رضیہ بیگ … خراج عقیدت

   

فریدہ راج
میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ ہماری زندگی میں ایسی بہت کم شخصیتیں ہیں جن سے ہم اس قدر متاثر ہوں کہ بے اختیار دل چاہے ان کے نقش قدم پر چلنے کو ،میرا یہ بھی مشاہدہ رہا ہے کہ ہمارے قوم کی عورتوں کی اکثریت حالات کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ، دل ہی دل میں کڑھتے ہوئے خاموشی سے ایک غیر معیاری زندگی گزارتی ہیں ۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایک خاتون نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے وجود میں پنہاں اُس فولاد کو ڈھونڈ نکاتی ہیں جو اس میں اتنی ہمت پیدا کرتا ہے کہ وہ حالات کا ڈٹ کر سامنا کرے اور سب پر واضح کرے کہ اگر دل میں اُمنگ ہو اور اپنی اولاد کی زندگی کو بہتر بنانے کا جذبہ ہو تو مشکلات اور ان گنت مسائل ہماری کامیابی کے آڑے نہیں آتے بلکہ ہمارے کردار کو جلا بخشتے ہیں ۔ ہماری شخصیت کو نکھار کر ، نوک پلک سنوار کر اس طرح زمانے کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ اپنے پرائے سب ہی عش عش کر اٹھتے ہیں ۔ محترمہ رضیہ بیگ ایک ایسی ہی مثالی خاتون تھیں ۔ میں لندن میں تھی جب مجھ کو معلوم ہوا کہ وہ نہایت ہی مختصر علالت کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جاملیں ، سمجھ میں نہیں آیا کہ کس طرح ان کے خاندان کے افراد سے اپنے جذبات کا اظہار کروں پھر سوچا کیوں نا اپنے جذبات و خیالات کو قلمبند کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچاؤں شاید اس طرح مجھ کو ذہنی تسکین ملے ۔ رضیہ بیگ سے میری ملاقات صحیح معنوں میں اس وقت ہوئی جب میں اپنی کتاب Breaking Through کی رسم اجرا کیلئے مدعو کرنے ان کے گھر گئی تھی دوپہر کا وقت تھا گرمی بھی کافی تھی ۔ پرانی وضع کا گھر جس کو میں کوٹھی یا حویلی کہوں تو یقیناً مبالغہ آمیزی نہ ہوگی ۔ چوڑے دالان سے ہوتے ہوئے میں بیٹھک جا پہنچی ، کھڑکیوں اور دروازوں پر کولر کی ہوا میں لہراتے ہوئے ہلکے پردے ۔ ابھی میں اپنے اطراف رکھی خوبصورت چیزوں کو اچھی طرح دیکھ بھی نہ پائی تھی کہ ایک ملازمہ ہاتھ میں خس کا شربت لئے حاضر ہوئی اور نہایت ادب و احترام کے ساتھ پیش کیا ۔ مجھ کو یوں محسوس ہوا گویا میں گذرے وقت میں جا پہنچی ہوں ۔ اتنے میں رضیہ بیگم اپنے مخصوص اور نمایاں ادا کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی میں نے کئی دفعہ انہیں ان کے بیٹے محمد علی بیگ کے اسٹیج و تھیٹر پروگراموں میں دیکھا تھا ۔ میں ان کی سادگی کی گرویدہ تھی ۔ ریشمی ساڑی میں ملبوس ، گلے میں سچے موتیوں کی مالا اور ہونٹوں پرہلکا سا تبسم لئے وہ سب سے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کرتی ۔ لیکن آج ان کو انہی کے گھر میں ملتے ہوئے میں مسرور تھی ۔ ان کو تھوڑا بہت جاننے کا موقعہ ملا ان کے شوہر قادر علی بیگ ایک اداکار اور تھیٹر سے جڑے ہوئے تھے ۔ وہ پولو نامی اسپورٹ میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے ۔ اس سے قبل کہ رضیہ بیگم اپنی ازدواجی زندگی سے محفوظ ہوتیں ان کے شوہر تین بیٹوں کو انہیں سونپ کر اپنے قادر مطلق سے جا ملے ۔ انکی زندگی میں بھیانک سناٹا چھا گیا ۔ زندگی گویا تھم سی گئی ۔لیکن جب بیٹوں کی طرف نظر اُٹھی تو شوہر کا کہا یاد آیا وہ چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے خصوصی طو رپر بڑا بیٹا ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسٹیج و تھیٹر میں نام کمائے ۔ تھیٹر ان کی میراث تھا ، رضیہ بیگم نے اپنے بیٹے محمد علی بیگ کے ساتھ مل کر حیدرآباد میں قادر علی بیگ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی یہ وہ وقت تھا جب حیدرآباد میں تھیٹر یعنی اسٹیج پر اعلی درجہ کے ڈرامے نہیں ہوا کرتے تھے یہ ان کی سخت کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے تھیٹر کو عام لوگوں تک پہنچایا ، ہر پروگرام میں قادر علی بیگ کی تصویر رکھی ہوتی اور یقین مانئے بیٹے نے اپنا فرض نبھایا اور اپنے والد کو زندہ جاویداں کردیا ۔ قلی ، دلوں کا شہزادہ ، ساون حیات ، سپیس ، انڈر دی روک ٹری جیسے عالم شہرت یافتہ پائے تھیٹر کو عام و خاص تک پہنچایا ۔ آج میں تہہ دل سے رضیہ بیگ کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آمین