رسول اﷲ کے ادب و احترام و محبت کے تقاضے

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
اﷲ تعالیٰ کا پہلا بڑا احسان ہم پر یہ ہے کہ اُس نے ہمیں اپنی مخلوقات میں انسان بنایا پھر اﷲ نے دوسرا بڑا احسان یہ کیا کہ ہمیں اُمتِ محمدیؐ میں پیدا کیا ۔ بقول نور آمنہ نورؔ کے ؎
آؤ آؤ چلیں مسجد نبویؐ کے صحن
دیکھو دیکھو صحابہؓ ہیں ذکر میں مگن
رب نے احسان کیا، دے کے اپنا حبیبؐ
جس سے ہدایت ہوئی، ہوگئے خدا کے قریب
رسول اﷲ کے ادب و احترام و محبت کے تین تقاضے ہیں ۔ (۱) ذاتِ محمدیؐ سے دل و جان سے محبت اور آپ ﷺ کے معجزات اور عظمت کا احترام ۔ جس کے بغیر نہ تو آپؐ کے قول سے لگاؤ ہوگا اور نہ سنتوں کی پیروی ۔ یاد رکھئے صحابہ کرام جب بھی حضورؐ سے مخاطب ہوتے تو یوں ہوتے : ’’یا رسول اﷲ آپ پر میری جان و مال مانباپ و اولاد قربان ‘‘۔ بقول قاضی سلیم ؔ
صاحبِ قرآن آپؐ ، منزلِ عرفان آپؐ
جسم ، ہم اور جان آپ، درد ہم درمان آپؐ
(۲) آپؐ کے قول سے محبت ۔ (۳) آپؐ کے عمل سے محبت اور اُس کی پیروی : اُصول فقہ کی کتابوں میں یہ امر مسلمہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے ہر قول کی طرح آپؐ کا ہر عمل قانونی حیثیت رکھتا ہے اور شریعت بن جاتا ہے ۔ خود قرآنِ مجید بھی اس کی گواہی دیتا ہے ۔ ۱۔ جو کچھ رسولؐ دیں ، لے لو ، اور جس بات سے روکیں، رُک جاؤ (سورۃ الحشر) ۲۔ تمہارے لئے رسول ؐ میں بہترین نمونہ ہے (سورۃ الاحزاب) ۔ اگر ان تینوں تقاضوں کو پیمانہ بنایا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اُمتِ محمدیؐ تین طبقوں میں بٹی ہوئی ہے ۔
(۱) پہلا طبقہ : وہ جو اﷲ اور اُس کے آخری رسول ؐ سے محبت کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے ہر ہر گوشہ میں اُن کی اتباع کرتے ہیں ، اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سنوارتے ہیں اور فلاح پاتے ہیں۔ یہ لوگ سیدھے راستے پر ہیں مگر اقلیت میں ہیں ۔ اُن کو دیکھ کر اﷲ اور اُس کے رسول یاد آتے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ خالقِ کائنات نے خاتم النبیین ، سید المرسلین ، محسنِ انسانیت ، امام الانبیاء شافع محشر ، رحمۃ للعلمین ، صاحب معراج ، معلمِ اعظم، سرورِ دوعالم سے اپنی محبت کا اظہار طرح طرح سے کیا ہے … اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ہم نے آپ کے لئے آپ کے ذکر کو بُلند کیا‘‘ (سورۃ الشراح ) ۔ بقول علامہ اقبالؔ :
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے
(۲) دوسرا طبقہ : وہ جو بلند بانگ ‘‘ عاشقِ رسولؐ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اپنا ہر عمل سنت کے خلاف کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ رسول اﷲ کی نافرمانی کرکے گناہ در گناہ کئے جاتے ہیں ۔ یہ لوگ اکثریت میں ہیں ۔ اپنے وقت کے بے تاج بادشاہ مشہور شاعر احمد فراز نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا ؎
توؐ روشنی کا پیمبرؑ تھا اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شب ظلم کی داستانوں سے
(۳) تیسرا طبقہ : وہ جو قرآن کو جانتا ہے لیکن صاحبِ قرآنؐ کا ادب و احترام ، محبت و عظمت کا اقرار اُن کے دلوں میں اتنا نہیں ہے جتنا کہ اسلام کا تقاضہ ہے ۔ احادیث کی صحت پر ہمیشہ شک و شبہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ’’رسول اﷲ بشر تھے یا نور‘‘ اور معراج النبیؐ ’’جسمانی تھی یا روحانی ‘‘ اور جب بھی رسول اﷲ کا اور آپ کی عظمت کا ذکر ہوتا ہے ، ناک بھوں چڑجاتے ہیں اور اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ رسول اﷲ کو ایک عام آدمی کے درجہ سے بلند نہ ہونے دیں ۔ توبہ ! توبہ !جاگ مسلمان، جاگ ! سونچ اور غور و فکر کرکہ کس نے تیرے بدن سے روحِ محمدؐ نکال دی ! سبنھل جا ، کہیں دیر نہ ہوجائے کہ ’’تیرے اعمال اکارت ہوجائیں اور تجھے خبر بھی نہ ہو ‘‘ (سورۃ الحجرات )
تو بھول گیا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور اور ایک روشن کتاب آئی ہے ‘‘ ( سورۃ المائدہ ) تمام مفسرین خواہ وہ حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ (تفسیر ابن عباس ) ہو یا علامہ آلوسیؒ ( روح المعانی ) ہو امام سیوطیؒ (تفسیر جلالین) ہو یا امام فخرالدین رازیؒ (تفسیر کبیر) ہو سب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہاں نور سے مراد ذاتِ سرورِ کائناتؐ ہے ۔ پھر ضروری تھا کہ نور اور کتاب کا سلسلہ جڑا ہوا ہو ۔ رسول اﷲ کی پوری زندگی قرآنی تھی ۔ دراصل قرآن متن ہے اور سیرت النبیؐ اُس کی تفسیر اس لئے حضور کو شارح علیہ السلام بھی کہا جاتا ہے ۔ رسول اﷲ کی نبوت کا مقصد یہ تھا کہ حُسنِ اخلاق کی تکمیل فرمائیں۔ انسان کو انسانیت کا احترام سکھلائیں ۔ اورنگ زیب کے بھائی دارالشکوہ نے شاہ محب اﷲ الہٰ آبادی کو لکھا ، کیا حکومت ہندو اور مسلمان میں فرق کرسکتی ہے ؟ آپ نے جواب دیا ۔ نہیں اس لئے کہ رسولِ اکرم ﷺ رحمۃ للعلمین بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ سبحان اﷲ !
تاریخ عالم میں کوئی دوسری مثال ایسی نہیں ملے گی جس میں آپؐ کی سیرت اور عمل کو اُمت نے اپنی زندگی کے ہر گوشہ میں اپنانے کی کوشش کی ۔ اس اتباع نے عشق و محبت اختیار کرلی ۔ علاہ اقبالؔ ؒ نے جواب شکوہ کو اس ارشاد پر ختم کیا ؎
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبالؔ نے حضرت بایزید بسطامیؒ کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ اُنھوں نے خربوزہ کو صرف ااس لئے نہیں کھایا ، اُنھیں معلوم نہیں تھاکہ حضورؐ نے اس پھل کو کس طرح کھایا ۔ یہی کامل تقلید کا نام ہے ۔ بقول اقبالؔ کے عشق ہے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی سرزمین رسولؐ پر جوتے پہن کر نہیں چلے ، یہ حضورؐ کے احترام و عزت کی بہترین مثال ہے ۔ امام مالکؒ جب بھی حدیث بیان کرنے کا ارادہ کرتے تو وضو کرکے مسجد کے فرش کے اگلے حصے پر بیٹھتے پھر داڑھی میں کنگھی کرتے اور پورے وقار کے ساتھ حدیث بیان کرتے ۔ یہ احادیث رسول ؐ کی تعظیم کا بے مثال نمونہ ہے ۔
بقول مضطر مجازؔ کے جدید شاعری کے چار اماموں کے ایک امام قاضی سلیمؔ نے کیا خوب التجا کی ہے ؎
’’اے شفیع محترم ہوکے نادم آج ہم ،
پھر مدینہ کی طرف آرہے ہیں ، صف بہ صف ،
یا محمدؐ مصطفیؐ ، یا حبیب کبریا، پھر کرم فرمائیے ، راستہ دکھلائیے ، یا نبیؐ خیرالانام ، یا نبیؐ اعلیٰ مقام‘‘
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ عَلى آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَسَلِّمْ