زرعی قوانین کی تنسیخ منظور، حکومت کا مباحث سے گریز

,

   

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہنگامہ ، اپوزیشن کو بحث کا موقع نہیں دیا گیا

نئی دہلی :لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں کے ہنگامہ کے درمیان پیر کے روز زرعی قوانین کی واپسی سے متعلق بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو گیا۔ اپوزیشن نے بحث کے بغیر بل واپس کروانے کو جمہوریت کے لیے یومِ سیاہ بتایا۔ دوسری طرف حکومت نے اپوزیشن پر قصداً ہنگامہ کرنے اور ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کا الزام عائد کیا۔ بہر حال، اب اس بل کو صدر جمہوریہ کے پاس منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ زرعی قوانین منسوخی بل 2021 پر بحث ہو لیکن لوک سبھا میں اس بل کو جلدبازی میں پاس کر کے وہ (حکومت) صرف یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کسانوں کے حق میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم نے لکھیم پور کھیری واقعہ اور بجلی بل سمیت کچھ دیگر تحریکات کے دوران پیش آئے واقعات پر بحث کا مطالبہ کیا۔ کسان اب بھی دھرنے کی جگہ پر موجود ہیں۔بل پاس ہونے کے بعد این سی پی رکن پارلیمنٹ سپریا سولے نے کہا کہ یہ جمہوریت کے لیے یومِ سیاہ ہے۔ حکومت من کی بات کرتی ہے، لیکن عوام کی بات سے بھاگتی ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے الزام عائد کیا کہ حکومت خوف کے سبب بحث سے گریز کردیا۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیاں حکومت سے ایم ایس پی (اقل ترین امدادی قیمت) پر قانون بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ زرعی قوانین کی واپسی والے بل پر بحث ہو تاکہ ہم ایم ایس پی ، کسانوں کو معاوضے اور کسان کے خلاف درج مقدمات پر اپنی بات کہہ سکیں۔ حکومت نے بحث کے بغیر ہی بل کو پاس کروا دیا۔ اس درمیان مرکزی وزیر اشونی چوبے نے اپوزیشن پر قصداً پارلیمنٹ میں رخنہ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے پاس کوئی موضوع نہیں ہے۔ یہ لاحاصل سیاست کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ نیوز ایجنسی آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے مرکزی وزیر نے کہا کہ حکومت جب ان تینوں زرعی قوانین کو واپس لے رہی ہے تب بھی ہنگامہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انھوں نے ایم ایس پی کے مسئلہ پر اپوزیشن پر سیاست کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ بحث کا مطالبہ کرنے والی کانگریس تو ہمیشہ بحث سے بھاگتی ہی رہی ہے۔ جب بھی بحث ہوتی ہے تو وہ بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ بہرحال آج پارلیمنٹ میں واضح نہیں ہوسکا کہ ایم ایس پی پر قانون بنے گا یا نہیں۔