رہبر ہے میرا رہزن ‘ منصف ہے میرا قاتل

   

سید اسماعیل ذبیح اللہ
فرقہ پرستی ایک ایسا زہر او رناسور ہے جو کسی بھی سماج او رقوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کاکام کرتا ہے ۔ حالانکہ فرقہ پرستی کی عمر دس یاپندرہ سال سے زیادہ کی نہیںہوتی ہے مگر ان دس یاپندرہ برسوں کی کاروائیوں کے نقوش صدیوں تک اُس سماج اور قوم میں نمایاں طو رپر دکھائی دیتے ہیںجہاں پرفرقہ پرستی کو پناہ دی گئی ہے یا پھر فرقہ پرستی کی سرپرستی کی گئی ہے۔دنیاکی بڑی بڑی جمہوریتیں فرقہ پرستی کے بڑھتے اثر کی وجہہ سے آج پریشان ہیں او راپنے روایتی طرز عمل کو چھوڑ کر امن او ربھائی چارہ کی باتیں کررہے ہیں۔پچھلے نو سالو ںمیںہندوستانی سماج میںبھی فرقہ پرستی کا زہر اس قدر تیزی سے انسانوں میںسرعیت کرگیاہے کہ کہیں انتظامیہ کے ہاتھوں مسلمان نشانہ بن رہے ہیں تو کہیں چلتی ٹرین میںمحافظ خود داڑھی ٹوپی اورلباس دیکھ کر ان پر اندھا دھند گولیاں چلارہا ہے تو کہیںاسکول میں ایک ٹیچر معصوم مسلمان نونہال کو اس کے کلاس کے ساتھیوںکے ہاتھوں یہ کہتے ہوئے تمانچے رسید کرارہی ہے کہ ’’محمڈن بچوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیاجانا چاہئے ۔ کیونکہ ان کی مائیں بچوں کی تعلیم پر توجہہ نہیں دیتی ہیں‘‘۔ فرقہ پرستی کا یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہندوستانی سماج میںداخل کیاجاتا رہا ہے مگر پچھلے نوسالوں میں اس زہر کو بنانے والی تنظیموں ‘ اداروں اور بالخصوص منفی پروپگنڈہ کے علمبردار میڈیا اداروں کو نفرت پھیلانے کی پوری آزادی دیدی گئی ہے ۔ تین طریقوں سے اس ملک میںمسلمانوں کو عرصہ حیات تنگ کرنے کاکام کیاجارہا ہے ۔ایک اوپن سیکریٹ کے طرز پر کام کرتے ہوئے 2014کے بعد میڈیااداروں کو اپنے برغے میںلے کر مسلمانو ں کی شبہہ کو مشکوک بنانے کا بدستور کام کیاجاتا رہا ہے۔ عظیم ہندوستان کی وہ ریاستیں جہاں پر بھگوا پارٹی برسراقتدار ہے وہاں پر ایک نئی روایت کی شروعات بھی ان نو سالو ںمیںدیکھنے کو ملی ہے ۔ گجرات کے بعداب اترپردیش آر ایس ایس اور بی جے پی کی لیباریٹری میں تبدیل ہوگئی ہے ۔
حالانکہ ملک کی کسی بھی ریاست میںجب کسی سیاسی جماعت کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو اس ریاست کا چیف منسٹر ملک کے ائین پر حلف اٹھاتا ہے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک او ررویہ روا رکھنے کا عہد کرتے ہیںمگر اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جہاں پر عہد توڑنے کاکام زور شور سے کیاجارہا ہے ۔ جیسا کہ میںنے اوپر کے سطور میںکہاکہ ایک نئی ہندوتوا لیباریٹریکے طور پر اترپردیش میںتجربات کئے جارہے ہیں ۔ جبکہ میںنے ایسا کہا اس وجہہ سے ہے کہ آج جو گجرات‘ مدھیہ پردیش‘ ہریانہ اورملک وہ ریاستیں جہاں پر بھگوا پارٹی برسراقتدار ہے ان ریاستوں میںکی جارہی بلڈوزر کاروائی کی ابتداء اترپردیش سے ہی ہوئی ہے۔ اترپردیش میں این آر سی اور سی اے اے احتجاجی مظاہروں کے دوران دائیںبازو کارکنوں کی اشتعال انگیزی کے بعد رونما ہونے والے فرقہ وارانہ جھڑپوں پر کاروائی کرتے ہوئے اترپردیش پولیس نے مسلمانوں پر این ایس اے لگایا اور ان کے گھروں کو منہدم کرنے کی کاروائی کی شروعات کی اور اس کامیاب تجربے کے بعد ان تمام ریاستوں میںجہاں پر بھگوا پارٹی برسراقتدار ہے وہاں اسی طرح کی کاروائیاں انجام دی جارہی ہیں۔اترپردیش کے بعد آسام وہ ریاست ہے جہاں پر منظم انداز میںمسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ریاست مدھیہ پردیش آتی ہے جہاں پر حکومت کی نگرانی میں مسلمان برداری کے مکانات کوزمین دوز کرنے میںحکومت نے کوئی کسر نہیںچھوڑی ہے ۔ مسلمانوں کی بربادی کی داستان کی فہرست تو کافی طویل ہے مگر پچھلے نو سالوں میںجو زہر کی فیکٹریاں لگائی گئی ہیںاب وہ فیکٹریوں کا اثر صاف دیکھائی دے رہا ہے ۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ بے قصور ‘ مظلوم او رنہتے مسلمانوں پر بے دریغ گولیاںداغنے کے بعد وہ ریلوے پولیس کا دہشت گرد جوان ٹرین میںسوار دوسرے مسافرین کو انتباہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ اگر ہندوستان میںرہنا ہے تو یوگی او رمودی کو ووٹ دینا ہوگا‘‘۔ مگر افسوس کہ محکمہ ریلوے نے آر پی ایف کے جوان چیتن پرکوئی کاروائی اب تک نہیںکی بلکہ اس دہشت گرد چیتن کو چھٹی پر رکھا گیاہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرکزی حکومت او رریل محکمہ مہلوکین کو کم ازکم پچاس لاکھ روپئے فی کس معاوضہ کا اعلان کرتا اور پسماندگان میں سے کسی ایک کو سرکاری ملازمت فراہم کرتے مگر ایسا نہیںہوا ۔ کیونکہ اقتدار پر فائز حکمران اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ ان ہی کی پھیلائی ہوئی نفرت کے نتیجے میںرونما ہونے والا واقعہ ہے ۔ہریانہ کے نوح میں حالیہ دنوں میں ظلم وبربریت کی انتہا ہوگئی۔ ایک طرف دائیںبازو کی تنظیمیں ’جل ابھیشیک یاترا‘ کے نام پر اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقوں سے گذرتے ہیں‘ پولیس کی موجودگی میںمساجد کے سامنے کھڑے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور انہیںانتباہ دیتے ہیںکہ اگر ہندوستان میںرہنا ہے تو ’جئے شری رام‘ کہنا ہوگا ۔
ان ساری کارائیوں میںپولیس تماشائی بنی خاموش کھڑی نظر آتی ہے ۔ اس یاترا کے دوران چند ایک بدمعاش عناصر جلوس پر مبینہ پتھرائو کرتے ہیں جس کے نتیجے میںوہاں پر دوگرپوں کے درمیان میں جھڑپ ہوجاتی ہے ۔ ہریانہ اوراتراکھنڈ ایسی ریاستیں جہاں پر کھلے عام فرقہ پرست تنظیمیں مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان کرتی آرہی ہیں۔مسلمانوں کو اپنی دوکانیںبند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔ مسلمانوں کے کاروبار کو تباہ کرنے کی کاروائیاں کی جاتی رہی ہیں ۔ مگر جب ہریانہ کے نوح میںپہلے دور کی جل ابھیشک یاترا فرقہ وارانہ جھڑپوں کی وجہہ سے موقف کردی گئی تھی ‘ اس کے بعد ریاستی انتظامیہ نے اپنی کاروائیاں شروع کیں۔ پولیس نے چن چن کر اقلیتی طبقے کے لوگوں پرمقدمات درج کرنا شروع کردئے ۔ حالانکہ جن لوگوں پر فرقہ وارانہ فسادات کے ضمن میںمقدمات درج کئے گئے ہیں ان میںسے اکثریت فسادات کے وقت نوح یا اس کے اس پاس کے علاقوں میں بھی موجود نہیںتھے۔ پہلے قانونی کاروائی کرتے ہوئے بے قصور لوگوں پر مقدمات درج ہوئے پھر اس کے بعد بلڈوزر کے ذریعہ مسلمانوں کے دوکانات او رمکانات کومنہدم کرنے کی کاروائیاں شروع ہوئیں۔ ہریانہ کے میوات اور نوح کے بشمول دیگر مسلم علاقوں میںایڈمنسٹریشن کی جانب سے جو انہدامی کاراوئیاں انجام دی گئی ہیں وہ اسی نفرت کا حصہ ہیںجو ملک کے اکثریتی طبقے میں دلوں میںبھرنے کا پچھلے نو سال سے کام کیاجارہا ہے۔ایک جانب فرقہ پرست طاقتوں کو اس طرح کی کاروائی سے مضبوط اور مستحکم کیاجارہا ہے تودوسری جانب اکثریتی طبقات بالخصوص مسلمانوں کے دلوں میںخوف اوردہشت پیدا کرتے ہوئے انہیںدوسرے درجہ کاشہری ہونے کا احساس دلایاجارہا ہے ۔ اس بات کااندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے جو ہریانہ کے نوح میںفرقہ وارانہ تشدد کے سبب روک دی گئی ’’جل ابھیشک یاترا‘‘ کا دوبارہ اسی مقام سے احیاء عمل میںلانا ہے۔ ملک کے حالات اس قدر تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیںکہ اب جہاں پر ادب واخلاق‘ اخوت و بھائی چارہ سیکھایاجاتا تھا وہاں پر اساتذہ خود بچوں کے دلوں میںنفرت پیدا کرنے والے امور انجام دے رہے ہیں۔ایک ایسا ہی واقعہ حالیہ دنوں میں اترپردیش کے مظفر نگر میںپیش آیا ۔ ایسے بے شمار واقعات سے ملک بھرا پڑا ہے۔الغرض کے جس طرح کا ماحول ملک میںبنایاگیا ہے اور ملک کوفرقہ پرستی کی آگ میںجھونکا جارہا ہے اس کا اثر صدیوں تک رہنے والا ہے ۔
رہبر ہے میرا رہزن ‘ منصف ہے میرا قاتل
سہہ لوں تو قیامت ہے ‘ کہہ دوں تو بغاوت ہے