ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے، مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو…

   

محمد مبشر الدین خرم
ملک کادستور کسی ایک مذہب‘ طبقہ یا ذات و جنس کے ماننے والوں کا نہیں ہے بلکہ ہندستان کا دستور ہر اس ہندستانی کا ہے جو اس عظیم ملک کا شہری ہے اور اس دستور کی حفاظت ہر ہندستانی شہری کی ذمہ داری ہے اور جو کوئی اس دستور میں ایسی ترمیم کرنے کی کوشش کرے جو دستور کی روح کے منافی ہو اس کی مخالفت اور اسے ملک دشمن تصور کرنا ہر ہندستانی شہری کے لئے لازمی ہے کیونکہ ملک کا دستور بڑی قربانیوں کے بعد تیار کیا گیا ہے اور ان قربانیوں کو فراموش کرنا دراصل اپنے اسلاف کے عمل سے انحراف کے مترادف ہے۔حکومت ہند ایوان میں اپنی عددی طاقت کی بنیاد پر کسی ایسے قانون کو منظور تو کرواسکتی ہے جو دستور سے چھیڑ چھاڑ کا موجب ہو لیکن اس پر عمل کروانا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اسی دستور نے ہر ہندستانی شہری کو احتجاج کا جو حق فراہم کیا ہے اسی حق کی بنیاد پر ہر شہری اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے ملک کے مقتدر طبقہ کو ہلا کر رکھ سکتے ہیں اور اس بات کیلئے مجبور بھی کیا جاسکتا ہے اور حکومت کو بھی اسی دستور نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ عوامی احتجاج کی بنیاد پر ایسی قانون سازی سے دستبرداری اختیار کرے جس سے عوام ناراض ہوں۔ دستور تیار کرنے والوں نے دستور کی تمہید میں کسی قسم کی ترمیم کی گنجائش فراہم نہیں کی ہے اگر کی ہوتی تو شائد باضابطہ تمہید کو ہی تبدیل کرنے کے اقدامات کئے جاتے لیکن ایسی گنجائش نہیں ہے اور قانون ترمیم شہریت کے خلاف عدالت میں داخل کی جانے والی بیشتر تمام درخواستوں میں اسی بات پر توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ حکومت کا یہ قانون دستور کے مواقف نہیں ہے بلکہ اس قانون سے دستور میں فراہم کئے گئے کئی اختیارات متاثر ہورہے ہیں۔
فاشسٹ حکمراں طبقہ نے ہندستانی عوام کو ایسے مرحلہ پر لاکھڑا کیا تھا کہ ان کی فکروں وک ماعوف کردیا گیا تھا اور شہریوں کی جانب سے حالات کو سمجھتے اور جانتے ہوئے بھی کچھ کہا نہیں جا رہا تھا جو کہ ملک میں موجود حکمراں طبقہ کی حوصلہ افزائی کا سبب بننے لگا تھا لیکن اب جبکہ شہریت کے مسئلہ نے ہندستانی عوام کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے تو باطل حکمرانوں کی پاؤں لڑکھڑانے لگے ہیںاور وہ ان حالات سے نکلنے کیلئے راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ملک میں قانون ترمیم شہریت کے سلسلہ میں جاری احتجاج کے دوران کی جانے والی ہنگامہ آرائی نے نہ صرف حکمراں طبقہ کو تفکرات میں مبتلاء کردیا ہے بلکہ اس عوامی احتجاج کا حصہ سیاسی جماعتیں بھی بننے لگی ہیں۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف ہندستانیوں کو اٹھ کھڑے ہونے میں تاخیر ہوئی ہے لیکن اب جب اٹھ چکے ہیں تو انہیں روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ وہ ان احتجاجیوں کو اب طاقت کے ذریعہ بھی خاموش نہیں کرواسکتی اسی لئے فوج کے سربراہ کا بھی سہارا لینے کی شرمناک حرکت کی گئی ۔
ملک کی بیشتر تمام ریاستو ںمیں جاری اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے اگر ہجومی تشدد پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت کی خاموشی کو نشانہ بناتے تو انہیں آج پولیس کے تشدد کا شکار نہ ہونا پڑتا ‘ اگر آج احتجاج میں شامل افراد شریعت میں مداخلت پر خاموش نہ رہتے تو انہیں شہریت کے لئے اس قدر چلانے کی ضرورت پیش نہ آتی‘ بابری مسجد کے معاملہ میںکی جانے والی ناانصافیوں پر اگر عوامی فورم میں آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا جاتا تو برابری کیلئے گڑگڑانے کی نوبت نہ آتی ‘ یو اے پی اے جیسے سیاہ قانون کے خلاف احتجاج کیا گیا ہوتا تو اب احتجاج کی ضرورت نہیں رہتی اور اگر کشمیر سے دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد مظلوم کشمیریوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جاتی اور ان کے رابطہ کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تو آج ملک کے دیگر علاقو ںمیں انٹرنیٹ رابطہ برقرار رہتا ۔ مگر ہندستانی عوام ان کے ذہنوں سے واقف نہیں ہیں اسی لئے ان کی طویل منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو سمجھنے میں کی گئی کوتاہی کے سبب انہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اگر اب بھی خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو کوئی انہیں تباہ ہونے سے روک نہیں پائے گا کیونکہ جس انداز میں نبض کو ٹٹولا جا رہاہے اور سیاد ہمارے اپنوں کے ہاتھوں ہی جال بچھاکر ہمارا شکار کر رہا ہے اگر اس بات کو اب نہ سمجھ پائے تو ان لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کرسکتا جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اگر خاموش رہتے ہیں تو کیا ہوگا اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ایک بولنے یا احتجاج کرنے سے کیا ہوگا!ملک میں لگی آگ کی تپش گھر تک محسوس ہورہی ہے لیکن اس کے باوجودخاموشی افسوسناک ہے۔
ملک کے دستور سے کھلواڑ کی پیش قیاسی سب سے پہلے سابق جے این یو طلبہ قائد کنہیا کمار نے کی تھی اور وہ مسلسل بولتے رہے لیکن اس کا اثر کسی پر نہیں ہوا کیونکہ ہندستانی ’’موڈیا‘‘ نے جو مہم چلا رکھی تھی وہ سنگھی ذہنیت کو ابھار رہی تھی۔ کشمیر سے دفعہ 370 کی تنسیخ ایک ظالمانہ فیصلہ تھا اور کشمیر کے عوام کے حقوق کو چھیننے کے مترادف تھا لیکن حکومت نے اسے اس انداز میں پیش کیا کہ جو اس فیصلہ کی مخالفت کرے گا وہ ملک کا غدارہوگا۔ حکومت کے اس فیصلہ پر ناراضگی کے باوجود کئی لوگ خاموش رہے بلکہ بعض چنندہ لوگوں کے ذریعہ مخالفت کرواتے ہوئے مسئلہ کوحل کرلیا گیا ۔ کشمیر سے دفعہ 370کی تنسیخ کے وقت حکومت نے دعوی کیا تھا کہ ایک ملک میں دو قانون نہیں ہوسکتے اور اب جبکہ آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستو ںمیں شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کیا جا رہاہے تو حکومت ایک ملک میں دو قانون تو کجا ایک ملک میں دو قانون تو دور ایک قانون میں دو طرح سے عمل آوری کی بات کر رہی ہے جی ہاں!شہریت ترمیم قانون کے کئی دفعات کا اطلاق شمال مشرقی ریاستوں میں نہ کرنے پر غور کیا جا رہاہے۔ اسی طرح بابری مسجد کے فیصلہ سے قبل بھی آر ایس ایس اور سنگھی تنظیموں کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ وہ فیصلہ پر جشن نہیں منائیں گے لیکن ان بیانوں کے درمیان موجود بین السطور کو پڑھنے سے شائد ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت قاصر رہی اور جب فیصلہ صادر ہوا تو امن کی دہائی دی جاتی رہی۔ اخلاق ‘ تبریز ‘ جنیداور دیگر نوجوانوں کی موت پر اختیار کردہ خاموشی کا یہ نتیجہ رہا کہ اترپردیش کے کئی اضلاع جھلس رہے ہیں اور اس قانون کے خلاف احتجاج کے دوران 27اموات واقع ہوچکی ہیں لیکن اب بھی مرکزی حکومت خاموش ہے اور کوئی ردعمل جاری نہیں کیا جارہا ہے۔
سی اے اے ‘ این پی آر اور این آر سی کے متعلق ملک بھر میں جاری احتجاج کے دوران بنگال میں چیف منسٹر ممتا بنرجی نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ ملک کی دیگر غیر بی جے پی ریاستو ںکیلئے مشعل راہ ہے اسی طرح کیرالا نے این پی آر کے کاموں پر فوری روک لگانے کے اقدامات کے ذریعہ ثابت کردیا کہ وہ جمہور کے ساتھ ہے۔ چند ماہ قبل تک فرقہ پرست تصور کئے جانے والے ادھو ٹھاکرے نے مسلم سیاستدانوں اور علماء کے وفد سے ملاقات کے ساتھ ہی اعلان کردیا کہ وہ مہاراشٹر میں ان قوانین کے نفاذ کو ہونے نہیں دیں گے ۔ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کی اقلیتوں کے مسائل پر باتیں بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن عمل کے معاملہ میں وہ کچھ سست رفتار واقع ہوئے ہیں اور یہ بات سابقہ تجربہ کی بنیاد پر کہی جاسکتی ہے کیونکہ انہوں نے نریندر مودی کی طرح ہی اب تک کسی ایک وعدہ کو بھی پورانہیں کیا ہے جبکہ ان کے وعدوں کی فہرست طویل ہے لیکن طلاق ثلاثہ کے معاملہ میں ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو حمایت کے باوجود ان سے علماء اور مسلم سیاستدانوں کی ملاقات پر ہی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں کیونکہ ان علماء اور سیاستدانوں نے ہی طلاق ثلاثہ مسئلہ کو شریعت میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس مسئلہ پر چیف منسٹر سے ملاقات نہیں کی گئی اور اب شہریت کے مسئلہ پر ملاقات کی گئی ہے۔