راہول گاندھی کی مودی حکومت پر سخت تنقید

,

   

پلوامہ حملے کے 5 سال ، نہ سماعت ہوئی، نہ امید

نئی دہلی : کانگریس پارٹی کے سابق صدر اوروائناڈ سے ممبر پارلیمنٹ راہول گاندھی نے 14 فروری 2019 کو جموں کشمیر کے پلوامہ میں ہوئے حملے کو یاد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے۔ اپنے پوسٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ پلوامہ حملے کے 5 سال، نہ کوئی سماعت، نہ کوئی امید اور بے شمار سوالات جن کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔ در اصل 2019 میں ہوئے اس حملے میں مرکزی نیم فوجی دستے کے 40 جوانوں کی موت ہو گئی تھی۔راہول گاندھی نے اپنے پوسٹ کے ساتھ ایک ویڈیو بھی شیئر کیا ہے جس میں شہید ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے درد کو پیش کیا گیا ہے۔ اس سے قبل راہول گاندھی نے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کی تھی۔اپنے خراجِ عقیدت کے پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بہادر شہیدوں کو صد صد سلام اور خراجِ عقیدت۔ہندوستان کی حفاظت کیلئے وقف ان کی اس مکمل قربانی کیلئے ملک ہمیشہ ان کا مقروض رہے گا۔واضح رہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں 14 فروری ایک افسوسناک دن کے طور پر درج ہے۔ 2019 میں اسی دن پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے سے پورا ملک لرز گیا تھا۔سنٹرل ریزرو پولیس فورس کا قافلہ سرینگر جموں ہائی وے سے گزر رہا تھا۔ پورے قافلے میں 78 گاڑیاں تھیں، جن میں 2547 جوان تھے۔ جیسے ہی یہ قافلہ پلوامہ پہنچا جیش محمد کے دہشت گردوں نے 350 کلوگرام دھماکہ خیز مادہ سے بھری ایس یو وی کار قافلے کی گاڑی سے ٹکرا دی تھی۔ اس کے بعد زوردار دھماکہ ہوا تھا جس کی چپیٹ میں آئی 2 بسوں میں سے ایک کے پرخچے اڑگئے تھے۔ اس حملے میں 40 جوان شہید ہوئے تھے۔ کشمیر میں 30 سالوں میں یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔
یہ کارروائی مئی 2022 میں سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر کی گئی۔سپریم کورٹ نے خود گجرات حکومت سے 2022 میں چھوٹ پر فیصلہ لینے کو کہا تھا۔یہ 2022 کے فیصلے کی وجہ سے تھا کہ 1992 کے استثنیٰ کے قوانین کو لاگو کیا گیا تھا۔ ریاستی حکومت نے عرضی میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی آبزرویشن کہ ریاست گجرات نے جواب دہندہ نمبر تین کے ساتھ ملی بھگت سے کام کیا، مکمل طور پر غیر منصفانہ ہے۔سپریم کورٹ نے 8 جنوری کے اپنے فیصلے میں اس مقدمے میں سزا یافتہ 11 افراد کو دی گئی استثنیٰ منسوخ کر دی تھی اور حکم دیا تھا کہ انہیں دو ہفتوں کے اندر واپس جیل بھیج دیا جائے۔2002 میں گودھرا کے واقعے کے بعد گجرات میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے وقت بلقیس بانو کی عمر 21 سال تھی۔ وہ حاملہ بھی تھی۔اس دوران کچھ لوگوں نے اس کی عصمت دری کی اور اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا۔ اس معاملے میں تمام 11 مجرموں کو گجرات حکومت نے استثنیٰ دیا تھا اور 15 اگست 2022 کو رہا کیا گیا تھا۔ بلقیس بانو کی عرضی پر سپریم کورٹ نے انہیں دوبارہ جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔