رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی

   

بنگال… مقابلہ دلِ ناتواں نے خوب کیا
نعشوں پر سیاست …ٹاملناڈو اور کیرالا میں مایوسی

رشید الدین
’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ بی جے پی کا یہ نعرہ 5 ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں ’’مودی کے بغیر ممکن ہے‘‘ میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مودی کا جادو جو گزشتہ 6 برسوں سے سرچڑھ کر بول رہا تھا اب سحر ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسمبلی چناؤ کے ایگزٹ پول سے ثابت ہوچکا ہے کہ ملک میں بی جے پی کی ہوا اُکھڑ رہی ہے۔ کورونا وباء کے موت کے ننگے ناچ کے درمیان عوام کی نعشوں پر اسمبلی انتخابات کرائے گئے لیکن نریندر مودی۔ امیت شاہ جوڑی کو مایوسی کے سواء کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی واپسی، کیرالا میں بائیں بازو کا زور اور ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے کو اقتدار کیلئے رائے دہندوں کے فیصلہ نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بی جے پی کو بنگال میں ممتا بنرجی کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں دلچسپی تھی اور اس کے لئے وہ سب کچھ کیا گیا جو مرکزی حکومت اور بی جے پی کے بس میں تھا۔ الیکشن کمیشن سے مل کر 8 مراحل کی رائے دہی رکھی گئی تاکہ ہر مرحلہ پر توجہ دی جاسکے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی یلغار کے باوجود بنگال میں اقتدار کا خواب ادھورا رہ چکا ہے۔ ایگزٹ پول نتائج دیکھنے کے بعد مودی ۔ امیت شاہ کی زبان پر ’’ دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے ‘‘ کا فلمی نغمہ ضرور آیا ہوگا۔ سماج میں فائدہ اور نقصان کیلئے عام طور پر نیک قدم اور منحوس قدم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ بعض افراد کے قدم کو کامیابی اور اچھائی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ بعض آئرن لیگ ہوتے ہیں جن کا کوئی بھی معاملہ درست نہیں ہوتا۔ ملک کیلئے نریندر مودی گزشتہ سات برسوں میں نیک شگون ثابت ہوئے یا پھر اس کے برعکس‘ اس بارے میں تبصرہ کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ اچھے دن کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کیا گیا تھا لیکن ہر شعبہ میں زوال اور تباہی ملک کا مقدر بن گیا۔ اب حالت یہ ہوگئی کہ کورونا وائرس نے گلی گلی، نگر نگر صف ماتم بچھادی ہے اور ہر طرف موت کا کھیل جاری ہے۔ کیا یہی اچھے دن ہیں کہ عوام کو پہلے معاشی طور پر کمزور کیا گیا اور پھر علاج سے محروم رکھتے ہوئے مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ عوام کو راحت کے بجائے زحمت و مصیبت کے سواء کچھ نہ ملا۔ ہر طرف تباہی و بربادی اور ہر شعبہ کا زوال اچھے دن کی علامت ہے۔ مودی ہے تو ممکن ہے، یہ نعرہ بھی تباہی کا ذریعہ ثابت ہوا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہے جس نے عوام کی نعشوں پر انتخابات کرائے ہوں۔ کورونا سے روزانہ سینکڑوں افراد دم توڑ رہے تھے لیکن مودی ۔ امیت شاہ کو سیاسی فائدہ کی فکر رہی۔ آکسیجن کی کمی چلتے لوگ سڑکوں پر دم توڑ رہے تھے لیکن مودی۔ امیت شاہ جوڑی انتخابی ریالیوں میں مصروف رہی۔ انہیں عوام کی زندگی اور موت سے زیادہ ممتا بنرجی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کی فکر تھی۔ ظاہر ہے کہ کورونا کی تباہی کے درمیان الیکشن کرانا صرف اور صرف مودی سے ہی ممکن تھا۔ گزشتہ سات برسوں میں ایک بھی ایسا کام نہیں جسے عوام کے حق میں کارنامہ قرار دیا جاسکے۔ حکومت جب غلطی کرے تو اسے روکنا بعض دستوری اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مودی کے دورِ حکومت میں دستوری ادارے بھی اپنی ذمہ داری نبھانے سے قاصر رہے۔ ظاہر ہے جب دستوری اداروں پر تقررات سفارش اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہونے لگیں تو پھر حکومت کے خلاف فیصلہ کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ الیکشن کمیشن اپنے آزادانہ اور خود مختار موقف کو منوانے میں بری طرح ناکام ہوگیا۔5 ریاستوں کے چناؤ کے حالات دیکھنے کے بعد کسی نے خوب کہا یہ تو الیکشن کمیشن آف انڈیا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف بی جے پی ہے۔ مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے عہدیداروں پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کی بات کہی کیونکہ کورونا تباہی کے درمیان الیکشن کراتے ہوئے عوام کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں جھونک دیا گیا۔ کورونا صورتحال کو دیکھتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ کا ردِعمل فطری ہے لیکن یہ کام سپریم کورٹ کو کرنا چاہیئے تھا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے معاملات پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا لیکن حالیہ عرصہ میں ججس کے تقررات اور ریٹائرمنٹ کے بعد ججس کو سرکاری عہدوں کا جس طرح تحفہ پیش کیا گیا اس نے عدلیہ کی غیرجانبداری اور آزادی پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ ملک میں جس طرح کورونا کی تباہی عروج پر ہے اس کے لئے الیکشن کمیشن کے ساتھ مرکزی حکومت برابر کی ذمہ دار ہے۔ عدلیہ اگر آزاد ہوتی تو نہ صرف الیکشن کمیشن کے عہدیداروں بلکہ نریندر مودی اور امیت شاہ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جاتا۔ ظاہر ہے جو افراد گجرات قتل عام کے ذمہ دار ہیں اُن سے کورونا اموات پر ہمدردی کی توقع کرنا ہی فضول ہے۔ لوگ زندہ رہیں یا موت کی آغوش میں چلے جائیں انھیں تو بس اقتدار چاہیئے۔ اُن کا نشانہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے بھلے ہی کچھ بھی تباہی ہو۔ انہیں کوئی سمجھائے کہ وباء سے زندہ بچیں گے تو اقتدار دیکھ پائیں گے اور موجودہ حالات میں کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کورونا سے محفوظ ہے۔
ایگزٹ پول کے نتائج پر یہ تحریر جب قارئین پڑھ رہے ہوں گے اُس وقت ایگزاکٹ پول ( حقیقی نتائج ) اُن کے سامنے ہوں گے۔ عام طور پر ایگزٹ اور ایگزاکٹ پول میں بہت کم فرق پایا جاتا ہے۔ ایگزٹ پول میں بنگال میں بعض نیوز چینلس کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے بھی آجکل تجزیئے اور تبصرے دباؤ کے تحت ہونے لگے ہیں۔ دولت، مفادات اور نظریات کا اہم دخل ہوچکا ہے۔ ایگزٹ پول تجزیوں میں غیرجانبداری باقی نہیں رہی۔ شفافیت ختم ہورہی ہے پھر بھی ایگزٹ پولس کی اکثریت ممتابنرجی کے حق میں ہے۔ 5 ریاستوں کے ایگزٹ پول نے فرقہ پرست طاقتوں کے زوال کی پیشن گوئی کردی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ساری طاقت جھونک دی باوجود اس کے مغربی بنگال، کیرالا اور ٹاملناڈو میں بی جے پی کے عزائم ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک میں عوام کورونا سے مررہے تھے لیکن مودی اور امیت شاہ ریالیوں میں مصروف رہے۔ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ آکسیجن ، وینٹی لیٹرس ، بستروں اور ادویات کا انتظام کس طرح کیا جائے۔ اموات کے باوجود انتخابی مہم کو جاری رکھتے ہوئے ظالم اور جابر حکمرانوں کی یاد تازہ کردی گئی جو رعایا کی تباہی پر خوش ہوتے تھے۔ انتخابی مہم کے بجائے مودی اگر انتخابی ریاستوں میں کورونا سے عوام کو بچانے کے اقدامات پر توجہ دیتے تو شاید کچھ حد تک عوامی ہمدردی حاصل ہوتی۔ گزشتہ سال مارچ میں کورونا کے آغاز کے بعد سے آج تک نریندر مودی نے جو حکومت کے سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے ایک بھی دواخانہ کا دورہ نہیں کیا۔ مریضوں کا حال چال اور علاج کی سہولتوں کے بارے میں دریافت نہیں کیا۔ گزشتہ ایک سال میں جو عوام کیلئے کورونا کا سال رہا نریندر مودی نے بہار میں 12 الیکشن ریالیوں میں شرکت کی جبکہ کیرالا میں 5 ، ٹاملناڈو 7 ، آسام 7 اور مغربی بنگال میں 18 الیکشن ریالیوں میں شرکت کی۔ کاش! مودی گجرات میں اپنے قریبی رشتہ دار کے بہتر علاج کا کم از کم انتظام کرتے تو شاید رشتہ دار کی موت واقع نہ ہوتی۔ مغربی بنگال میں سنگھ پریوار کی یلغار کے باوجود مقابلہ دلِ ناتواں نے خوب کیا کے مصداق ممتا بنرجی نے ثابت کردیا کہ وہ تنہا خاتون ہیں لیکن اُن میں رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی جیسی بہادر خواتین کا جذبہ موجود ہے جنہوں نے دشمنوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے۔ سیکولر جماعتوں نے بنگال میں ممتا کی مدد کے بجائے مخالفت میں چناؤ لڑا باوجود اس کے ممتا بنرجی نے کامیاب مزاحمت کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ مغربی بنگال کو فرقہ پرستوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ نظریات اور کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی تائید ممتا بنرجی کے ساتھ ہے۔ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے کی اقتدار میں واپسی میں راہول گاندھی کی محنت کا اہم دخل ہے۔ آسام میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار کی پیش قیاسی کی گئی لیکن راہول گاندھی نے کانگریس زیر قیادت اتحاد کے بہتر مظاہرہ کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ایگزٹ پول پر ندا فاضلی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی
دن نہیں بدلے گا تاریخ بدل جائے گی