رگھو رام راجن کہتے ہیں …

   

دنیا پر صرف 5 بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری ہوگی

محمد ریاض احمد
سال 2018 گذر چکا ہے اور نئے سال کی آمد بھی ہوچکی ہے، گذرے ہوئے سال نے کئی سنگ میل طئے کئے۔ ناکامیوں و مایوسیوں اور شکستگی کا بھی اُسے سامنا کرنا پڑا لیکن ایک بات ضرور ہے کہ وقت کسی کیلئے رکتا ہے نہ رُکے گا، وقت کے سب منتظر ہوتے ہیں لیکن وقت کسی کا انتظار بھی نہیں کرتا۔ عالمی سطح پر جو حالات ہیں اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ طاقتور کمزور کا استحصال کررہا ہے۔ بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو ہضم کرتی جارہی ہیں۔ دولت کی مساویانہ تقسیم کا جو نظریہ یا تصور پایا جاتا تھا اس پر اب نئے ورلڈ آرڈر اور پچھلے برسوں کی دبیز پرتیں جم گئی ہیں۔ اب تو عالمی سطح پر ہر چیز کمرشیل ہوگئی، انسانی جذبات و احساسات ایسا لگ رہا ہے کہ رخصت ہورہے ہیں۔ اگرچہ اس کرۂ ارض پر 195 ممالک اور ان کی حکومتیں ہیں لیکن ان حکومتوں پر ٹکنالوجی اور تجارت و کاروبار سے جڑی چند ایک کمپنیاں اور صنعت کار مسلسل اثر انداز ہورہے ہیں اور مستقبل میں یہی چند کمپنیاں اور صنعت کار اور سرمایہ دار اپنی مرضی و منشاء کے مطابق دنیا کے معاملات کو چلائیں گے اور حکومتوں و عوام کو ان کے اشاروں پر ناچنا ہوگا۔ لائیومنٹ نے نئے سال 2019 کی آمد کے پیش نظر پراجکٹ سنڈیکیٹ کے تعاون و اشتراک سے ’’ 2019 ایک بڑا خلل یا بڑی شکستگی ‘‘کے زیر عنوان مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی عالمی سطح پر مشہور و معروف شخصیتوں سے مضامین یا آرٹیکل حاصل کرتے ہوئے ان کی یکم جنوری کے شمارہ میں اشاعت عمل میں لائی۔ ان 24 ممتاز اور مشہور و معروف شخصیتوں میں آر بی آئی کے سابق گورنر اور معروف ماہر اقتصادیات مسٹر رگھو رام راجن، سال 2001 میں اقتصادیات کا نوبل انعام حاصل کرنے والے جوزف ای اسٹکلیٹز، 2015 میں اقتصادیات کا نوبل انعام حاصل کرنے والے ایک اور نوبل لاریٹ اگلس ڈٹیان، انڈونیشیا کے وزیر فینانس مسٹر ملیانی اندراوتی، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گارڈن براؤن اور یوروپین کمیشن کے صدر مسٹر جین کلاڈ جکٹر شامل ہیں۔

جہاں تک مسٹر رگھو رام راجن کا سوال ہے وہ ہمارے ملک کی مرکزی بینک ریزرو بینک آف انڈیا ( آر بی آئی ) کے گورنر کی حیثیت سے 2013 تا 2016 تین برسوں تک خدمات انجام دے چکے ہیں اور فی الوقت یونیورسٹی آف شکاگو بوتھ اسکول آف بزنس میں پروفیسر فینانس کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
رگھو رام راجن نے اپنے مضمون میں یہ واضح کردیا ہے کہ مستقبل میں صرف چند بڑی بڑی کمپنیوں کی ہی ساری دنیا پر اجارہ داری رہے گی۔ ایجادات، اختراعات اور صلاحیتوں کو یہ بڑی بڑی کمپنیز اور ادارے منہ مانگی قیمت ادا کرکے خرید لیں گی۔ رگھو رام راجن اپنے تفصیلی مضمون کا آغاز اُن سوالات سے کرتے ہیں جو بقول ان کے2019 اور اس کے بعد کے یہ کلیدی سوالات ہوں گے۔ ایسے سوالات جس کا گہرائی و گیرائی سے جائزہ لینے پر عام آدمی بھی یہ بآسانی سمجھ پائے گا کہ اب دنیا میں ایک نئے ورلڈ آرڈر پر عمل آوری زور و شور سے جاری ہے اور زندگی کے ہر شعبہ بالخصوص رقمی لین دین و تجارتی سرگرمیوں پر چنندہ کمپنیوں کی اجارہ داری ہوگی۔ دنیا میں وہی ہوگا جو وہ چاہیں گی۔ یہاں تک کہ مستقبل میں حکومتوں کے بنانے بگاڑنے حکمرانوں کو اقتدار پر فائز کرنے میں بھی ان ہی کمپنیوں کی مرضی کو اہمیت حاصل رہے گی۔ ویسے بھی اس قسم کا عمل پہلے ہی سے جاری ہے لیکن ٹکنالوجی، اختراعی و تجارتی کمپنیوں کا اس میں عمل دخل نہیں ہوا کرتا تھا۔

جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ رگھو رام راجن نے اپنے مضمون کا آغاز چند سوالات سے کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :آیا مرکزی بینکس عوام کا دوبارہ اعتماد حاصل کرسکتی ہیں۔ عالمی اقتصادی استحکام برقرار رہ سکتا ہے؟ اور کیا دنیا ان حالات میں بڑے پیمانے پر ہورہے ٹکنالوجیاتی خلل سے نمٹنے کے طریقہ تلاش کرسکتی ہے؟ ۔ رگھو رام راجن اس طرح کے سوالات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہی سوالات 2019 میں اور اس کے بعد بھی کلیدی سوالات رہیں گے۔ اپنے مضمون میں رگھو رام راجن نے حالیہ عرصہ کے دوران ویومنگ میں فیڈرل بینک آف کنساس سٹی کے اہتمام کردہ سالانہ جیاکسن ہول اکنامک پالیسی سمپوزیم میں پیش کردہ ان غیر معمولی مقالہ جات اور تبصروں و خیالات کو جگہ دی جو مستقبل میں عالمی بازاروں کی بدلتی ساخت، اختراعات اور دولت کی مساویانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ موثریت اور بازار کی طاقت کے درمیان ڈسکانٹس کے بارے میں مباحث کا باعث بننے والے ہیں یا بن چکے ہیں۔

اس کانفرنس میں دنیا کی سرفہرست ٹکناجی فرمس کی بڑھتی اجارہ داری پر مباحث کئے گئے۔ موثریت اور مارکٹ پاور کے درمیان ڈسکاؤنٹ کے بارے میں بھی مباحث ہوئے ہیں یہ بھی سوالات اٹھائے گئے کہ مستقبل میں اختراعات و ایجادات اور دولت کی تقسیم کیلئے بازاروں کے ساخت کی بدلتی ہئیت کیا معنی رکھتی ہے۔جہاں تک موثریت اور مسابقت کا معاملہ ہے یہ پہلے ہی سے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ سمپوزیم میں یونیورسٹی آف میری لینڈ کے جان پالٹی وینگرنے اپنے معلوماتی مقالے کے ذریعہ یہ بتایا کہ مارکٹ میں کئی فرمس کے داخل ہونے کی شرح میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ خاص طور پر پچھلے 12 برسوں کے دوران اس میں بہت گراوٹ دیکھی گئی جبکہ یونیورسٹی آف فلوریڈا کے جے ریٹر نے یہ ثابت کیا کہ سالانہ Public Offering ( یہ دراصل عام لوگوں کیلئے کسی کمپنی یا ادارے کی جانب سے پیش کی جانے والی سیکوریٹیز ہیں ) میں بھی تیزی سے کمی درج کی جارہی ہے۔

سمپوزیم میں پڑھے گئے مقالات اور کئے گئے مباحث سے جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ جو نئی فرمس ہیں وہ بڑی فرمس کے ہاتھوں فروخت ہونے پر رضامند ہوتی جارہی ہیں یعنی بڑی فرمس نئی فرمس کا وجود برداشت ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ انہیں دولت کے بل بوتے پر خریدا جارہا ہے اور اس طرح ان کی شناخت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹائی جارہی ہے۔ نئی فرمس بھی ایک بڑی عوامی فرمس میں خود کو تبدیل کرنے کی بجائے اس طرح باآسانی بڑی فرمس کا شکار ہورہی ہیں جس طرح چھوٹی مچھلیاں بنا کسی مزاحمت کے ( انہیں مزاحمت کا موقع ہی نہیں ملتا ) بڑی مچھلیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ساتھ ہی کئی ایک صنعتوں میںEXIT RATES ، پیداواری پھیلاؤ میں اضافہ کے باوجود نسبتاً کم ہی برقرار رہا باالفاظ دیگر کمزور پیداوار کنندگان کو مارکٹ میں ناک آوٹ نہیں کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقتصادیات کے کئی شعبوں میں حرکت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ عالمی سطح پر جو چند بڑی فرمس زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی اجارہ داری قائم کررہی ہیں ان کے پراڈکٹس کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں رگھو رام راجن لکھتے ہیں کہ امریکہ میں کام کررہی چار بڑی فرمس کے پراڈکٹس کی فروخت کے حصص یا شیئرس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ آیا یوروپ میں بھی بڑی کمپنیوں یا فرمس نے صارفین کی ساری توجہ اپنی جانب ہی مبذول کروالی ہیں کیونکہ یوروپ میں سخت ANTI TRUST POLICIES پائی جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ANTI TRUST پالیسیاں اس سلسلہ میں یوروپ اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے فرق کی وضاحت کرسکتی ہیں۔ یوروپ کی بہ نسبت امریکہ میں کارپوریٹ شعبہ کا منافع بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

رگھو رام راجن نے لائیومنٹ کیلئے تحریر کردہ اپنے آرٹیکل میں مستقبل میں بڑے فرمس کے بار میں جو امکانات ظاہر کئے ہیں ان کا لب لباب یہی ہے کہ آج دنیا میں بڑی فرمس کی ٹولیاں GANGS کام کررہی ہیں اور ان تمام کا ایک ہی منصوبہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ بالخصوص معیشت پر اپنی اجارہ داری نہ صرف قائم کی جائے بلکہ پوری قوت کے ساتھ اسے برقرار رکھا جائے۔ آج دنیا میں صارفین کا ڈیٹا فروخت ہورہا ہے۔ ڈیٹا دراصل صارفین کی تفصیلات ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا بھر میں ایک کمپنی کریڈٹ کارڈس جاری کرتی ہے اور اس کے پاس ایک ارب صارفین کا ڈیٹا موجود ہے یہ ڈیٹا اس کمپنی کی بے حساب بے تحاشہ آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ کمپنی دوسری کمپنیوں اور افراد کو صارفین کا ڈیٹا فروخت کرکے دولت کماتی ہے۔ اگر کوئی کمپنی یا ادارہ تشہیر یا پرموشن کا خواہاں ہو تو وہ کسٹمر کیر سے رجوع ہوتا ہے اور پھر اُسے رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ ٹکنالوجی اور اختراعات کے اس دور میں یہی دیکھا جارہا ہے کہ جو کمپنیاں بڑی ہیں وہ مزید وسعت اختیار کرتی جارہی ہیں اور جو چھوٹی کمپنیز نئی ٹکنالوجی و اختراعات کے ساتھ مارکٹ میں آرہی ہیں انہیں پنپنے کی زحمت دیئے بنا ان کمپنیوں کو بڑی کمپنیاںخرید رہی ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہ بڑی کمپنیاں دولت کے بل بوتے پر اڈوانسڈ ٹکنالوجی ، بہترین ذہنوں اور صلاحیتوں کے حامل افراد کا قوت خرید چکی ہے اور ان کے ذریعہ ہی بازار اور دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میںکامیاب ہورہی ہیں۔ ان کمپنیوں کے پاس بے تحاشہ دولت ، غیر معمولی طاقت اور کثیر تعداد میں صارفین ہیں۔ ان بڑی کمپنیوں کے بزنس کرنے سے جو فائدہ کسٹمرس کو حاصل ہونا تھا وہ حاصل نہیں ہورہا ہے۔ ( اس سلسلہ میںیو ٹیوب کی مثال لی جاسکتی ہے۔ اس پر آنے والے اشتہار کی رقم کمپنی حاصل کرتی ہے) اس ضمن میں ایک اور مثال لی جاسکتی ہے، بی ایم ڈبلیو بناء ڈرائیور کی کار لانچ کرتی ہے اس کے لئے گوگل کامیاب حاصل کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اس طرح گوگل ایک پیسے کی سرمایہ کاری کئے بناء بی ایم ڈبلیو سے 10 فیصد منافع حاصل کرسکتی ہے۔ آثار تو یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ آٹو موبائیل شعبہ میں جو اختراعات ہورہی ہیں ایسے میں گوگل بناء کسی سرمایہ کے ایک بہت بڑی آٹو موبائیل کمپنی بن جائے گی۔ رگھو رام راجن نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ آج عالمی معیشت میں FAANGS گیانگ ( ٹولی ) کا موقف بہت مستحکم ہوگیا ہے۔ عالمی معیشت پر فانگ کا اثر مسلسل بڑھتا ہی جارہا ہے۔آپ کو بتادیں کہ رگھو رام راجن دراصلFACE BOOK، امیزان، ایپل، نیٹ فلکس اور گوگل کا حوالہ دے رہے تھے۔

اب زندگی کے ہر شعبہ میں انہیں 5کمپنیوں یعنی FAANGS کی اجارہ داری ہے۔ سرمایہ کار، تحقیق ( ریسرچ ) اور فروغ اختراعت و ایجادات ان ہی کمپنیوں کی مرہون منت ہوتی جارہی ہیں۔ انہیں ہم سپر اسٹار فرمس کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ کمپنیاں چاہتی ہیں کہ مستقبل میں کوئی ان سے مسابقت نہ کرے ۔ اس کی کئی مثالیں ہم اور آپ فارما سیوٹیکلس انڈسٹری میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس طرح کی اجارہ داری قائم کرنے والی بڑی کمپنیوں کے پراڈکٹس کے شعبہ کو اب Kill ZONE کی اصطلاح دی گئی۔ Kill Zone کے کسی شعبہ میں میںVenture Capitalists سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ اپنے مضمون میں رگھو رام راجن نے لکھا ہے کہ ایسی بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری سے متعلق 250 سال قبل ماہر اقتصادیات ادم اسمتھ نے تشویش ظاہر کی تھی۔ اگر فرمس کی تعداد کم ہوگئی تو مابقی فرمس کی اجارہ داری میں اضافہ ہوگا۔ بڑی کمپنیاں نئے آئیڈیاز کو تک خریدنے لگی ہیں۔
ان حالات میں بڑی بڑی فرمس کی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے دنیا بھر کی حکومتوں، اقتدار کے ایوانوں ، قانون سازوں وغیرہ کو ایسے سخت قوانین بنانے اور پالیسیاں مرتب کرنی چاہیئے جس سے بڑی فرمس اپنی اجارہ داری عام کرنے سے باز رہیں ورنہ دنیا چند بڑی فرمس کی غلام بن کر رہ جائے گی اور وہ انسانیت کیلئے بہت خطرناک دور ہوگا۔ اس لئے خاص طور پر قانون سازوں اور پالیسی سازوں کوخواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیئے۔
mriyaz2002@yahoo.com