ریاستوں کے آبی وسائل

   

اکیسویں صدی میں قیامت کا خوف ہے
اعمال ہم سبھوں کے سنور جانا چاہیئے
ریاستوں کے آبی وسائل
ریاستوں میں پانی کی تقسیم ایک اہم مسئلہ ہے ، دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم کو لیکر کرناٹک اور چینائی میں تنازعہ عدالتوں تک پہنچا،دیگر ریاستوں کے درمیان بھی علاقائی سطح پر ریاستی مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، حال ہی میں ریاستی وزرائے آبی وسائل کے اجلاس میں اسی موضوع پر غور و خوض کیا گیا تھا کہ ملک کے کئی حصوں میں خشک سالی جیسی صورتحال کے پس منظر میں ریاستوں کو کیا احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے۔ جنوب مغربی مانسون کی تاخیر سے آمد اور ناکافی بارش نے تشویشناک صورتحال کی دستک دے دی ہے۔ مہاراشٹرا کے معاشی شہر ممبئی کے ماسوا مہاراشٹرا کے دیگر علاقوں میں پانی کی کمی سے خشک سالی کی کیفیت ہے، چینائی میں پانی کے ذخائر خشک ہوچکے ہیں۔ اُتر پردیش کے کئی اضلاع بھی خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ چھتیس گڑھ میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے مرکز سے فوری مداخلت کی اپیل کی جاچکی ہے۔ مرکزی حکومت سے اُمید رکھنے والی ریاستوں نے آبپاشی پراجکٹس میں ہونے والی تاخیر کو فوری ختم کرنے کیلئے زور دیا ہے۔ آبی مسئلہ پر تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی بات چیت کی گئی ہے ۔ ہندوستان کے بین ریاستی آبی تنازعہ کو حل کرنے میں مرکزی حکومت کی تساہلی نے صورتحال کو اس قدر نازک بنایا ہے کہ اب ریاستی حکومتیں ہی اپنے بَل پر باہمی بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کی یکسوئی کی دوستانہ کوشش کررہی ہیں۔حال ہی میں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے آندھرا پردیش کے ہم منصب وائی ایس جگن موہن ریڈی کو مدعو کرکے دریائے گوداوری کے پانی کی تقسیم پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ریاستوں کے درمیان آبی تنازعہ زیر التواء ہے لیکن چیف منسٹر تلنگانہ نے پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کی نئی حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو یقینی بناتے ہوئے وائی ایس آر کانگریس صدر و چیف منسٹر آندھرا پردیش جگن موہن ریڈی سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ حیدرآباد میں دونوں چیف منسٹرس کی ملاقات اور ریاستوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی نئی شروعات کا ہر گوشے سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔ جہاں تک پانی کی تقسیم کا مسئلہ ہے دریائے گوداوری کا پانی ہر سال ضائع ہوتا ہے، بہتر مانسون کی صورت میں گوداوری لبریز ہوکر بہہ جاتی ہے۔ ہر سال 300 ٹی ایم سی پانی سمندر میں چلا جاتا ہے، اس لئے دونوں ریاستوں کی جانب سے دریائے گوداوری کے پانی کو بھرپور طریقہ سے استعمال کرنے کے لئے پراجکٹس بنائے جاتے ہیں تو اس سے ہردو ریاستوں کے آبپاشی اور پینے کے پانی کے مسائل حل ہوں گے۔ ریاستوں کے درمیان پانی کے مسئلہ کی ہمدردانہ تقسیم عمل میں آتی ہے تو اس سے ہر ریاست کے شہریوں کو پانی کی قلت سے نجات ملے گی۔ مہاراشٹرا میں وردبھا اور مراٹھا واڑہ کو پانی کی قلت کا سامنا ہے تو اُتر پردیش، مدھیہ پردیش، بندیل کھنڈ کے ساتھ ساتھ تلنگانہ اور آندھرا کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت پائی جاتی ہے۔ ٹاملناڈو، گجرات، راجستھان میں پانی کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے بنی ہوئی ہے۔ مانسون کی کمی نے اب مزید تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ عوام کو پینے کے پانی کی سربراہی اور زراعت کیلئے جب پانی نہ ہو تو حکومت کو متبادل اقدامات کرنے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا وہ ناقابل بیان ہوں گی، اس لئے بین ریاستی آبی مسائل کی یکسوئی کے ساتھ پانی کے ذخائر کو تعمیر کرنے اور ایک دوسرے کے علاقہ سے پانی کے بہاؤ کو محفوظ کرنے کے پراجکٹس پر کام کیا جائے تو پانی کا دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ریاستوں میں پانی کی موجودہ صورتحال کا علم رکھنے کے باوجود مرکزی حکومت اس سلسلہ میں خواب غفلت کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ جیسا کہ جل شکتی کے وزیرگجیندر سنگھ شیخاوت نے کہا کہ ملک میں پانی کی کمی نہیں ہے اور یہ مسئلہ ریاستی مسئلہ ہے اور مرکزی حکومت کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اگر ریاستی حکومت امداد کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔ پانی کی کمی سے نمٹنے کے لئے مرکزی حکومت کے پاس فوری طور پر کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ جل شکتی کے منسٹر نے جب یہ واضح بیان دیا ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرکز نے سنگین صورتحال کو دعوت دینے کی تیاری کرلی ہے۔ مرکز کی نظر میں اگر پانی کا مسئلہ ریاستوں کا مسئلہ ہے تو پھر ریاستی حکومتوں کو اپنے طور پر بھی احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے۔ دہلی پہنچ پینے کے پانی کی کمی کے مسئلہ کا جائزہ لینے کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے کئی ریاستی وزرائے آبی وسائل نے اپنی ریاستوں میں پانی کی قلت اور سنگین صورتحال کے بارے میں واقف کروایا ۔ اس کے باوجود مرکزی وزیر آبی وسائل نے اس مسئلہ کو ریاستوں کا مسئلہ قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے تمام ریاستوں کو تلنگانہ و آندھرا پردیش کے چیف منسٹروں کی طرح باہمی طور پر آپس میں ہی آبی مسائل کی یکسوئی کے لئے دوستانہ مذاکرات شروع کردینے چاہیئے۔