ قبل تک ریاست میں جے ڈی یو کے ساتھ برسر اقتدار بی جے پی کو اس عمل پر اعتراض تھا اسی وجہ سیہ عمل شروع نہیں ہوسکا تھا ۔
ملک کی مختلف ریاستوں اور خاص طور پر ہندی بولنے والی ریاستوں میں پسماندہ طبقات کو کافی اہمیت حاصل ہے ۔ تمام جماعتیں ان سے ہمدردی کا دعوی کرتی ہیں اور ان کے کاز کی چمپئن بننے کی بات کرتی ہیں ۔ تاہم عملی طور پر اقدامات کی جب بات آتی ہے تو یہ جماعتیں اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں پس و پیش کا شکار ہوجاتی ہیں اور نت نئے بہانے اختیار کئے جاتے ہیں۔ بی جے پی آج مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں اقتدار پر ہے ۔ وہ ملک بھر میں جہاں کہیں انتخابات ہوتے ہیں پسماندہ طبقات کیلئے کئی اقدامات کرنے کے دعوے کرتی ہیں۔ انہیں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ انہیں انتخابی فائدہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن کبھی بھی ان کے جائز مطالبات کی تکمیل کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ بی جے پی کو اعلی ذات والوں کی جماعت بھی کہا جاتا رہا ہے ۔ بی جے پی اس امیج کو بدلنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے لیکن اس نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ پسماندہ طبقات کی بہتری کیلئے اقدامات پر توجہ نہیں کی ۔ صرف دکھاوے کے اقدامات کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کے اقدامات کئے گئے ہیں۔ انتخابات میں کچھ اہمیت ضرور دی گئی اور انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد انہیں پھر سے نظر انداز کردیا گیا ۔ ایسے ایک سے زائد مواقع پر ہوا ہے لیکن پارٹی نے اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے اور نہ ہی جن ریاستوں میں اس کی اپنی حکومتیں ہیں وہاں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں۔
بہار میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی و کانگریس کے اشتراک والی جو مخلوط حکومت ہے اس نے اس سلسلہ میں پہل کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کیلئے مثال قائم کردی ہے ۔ حالانکہ بہار میں نتیش کمار چیف منسٹر ہیں لیکن اس مسئلہ پر ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو زیادہ سرگرم دکھائے دئے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ہی پسماندہ طبقات کے اس مطالبہ کی تائید و حمایت کی تھی ۔ انہوں نے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے ریاست میں مردم شماری ذات پات کی بنیاد پر کروانے کے عمل کا آغاز کروادیا ہے ۔ اس سے دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے پسماندہ طبقات کی جانب سے اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ میں اضافہ ہوگا کہ وہ بھی اسی طرح مردم شماری کو یقینی بنائیں۔ اگر اس طرح کی مردم شماری ہوتی ہے تو اس کے تحفظات کے ڈھانچے پر بھی اثرات مرتب ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا۔مختلف طبقات کی وابستگی
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اب اپنے اختتامی مرحلہ میں پہونچ رہی ہے ۔ یاترا دہلی سے اترپردیش کے بعد دوبارہ ہریانہ میں داخل ہوگئی ہے ۔ یہ یاترا ٹاملناڈو میں کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی اور کشمیر میں اختتام کو پہونچے گی ۔ اس یاترا میں سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتوں کی شمولیت اس یاترا کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے ۔ یاترا میں اب تک آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن ‘ را کے سابق سربراہ اے ایس دولت ‘ فلمی ستاروں پوجا بھٹ ‘ سوارا بھاسکر ‘ کامیڈین کنال کامرا کے علاوہ کئی اہم شخصیتیں شامل ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن بھی یاترا کا حصہ رہے ہیں۔ آج ہریانہ سے تعلق رکھنے والے باکسر وجیندر سنگھ بھی اس یاترا میں شامل ہوئے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ نفرت کے خلاف اس یاترا میں شامل ہوئے ہیں۔ اب تک یہ یاترا جن ریاستںو سے گذری ہے ان میں کئی اہم شخصیتوں اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد اس یاترا کاحصہ بنے ہیں۔ ان تمام کی شمولیت سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں محبت کو فروغ دینے کے خواہشمند کئی گوشے ہیں اور ضرورت ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔