زمانہ کے انقلابات کامل یکسوئی اور بلند پایہ استقامت کا عظیم نمونہ

   

بیھقی وقت حضرت قاضی محمد ثناء اﷲ عثمانی مجددی پانی پتی قدس سرہ العزیز

حضرت قاضی ثناء اﷲ عثمانی مجددی پانی پتی قدس سرہ کا عہد (۱۱۴۱؁ ھ تا ۱۲۲۵؁ ھ مطابق ۱۷۳۰؁ء تا ۱۸۱۰؁؁ء ) تقریباً ۸۰۔۸۳ سالوں پر محیط ہے ، ہندوستان کا یہ زمانہ سخت افراتفری اور کشمکش کا زمانہ تھا ۔ حضرت قاضی پانی پتی قدس سرہ نے جب ہوش کی آنکھ کھولی تو ہندوستان پر محمد شاہ رنگیلے کی حکومت تھی اور جب مدت عمر پوری کرکے انتقال فرمایا تو اس وقت پنجاب اور بعض ساحلی علاقوں کے سوا تمام ہندوستان پر انگریزی راج شروع ہوچکا تھا ، ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کے حالات ابتر سے ابتر ہوتے گئے ، دہلی کی مرکزیت کو سخت نقصان پہنچا ، سکھوں ، مرہٹوں اور جاٹوں کے حملوں اور لوٹ مار کے واقعات میں تیزی آئی ۔ ۱۱۵۲؁ھ م ۱۷۳۹؁ء میں ایرانی حکمران نادر شاہ درانی نے ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ ۱۱۸۶؁ھ م ۱۷۷۲؁ء میں احمد شاہ ابدال حملہ آور ہوا ، غرض بیرونی حملے ، اندرونی خانہ جنگی ، سنی شیعی اختلافات وغیرہ حالات نے پانی پت ، دہلی بلکہ پورے ہندوستان کا سکون برباد کردیا تھا ۔ ایسے پرآشوب و پرفتن دور میں حضرت قاضی ثناء اﷲ پانی پتی قدس سرہ العزیز نے اس وقت عالم اسلام کی دو نامور و مرجع الخلائق علمی و روحانی شخصیتیں حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں شہید قدس سرہ اور حکیم الامت حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی قدس سرہ کی راست نگرانی و سرپرستی میں علمیت اور روحانیت کی تکمیل کی اور تقریباً نصف صدی ’’قضاء ت ‘‘ کے عہدہ جلیلہ پر متمکن رہے اور ہندوستان کے اس ابتر حالات میں احیائے اسلام اور تجدید دین متین کا اہم فریضہ سر انجام دیا ۔
حضرت قاضی محمد ثناء اﷲ ولد قاضی محمد حبیب اﷲ پانی پتی قدس سرہ حضرت خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد سے ہیں ۔ آپ مخدوم شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء کے اخلاف میں سے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ بادشاہ بیگم مشہور مغلیہ سپہ سالار نواب شمس الدولہ لطف اﷲ خان صادق کی صاحبزادی ہیں ۔ نواب صادق کا خانوادہ مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نسبی تعلق رکھتا ہے ۔
قاضی صاحب قدس سرہ کی یہ بڑی سعادت تھی کہ قدرت نے ان کو تربیت کے لئے جس گھرانے میں پیدا کیا ، اس کے تمام افراد علمی اور اخلاقی روایتوں کے امین ہی نہیں بلکہ ان کے معلم تھے ۔ اس خانوداہ میں علم اور دنیوی وجاہت و شرافت کئی پشتوں سے متوارث تھی ۔
حضرت قاضی پانی پتی قدس سرہ نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا ، اس کا اثر یہ رہا کہ آپ ہر روز نماز تہجد میں قرآن مجید کی ایک منزل تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ آپ نے اپنے ابتدائی طالبعلمی کے ایام ہی میں قراء ات عشرہ کی تکمیل فرمائی ۔ آپ کی معرکۃ الاراء تصنیف تفسیر مظہری کے مطالعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس فن میں مہارت تامہ حاصل تھی ۔ مخفی مباکہ پانی پت کے اس عثمانی خانوادہ میں علمی و فکری روایت کئی پشتوں سے متوارث چلی آرہی تھی جس کے تحت اس خاندان میں بہت سے علماء ، فقہاء ، مفتی اور قاضی پیدا ہوئے اور تین پشتوں سے ’’عہدہ ٔ قضاء ‘‘ کی روایت بھی شامل ہوگئی تھی ۔ آپ کے جدامجد حضرت قاضی محمد ہدایت اﷲ اس پایہ کے عالم تھے کہ حضرت شیخ محمد عابد سنامی قدس سرہ (۱۱۶۰؁ھ ؍ ۱۷۴۷؁ء ) جیسے بلند پایہ عظیم بزرگ سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا ۔
حضرت شیخ عابد محمد سنامی قدس سرہ نسباً صدیقی اور نسبت میں قادری تھے ۔ آپ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت مظہر جانِ جاناں شہید مسلسل سات سال تک آپ کی زیرتربیت رہے ۔ ایک روایت کی رو سے دو سو کے قریب علماء ہر وقت ان کے ہمراہ رہتے ۔ آپ سریع التاثر بزرگ تھے چند گھڑیوں میں دل کی دنیا بدلنے میں جواب نہیں رکھتے تھے چنانچہ آپ کی توجہات باطنی سے بے شمار افراد مستفید ہوئے ۔
حضرت قاضی پانی پتی قدس سرہ بچپن میں حضرت شیخ عابد محمد سنامی کے ہاتھ پر بیعت کئے اور آپ کی زیرتربیت پرورش پائے ۔ حضرت شیخ عابد محمد سنامیؒ نے قاضی صاحب علیہ الرحمہ کے والد ماجد قاضی محمد حبیب اﷲ پانی پتی کو پہلے بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا پھر توجہہ فرمائی کیونکہ آپ قاضی صاحب علیہ الرحمۃ کے دادا کے شاگرد ہونے کی بناء اس خاندان پر حد درجہ مہربان تھے ۔ حضرت شیخ سنامیؒ کی صحبت سے حضرت قاضی پانی پتیؒ پر خدا طلبی کا ایسا ذوق پیدا ہوا جو پورے دل پر چھاگیا جب حضرت شیخ سنامیؒ کے انتقال کا وقت آیا تو انھوں نے آپ کو تعلیم و تربیت کے لئے حضرت مرزا جانِ جاناں شہید کے سپرد کیا اور خصوصی توجہہ دینے کی وصیت کی اور قدیم حقوق و استحقاق کی طرف توجہہ مبذول کروائی چنانچہ حضرت شیخ محمد عابد سنامیؒ کے انتقال کے بعد حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں نے پانی پت کا دورہ کیا اور حضرت قاضی پانی پتی علیہ الرحمہ اور آپ کے برادر اکبر پر اپنا دست شفقت رکھا اور آپ کی از ابتداء تا انتہاء تعلیم و تربیت کااہتمام کیا۔ جب حضرت پانی پتی علیہ الرحمہ مروجہ علوم میں پوری طرح مہارت حاصل کرلئے تو مزید تعلیم و تربیت کے لئے امام العصر شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیج دیا اور مسلسل نگرانی فرماتے رہے ۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے حضرت مرزا مظہر جانِ جاناںؒ کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا : ’’مولوی ثناء اﷲ نے مصابیح اور صحیحین (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) کا سماع کرلیا ہے اور اب صحاح ستہ بلکہ ’’عشرہ متداولہ‘‘ کے سماع کے لئے مستعد ہیں، آپ کی توجہہ کی برکت سے اُمید ہے کہ ان کے دل کی آرزو پوری ہوگی ، پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضری کے لئے احرام باندھیں گے‘‘۔ (کلمات طیبات ، ص ٖ: ۱۵۸)
حضرت قاضی پانی پتیؒ کی محدثانہ بصیرت کااندازہ کرنے کیلئے یہ کہنا کافی ہوگا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے آپ کو ’’بیھقی وقت‘‘ کا لقب مرحمت فرمایا تھا ۔ حضرت قاضی پانی پتیؒ کا حضرت مرزا شہید رحمۃ اللہ علیہ سے (۳۵) سال ساتھ رہا اور انھوں نے شیخ کی تربیت میں روحانیت کے اعلیٰ مداراج طئے کئے حتی کہ بطور تشکر حضرت مرزا شہیدؒ نے فرمایا : ’’اگر خداوند تعالیٰ روز قیامت کو مجھ سے پوچھیں گے کہ میری بارگاہ میں کیا تحفہ لایا ہے تومیں قاضی ثناء اﷲ کو پیش کرونگا ‘‘۔( نزھۃ الخواطر ۷:۱۴۲)
حضرت قاضی پانی پتیؒ کی حیات مبارکہ کا ایک اہم کارنامہ بطور قاضی پانی پت اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری ہے جو تقریباً نصف صدی تک آپ نے بحسن و خوبی انجام دی ہے ۔
حضرت قاضی پانی پتیؒ ابتدائی عمر ہی سے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی برپا کردہ تحریک ’’تجدید و احیائے اسلام ‘‘ سے وابستہ ہوگئے تھے اور اپنے خاندانی منصب ’’عہدہ قضاء‘‘ کے علاوہ اس تحریک کے ایک مضبوط قائد کی حیثیت سے تصنیف و تالیف کے شعبہ کو بھی سنبھالا اور متعدد اہم علمی موضوعات پر قلم اُٹھایا ۔ تقریباً (۴۵) سے زیادہ علمی تصنیفات کا ذخیرہ چھوڑا جس میں تفسیر مظہری کو عالم اسلام میں انفرادی مقام حاصل ہے ۔ آپ یکم رجب المرجب ۱۲۲۵؁ھ م ۲ ؍ اگسٹ ۱۸۱۰؁ء کو دارفانی سے دارباقی کوچ کرگئے ۔ ( تفصیلات کے لئے دیکھئے : تذکرہ قاضی محمد ثناء اﷲ پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مؤلف تفسیر مظہری مؤلفہ ڈاکٹر محمود الحسن عارفؔ)