راجیو گاندھی کی امیج بگاڑنے ’’بوفورس ‘‘اور ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کا ہوا تھا اِستعمال

   

وینکٹ پارسا
سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے ہندوستان میں معاشی، آئی ٹی اور تعلیمی انقلاب برپا کیا۔ انہوں نے اپنے مختصر سے وقت میں ہندوستان کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی، لیکن جس انداز میں اپوزیشن نے ان کے روشن مستقبل اور غیرمعمولی کیریئر کو طنز و طعنوں کا نشانہ بنایا، ان کی شبیہ کو داغ دار بنانے کی کوشش کی اور انہیں جس طرح بدنام کیا، وہ یقینا ایک المیہ سے کم نہیں تھا۔ راجیو گاندھی کو بدنام کرنے میں جہاں اپوزیشن جماعتیں بہت زیادہ سرگرم تھیں، وہیں میڈیا نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اگر دیکھا جائے تو اُس وقت اپوزیشن میں کمیونسٹ جماعتیں اور بی جے پی بھی شامل تھی، یہ لوگ انتخابی مقابلے میں راجیو گاندھی کو راست طور پر شکست دینے میں ناکام رہے تاہم ان لوگوں نے راجیو گاندھی کو بدنام کرنے کیلئے ایک خصوصی حکمت عملی کے تحت کام کیا۔ یہاں تک کہ 1989ء میں اپوزیشن کی لاکھ کوششوں کے باوجود راجیو گاندھی کی زیرقیادت کانگریس کو 197 نشستوں پر کامیابی ملی۔ اگرچہ وہ اکثریت حاصل کرنے سے قاصر رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آر ایس ایس ۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے وی پی سنگھ حکومت کی تائید کردی۔ اسی طرح اترپردیش میں ملائم سنگھ یادو نے بی جے پی کی تائید و حمایت سے حکومت بنائی۔
آنجہانی راجیو گاندھی کا یوم پیدائش 20 اگست کو آر رہا ہے۔ راجیو گاندھی بہت ہی المناک حالات میں عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے تھے۔ 31 اکتوبر 1984ء کو ان کی والدہ اندرا گاندھی کا انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کردیا گیا۔ راجیو گاندھی نے اپنی پانچ سالہ میعاد کے دوران جو مختصر سا عرصہ ہوتا ہے، ہندوستان میں ایسے کئی انقلاب برپا کئے، جو ہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنے۔ ان میں آپریشن بلیک بورڈ، مواصلاتی انقلاب، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں انقلاب اور ملک میں برپا کیا گیا کمپیوٹرس انقلاب نمایاں ہیں۔ اس انقلاب نے ملک کو ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں پہنچانے کیلئے ایک بڑی جست کا کام کیا۔ راجیو گاندھی نے پنچایت راج اور نگر پالیکا کو دستوری موقف عطا کرنے کا آئیڈیا پیش کیا اور اس کیلئے انہوں نے 63 ویں اور 64 ویں دستوری ترمیمات کو یقینی بنایا تھا، لیکن راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن اٹل بہاری واجپائی نے اسے ایوان بالا میں شکست سے دوچار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ راجیو گاندھی لوک سبھا تحلیل کرنے اور وسط مدتی انتخابات کروانے پر مجبور ہوئے۔ بعد میں وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی میعاد کے دوران 1991ء تا 1996ء پنچایت راج اور نگر پالیکا کو دستوری موقف عطا کرنے کیلئے 73 ویں اور 74 ویں دستوری ترمیمات منظور کی گئیں۔ اس کے علاوہ راجیو گاندھی نے دوررس نتائج کے حامل معاشی اصلاحات کی بنیاد ڈالی جو 21 مئی 1991ء کو ان کے المناک و بہیمانہ قتل کے بعد ثمرآور ثابت ہوئی۔ راجیو گاندھی کو انتخابی مہم کے بیچوں بیچ ٹاملناڈو کے علاقہ سری پرم بدور میں ایک خودکش دھماکہ میں قتل کیا گیا۔ ان انتخابات میں راجیو گاندھی ڈرامائی طور پر اقتدار پر واپس ہونے والے تھے۔ راجیو گاندھی ملک کی ترقی کے خواہاں تھے لیکن اپوزیشن اور میڈیا نے ان پر شدید حملے کئے اور ان کے خلاف جھوٹ کا سہارا لیا گیا اور خاص طور پر اپوزیشن اور میڈیا نے بغیر کسی بنیاد کے بوفورس مسئلہ اور مسلم خواتین ایکٹ 1986ء جیسے موضوعات پر راجیو گاندھی کو نشانہ بنایا۔ مسلم خواتین ایکٹ 1986ء دراصل راجیو گاندھی حکومت نے مدون کیا تھا اور یہ قانون شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ فیصلے کے پیش نظر بنایا گیا۔اُس قانون کے تحت شاہ بانو کو طلاق کے بعد نفقہ منظور کیا گیا۔ ان دونوں موقعوں پر اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا نے بدنیتی پر مبنی بے بنیاد اور غیرضروری مہم چلا کر راجیو گاندھی کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ بوفورس مسئلہ پر اپوزیشن اور میڈیا نے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ جہاں تک بوفورس مسئلہ کا سوال ہے، 1989ء تا 2004ء یعنی 15 برسوں تک یہ مقدمہ چلتا رہا اور 5 فروری 2004ء کو اس وقت اختتام کو پہنچا جب دہلی ہائیکورٹ کے جسٹس جے ڈی کپور نے اپنا فیصلہ سنایا۔ دہلی ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں راجیو گاندھی اور دیگر کے خلاف بوفورس معاملے میں رشوت ستانی کے تمام معاملات کو کالعدم قرار دیا جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہووٹزر بندوقوں کی خریدی میں بھی راجیو گاندھی اور دیگر کے خلاف سی بی آئی کی جانب سے رشوت ستانی کا کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ واجپائی حکومت نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کی، حالانکہ اسے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کیلئے 90 یوم کا وقت ملا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ واجپائی حکومت نے 64 کروڑ روپئے کی رشوت ستانی کے الزامات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے 250 کروڑ روپئے خرچ کردیئے جو اس کی بدترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ 1990ء میں بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی کو بوفورس معاملت کی تحقیقات کیلئے وی پی سنگھ حکومت نے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل انچارج بنایا تھا اور جیٹلی کو باضابطہ راجیو گاندھی کے خلاف ایک مقدمہ تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ وی پی سنگھ حکومت نے راجیو گاندھی کے خلاف بہترین قانونی ذہن استعمال کئے لیکن راجیو گاندھی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انتہائی بگڑپن اور حقارت آمیز انداز میں واجپائی حکومت نے چارج شیٹ میں راجیو گاندھی کا نام شامل کیا اور آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ حکومت نے یہ کام راجیو گاندھی کے 1991ء میں بہیمانہ قتل کے بعد کیا۔

بہرحال راجیو گاندھی نے ایک وزیراعظم کی حیثیت سے ملک کے مفاد میں جو بہتر تھا، وہی کیا، کیونکہ ایک وزیراعظم جب اپنے عہدہ پر فائز ہوتا ہے تو وہ دستور کے تحفظ اور حرمت کی برقراری کا عہ