راہول گاندھی کی نااہلی، قانون عوامی نمائندگی کے منافی

   

پی ڈی ٹی اچاری
سورت کی ایک عدالت نے سابق صدر کانگریس راہول گاندھی کو ہتک عزت مقدمہ میں خاطی قررا دیتے ہوئے دو سال قید کی سزا اور پندرہ ہزار روپئے جرمانہ عائد کیا جس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے غیر معمولی تندہی بلکہ انتہائی عجلت سے کام لیتے ہوئے ان کی لوک سبھا کی رکنیت بھی ختم کردی یعنی بحیثیت ایک رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی کو نااہل بھی قرار دیا ۔ اس غیر معمولی سیاسی تبدیلی اور مودی حکومت کے اقدام پر شدید تنقید کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے جمہوریت کا یوم سیاہ قرار دیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ راہول گاندھی کو ہتک عزت مقدمہ میں سزا اور پھر پارلیمنٹ کیلئے انہیں نااہل قرار دینے کے تناظر میں راقم کو 1965 ء کے میں کلتار سنگھ بمقابلہ مختار سنگھ مقدمہ یاد آتا ہے جس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ میں ایک دلچسپ حوالہ دیا گیا تھا ۔ دراصل اس مقدمہ میں عدالت سے یہ فیصلہ کرنے کی استدعا کی گئی تھی کہ آیا ایک پمفلٹ میں لفظ ’’پنتھ‘‘ کا استعمال مذہب کے نام اپیل کے مترادف ہے یا نہیں ۔ عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ دستاویز (پمفلٹ) کو مکمل طور پر پڑھا جانا چاہئے اور اس کے مقصد اور اثر کا تعین منصفانہ ، معروضیت پر مبنی اور معقول انداز میں کیا جانا چاہئے۔ اس قسم کی دستاویزات کو پڑھتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کرنا غیر حقیقی ہوگا کہ جب انتخابی جلسے ہوتے ہیں اور اپیلیں کی جاتی ہیں ۔ مخالف جماعتوں کے امیدوار ایک دوسرے پر الزامات کی پوچھاڑ کردیتے ہیں اور ماحول عام طور پر متعصبانہ جذبات اور جذبات سے بھرا رہتا ہے ۔ امیدواروں کی جانب سے مبالغہ آرائی سے کام لینا یا مبالغہ آمیز زبان کا استعمال یا استعاروں کو اپنانا اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے اور مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کرنا یہ سب سیاسی کھیل اور انتخابی مہم کا حصہ ہیں چنانچہ جب انتخابی مہم یا انتخابی ماحول میں کی جانے والی تقاریر پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور ایک جوڈیشل چیمبر کے سرد ماحول میں اس پر استدلال پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے کچھ الاؤنس ضرور دیا جانا چاہئے اور الزام تراشی پر مبنی تقاریر کو ایسی روشنی میں سمجھا جانا چاہئے ۔ مندرجہ بالا حوالہ ایک بہت ہی قابل قبول اصول پر مشتمل ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ سیاستداں انتخابی جلسوں اور ریالیوں وغیرہ جیسے سیاسی ماحول میں جس طرح کی زبان جس طرح کا لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں، اسے تھوڑی سی سمجھ اور حقیقت پسندی کے جذبہ کے ساتھ ہونا چاہئے ۔ اب یہ ہندوستان کی عدالتوں پر منحصر ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) سے آنے والے سمجھدار مشورے پر توجہ دیں۔ جہاں تک راہول گاندھی کے کیس کا سوال ہے ، اس میں بھی یہ غور کرنا چاہئے تھا کہ آیا راہول گاندھی نے ایک خاص کنیت “Surname” کا اپنی تقریر میں استعمال کیا ۔ اس کا مقصد اس کنیت کے حامل لوگوں کی کمیونٹی کو بدنام کرنا تھا یا بغیر کسی بدتمیزی کے انہوں نے اپنی تقریر میں ایک مخصوص کنیت Surname استعمال کیا تھا یا پھر آیا وہ بات بنا کسی بدنیتی یا غلط نیت و ارادہ سے کہی گئی تھی یا وہ ایک معصومانہ تبصرہ تھا جس کا مقصد تھوڑا سا ہنسنا اور ینسانا تھا لیکن افسوس گجرات سورت کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کا راہول گاندھی جیسے ملک کے صف اول کے لیڈر کو دو سال قید کی سزا سنانے کے حکم کی ماضی میں نظر نہیں ملتی اورایک طرح سے یہ حکم سپریم کورٹ کے بیان کردہ اصول کی نفی ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ تعزیرات ہند میں ہتک عزت جرم کی جو سزا تحریر کی گئی وہ زیادہ سے زیادہ دو سال قید ہے اور حسُن اتفاق سے یہ سزا کی کم از کم مدت ہے جو قانون عوامی نمائندگی 1951 ء کے تحت نااہلی کو راغب کرتی ہے ۔ بہرحال چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کے حکم نے کچھ اہم آئینی اور قانونی مسائل کو جنم دیا ہے ۔ قانون عوامی نمائندگی 1951 ء کے سیکشن (3) 8 کے تحت کسی جرم کا مرتکب اور کم از کم دو سال سزائے قید پانے والے شخص کو سزا کی تاریخ سے نااہل قرار دیا جائے گا اور اس کے بعد مزید 6 سال کی مدت کیلئے وہ نااہل رہے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نااہلی کی مدت کے دوران اسے انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے سے بھی روک دیا جائے گا ۔ تاہم سیکشن (4) 8 میں مقننہ کے موجودہ ارکان کے حق میں ایک استثنیٰ دیا گیا تھا جس کے تحت اس حکم کی تاریخ سے تین ماہ کے بعد تک نااہلی کا حکم نافذ نہیں ہوگا ۔ اگر ان تین ماہ کے دوران اس نے اپیل دائر کی تو نااہلی کا حکم اس وقت تک التواء میں رکھا جائے گا جب تک اپیل خارج نہیں ہوجاتی۔ اس تین ماہ کے مقدمہ کو سپریم کورٹ نے 2013 میں للی تھامس بمقابلہ یونین آف انڈیا میں غیر آئینی قرار دے کر بند کردیا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی کسی رکن کو دو سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے ، اس کی نااہلی نافذ ہوجاتی ہے ۔ جب وہ رکن عدالت مراقعہ سے سزا اور سزا کا التواء حاصل کرلیتا ہے تو نااہلی ختم ہوجاتی ہے لیکن جو ایک مشکل قانونی سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا وہ مجرم ٹھہرائے جانے اور سزا سنائے جانے کے بعد رکنیت سے دستبردار ہوجاتا ہے ۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کیلئے ہمیں للی تھامس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ سے باہر ہوکر سوچنا پڑسکتا ہے ۔ آئین کی دفعہ 103 کہتا ہے کہ اگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقننہ کا کوئی موجودہ رکن نااہلی کا شکار ہوگیا ہے تو سوال صدر کے پاس روانہ کردیا جائے گا جس کا فیصلہ قطعی اور حتمی ہوگا لیکن اپنا فیصلہ صادر کرنے سے پہلے صدر اس سوال کو الیکشن کمیشن کو بھیجے گا اور کمیشن کی رائے کے مطابق کام کرے گا ۔ دفعہ 102 کے مطابق کئی طریقوں سے نااہلی پیدا ہوسکتی ہے ۔ دفعہ 102 کے تحت نااہلی کی ایک وجہ کسی بھی جرم کی سزا اور دو سال یا اس سے زیادہ قید کی سزا ہے۔ ایسے میں راہول گاندھی کی نااہلی کے سوال کا فیصلہ دفعہ 103 کے مطابق صدر کو مزید کارروائی کرنے سے پہلے کرنا چاہئے ۔ باالفاظ دیگر نااہلی دفعہ 103 کے تحت صدر کے فیصلہ کے بعد ہی نافذ ہوسکتی ہے ۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک اور فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ نااہلی کے نفاذ سے پہلے صدارتی فیصلہ ضروری ہے اور دفعہ (3) 101 کے تحت ایوان کی نشست خالی قرار دی جاتی ہے ۔ عدالت کا کہنا ہے کہ آرٹیکل (3) 101 (a) میں زیر غورآسامیاں تبھی پیدا ہوں گی جب دفعہ (1) 103 کے تحت صدر کی طرف سے نااہلی کا فیصلہ اور اعلان کیا جائے گا (کنزیومر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سوسائٹی بمقابلہ یونین آف انڈیا 2009 مقدمہ) یہ فیصلہ تین ججس کی بنچ نے دیا تھا جبکہ للی تھامس کیس کا فیصلہ دو ججس کی بنچ نے سنایا تھا ۔ لہذا آرٹیکل 103 کے تحت مقننہ کے موجودہ رکن کی خود بخود نااہلی نہیں ہوسکتی ۔ قانون عوامی نمائندگی 1951 کے سیکشن (3) 8 خود کار نااہلی کا بندوبست نہیں کرتا ہے۔ اس میں ’’نااہل ہوجائے گا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، نہ کہ ’’نااہل ثابت ہوں گے‘’ لیکن لوک سبھا سکریٹریٹ نے اب ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ راہول گاندھی کو نااہل قرار دیا گیا ہے جو بظاہر قانون عوامی نمائندگی کے سیکشن (3) 8 سے متصادم ہے ۔ ااہلی کا فوری اثر یہ ہوگا کہ لوک سبھا سکریٹریٹ کی جانب سے یہ اعلان ہوگا کہ یہ نشست خالی ہوگئی ہے ۔ ایسا شائد لکشادیپ کے موجودہ رکن پارلیمنٹ کے معاملہ میں کیا گیا تھا لیکن کنزیومر ایجوکیشن سوسائٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق یہ اعلان صدر کی جانب سے نااہلی کے سوال پر اپنے فیصلہ کا اعلان کرنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ بے شمار جمہوری ملکوں میں مجرمانہ جرم کے طور پر ہتک عزت کو ختم کیا جارہا ہے ۔ برطانیہ ، امریکہ یا سری لنکا میں اب یہ جرم نہیں رہا۔ (مضمون نگار لوک سبھا کے سابق سکریٹری جنرل ہیں)