راہول گاندھی کو راحت

   

کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو بالآخر سپریم کورٹ سے راحت مل گئی ہے ۔ مودی نام سے متعلق ریمارکس پر گجرات کی ایک عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا پر مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے راہول گاندھی سزا پر حکم التواء حاصل کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے تھے ۔ سپریم کورٹ نے ان کی سزاء پر حکم التواء جاری کردیا ہے ۔ اب تک سشن عدالت اور پھر ہائیکورٹ نے ان کی سزاء پر حکم التواء جاری کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے تاہم یہ حکم التواء جاری کردیا ہے اور اب راہول گاندھی کی لوک سبھا رکنیت بحال ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور وہ عدالتی فیصلے کے بعد آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بھی مقابلہ کرنے کے اہل ہوگئے ہیں۔ راہول گاندھی کو راحت در اصل صرف راہول گاندھی کو نہیں بلکہ کانگریس پارٹی اور ساری اپوزیشن جماعتوں کیلئے راحت ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ راہول گاندھی کے مسئلہ پر کافی سیاست ہوئی ہے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کے خلاف متحدہ مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی کوششوں سے بی جے پی کی الجھن اور مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور بی جے پی نے بھی این ڈی اے اتحاد کو مستحکم کرنا شروع کردیا ہے ۔ ایسے میں راہول گاندھی کی رکنیت کے بحال ہونے کی جو راہ ہموار ہوئی ہے وہ اپوزیشن کیلئے حوصلہ افزاء کہی جاسکتی ہے ۔ حالانکہ ابھی رکنیت کی بحالی کیلئے کچھ وقت درکار ہوسکتا ہے لیکن کانگریس فوری حرکت میں آگئی ہے ۔ سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے ایک گھنٹے کے اندر ہی کانگریس پارلیمانی پارٹی لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے اسپیکر لوک سبھا سے ملاقات کرتے ہوئے رکنیت بحال کرنے کی درخواست بھی پیش کردی ہے ۔ یہ ایک وقت لگنے والا عمل ہے لیکن کانگریس پارٹی چاہتی ہے کہ جب لوک سبھا میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مباحث ہوں اس وقت تک راہول گاندھی کی رکنیت بحال ہوجائے اور وہ پارلیمنٹ میں پہونچ جائیں۔ دوسرے جانب یہ اندیشے بھی ہیں کہ حکومت اس عمل کو طوالت کا شکار کرنے کی کوشش کرسکتی ہے تاکہ راہول کے داخلہ کو ممکنہ حد تک ٹالا جاسکے ۔
جس طرح سے سارے معاملے کو عدالتی اور قانونی کشاکش کا شکار کیا گیا تھا اس پر بحث کئے بغیر اس کے سیاسی پہلووں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی نے اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کی کہ اس مسئلہ کو کسی طرح الجھاتے ہوئے راہول گاندھی کو زیادہ سے زیادہ حد تک پارلیمنٹ سے دور رکھا جائے ۔ ان کو نشانہ بنانے میں حکومت نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ جس طرح سے گجرات عدالت کا فیصلہ آتے ہی راہول گاندھی کی رکنیت ختم ہوگئی تھی اسی طرح فوری ان کو گھر کے تخلیہ کی نوٹس بھی جاری کردی گئی تھی ۔راہول گاندھی نے دی گئی مہلت کے اندر گھر کا تخلیہ کردیا تھا ۔ عدالت میں مقدمہ کی جس طرح سے پیروی کی گئی تھی اورجو تبدیلیاں آئی تھیں اس پر بھی یہی عام تاثر پیدا ہوا تھا کہ حکومت نے اور بی جے پی نے راہول گاندھی کو نشانہ بنانے کیلئے انتقامی جذبہ کے تحت سارا کچھ کیا ہے ۔ تاہم راہول گاندھی نے سارے حالات کا جس طرح سے سامنا کیا تھا اور ملک کے عدالتی اور قانونی نظام پر مکمل ایقان کا اظہارکرتے ہوئے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اس نے راہول گاندھی کی امیج کو عوام کی نظروں میں مزید بہتر بنانے میں مدد کی تھی ۔ بی جے پی نے اس مسئلہ پر جس حد تک نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی اس کا فائدہ راہول گاندھی کو سیاسی طور پر حاصل ہوا تھا ۔ ان کی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ عوام میں ان کے تعلق سے ہمدردی پیدا ہوئی تھی اور بی جے پی کو اس پر عوام کی مخالفانہ رائے کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔
اب عدالتی فیصلے اور سپریم کورٹ سے راحت کے بعد کانگریس اور اپوزیشن اس مسئلہ کا اور بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ راہول گاندھی مزید شدت کے ساتھ حکومت کے خلاف سرگرم ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی انہیں صرف پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم ہونا پڑا تھا تاہم ان کی سیاسی جدوجہد جاری تھی ۔ اب اس میں مزید تیزی اور شدت پیدا ہوسکتی ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی حکومت کو گھیرنے کا ایک موقع دستیاب ہوا ہے ۔ جتنا جلد راہول گاندھی کی لوک سبھا میں واپسی ہوگی اتنی ہی کانگریس اور اپوزیشن کی جانب سے اپنی سرگرمیوں میں تیزی اور شدت پیدا ہونے کا بھی امکان ہے ۔