زمانے کی نشانیاں

   

حمرہ قریشی
ہماچل پردیش کے علاقہ کولو میں جمعرات کو درجنوں مکانات زمین دوز ہوئے ، انتہائی بھیانک مناظر کا ساری دنیا نے مشاہدہ کیا ۔ وہاں ایسے دردناک واقعات پیش آئے جس کو الفاظ میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس علاقہ میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس سے مایوسی اور صدمہ کی لہر پیدا ہوئی ہے جو تکلیف دہ ہے۔ اگرچہ اس تباہی کو روایتی طورپر قدرت کا قہر کہا جارہا ہے لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اس میں انسانی پہلو ( انسانی غلطی ) یا انسانوں کی کارستانی بھی شامل ہے ۔ مثال کے طورپر حال ہی میں تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھنے ، تعمیری پراجکٹس کیلئے بجٹ کا دوبارہ مختص کیا جانا ، انہدامی کارروائیاں ، جنگلات کے کٹاؤ کے نتیجہ میں ہی ہماچل پردیش میں یہ حالات پیدا ہورہے ہیں ۔ ہماچل پردیش میں جو کچھ ہورہا ہے میں اُسے انسانوں کی کارستانی قرار دیتی ہوں ، راست یا بالواسطہ طورپر یہ تباہی ہم میں سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو متاثر کررہی ہے اور یہ بات بھی نوٹ کریں اس تباہی میں جو کچھ سہولتیںاور عمارتیں انسان وغیرہ بچ گئے ہیں اُن پر یقینا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ ہر طرف موت و تباہی دیکھی گئی ، ہماچل پردیش میں یقینا بڑی تباہی ہوئی اور ریاست کے دارالحکومت شملہ کے بارے میں یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ماضی کے راج دور اور اس کے کافی عرصہ بعد بھی اہم شخصیتوں کا گرمائی تفریحی مرکز رہا ۔
میرے ذہن میں دہلی کے کئی فنکار ، ماہرین تعلیم اور سیاستداں ہیں جنھوں نے مجھے بتایاکہ ہر موسم گرما میں وہ اور اُن کے ارکان خاندان سامان سفر باندھے شملہ کی طرف روانہ ہوجاتے ۔ آپ کو بتادوں کہ سفارتکار و مصنف آنجہانی پران نیوائل نے ایک مرتبہ مجھے تفصیل سے بتایا کہ وہ اس علاقہ میں سفر کو ترجیح دیا کرتے تھے لیکن انھوں نے حالیہ برسوں میں شملہ جانا چھوڑ دیا تھا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہہ وہاں بندروں کی ناقابل کنٹرول آبادی تھی ۔ انگریزوں کی حکمرانی کے دوران شملہ کے اطراف و اکناف بندر نظر نہیں آتے تھے ۔ بندر جنگلات تک محدود تھے لیکن اب حال یہ ہوگیا کہ وہاں بندروں کی آبادی انسانوں پر حملہ کررہی ہے ۔ بندر نہ صرف انسانوں پر حملہ کررہے ہیں بلکہ فصلوں اور پھلوں کی پیداوار کو تباہ کررہے ہیں لیکن ریاست میں جاری اس تباہی پر قابو پانے کیلئے کوئی نہیں ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو آج یقینا انسانوں کیلئے المیہ یا المناک واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ۔
اُترپردیش ، مدھیہ پردیش اور ہریانہ کا میوات اُس کی بدترین مثالیں ہیں ۔ ایسے میں آپ خود سے دریافت کیجئے کہ آیا ہمیں گھروں یا مکانات کو منہدم کرنے کا حق ہے ؟ کیا ہمیں یہ حق ہے کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے چھت چھین لئے جائیں ، انھیں بے آسرا کردیں ۔
آج ملک کی مختلف ریاستوں ( خاص طورپر بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں میں ) ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں ۔ مکانات پر بلڈوزر چلانے کا یہ سارا عمل انتہائی وحشیانہ اور سفاکانہ اور غیرمنصفانہ لگتا ہے ۔ آپ نہ صرف ایک ساخت یا ڈھانچے کو تباہ کررہے ہیں بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ زندگی اور معیشت کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ کیا متاثرہ مرد و خواتین اور بچے اپنے اطراف و اکناف منڈلاتے ہوئے منہدم شدہ مکانات کے ملبہ میں بھی زندہ رہ سکیں گے ؟ وہ کہاں جاسکتے ہیں ؟ ان کو کون اپنے گھر میں پناہ دے گا جیسا کہ ہمارے ملک میں ایک انوکھا ( فرقہ وارانہ ) ماحول نقطہ عروج پر ہے ۔ ایسا ماحول جو کبھی بھی ہمارے ملک میں نہیں تھا ۔ ذرا سوچئے اور غور کریں کہ عمارتوں ( گھروں ) کو منہدم اور تباہ کرنے کی یہ حرکتیں کیا شدید غربت ، جرائم اور مایوسی و غصہ کو جنم نہیں دیتی ۔
صوفی بزرگ حضرت بابا فریدؒ کے اشعار : جب صوفی بزرگ بابا فرید کی کتاب کا ترجمہ بعنوان Farid Couplets ( جس کا ترجمہ ٹی سی گھائی نے کیا ہے ، ایل جی پبلشرز ڈسٹری بیوٹرس نے شائع کیا ہے ) منظرعام پر آیا تو میں نے نہ صرف اس کے ایک ایک شعر کا مطالعہ کیا بلکہ پرانی یادوں کے ساتھ اپنی گرفت مضبوط کرکے بیٹھ گئی ۔ مجھے اُن یادوں کو تازہ کرنے دو میری ماں ہمیشہ سے ہی حضرت بابا فریدؒ سے اور اُن کے کلام سے متاثر رہی ۔ انھیں حضرت بابا فریدؒ سے اس قدر زیادہ عقیدت تھی کہ انھوں نے میرے چھوٹے بھائی کا نام فرید رکھنے کا فیصلہ کیا یہ 60 کے دہے کی بات ہے ۔ اس وقت ہمارا خاندان جھانسی میں مقیم تھا ۔ میرے والد صاحب کی تعیناتی جھانسی میں ہوئی تھی ۔ میری بہن حبیبہ اور میں جھانسی کے جونیر اسکول ، سینٹ فرانسس کانونٹ میں زیرتعلیم تھے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم اسکول سے اپنے چھوٹے بھائی فرید کے ساتھ کھیلنے بڑے جوش و خروش کے ساتھ گھر جاتے تھے ۔ ہم پنے بھائی کے ساتھ اس وقت تک کھیلتے جب تک کہ اسکول کا ہوم ورک ختم نہ ہوجاتا ۔ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلنے کا یہ سلسلہ تقریباً 11 ماہ تک چلتا رہا ۔ اس دوپہر تک جب فرید کا انتقال ہوگیا ۔ مجھے اُس کے انتقال کی تفصیلات آج بھی یاد ہیں اُس دوپہر کو جب میں اور میری بہن حبیبہ اسکول سے واپس آئے تو ہم نے اپنے گھر کے وسطی بڑے کمرے میں دوست احباب کو جمع دیکھا ، ہمارے والدین بھائی کی میت کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اسے سفید روئی کی چادر میں لپیٹا گیا تھا اور اسے تدفین کے لئے لے جانے والے تھے ۔ فرید بہت کمزور اور بہت ہی نازک پیدا ہوا تھا اسی لئے ڈاکٹروں کو اس کے بچ جانے کی کوئی اُمید نہیں تھی ۔ وہ اپنی عمر کے گیارہ ماہ سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔
یادوں اور مجروح جذبات کو چھوڑتے ہوئے اپنے بھائی کی موت کے بعد میں نے بابا فریدؒ کے کلام اُن کے اشعار جتنا ممکن ہوسکے پڑھتی رہی ۔ چنانچہ اب جیسے ہی بابا فریدؒ کے کلام کے ترجمہ پر مبنی مذکورہ کتاب منظرعام پر آئی میں اُن کے کلام کو پڑھنے بیٹھ گئی ۔ ماہر تعلیم ٹی سی گھائی نے اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا ہے ۔ ساتھ ہی گرومکھی ، شاہ مکھی اور دیوناگری رسم الخط میں اصل متن کو بھی نمایاں طورپر پیش کیا گیا ، ساتھ ہی اس عظیم صوفی بزرگ پر بہت زیادہ توجہہ مرکوز کی گئی ۔ حضرت بابا فریدؓ کو حضرت شیخ فرید گنج شکرؒ اور شیخ فرید یا فریدالدین مسعود کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ ان کی ولادت تقریباً 1179 ء میں غیرمنقسم ہندوستان کے پنچاب ( اب پاکستانی پنجاب)کے گاؤں کوتھیوال میں ہوئی جو ملتان سے صرف 10 کیلومیٹر دور ہے ۔ اگرچہ بابا فرید کے کلام کا انگریزی میں پہلے ہی ترجمہ ہوچکا ہے لیکن جیسا کہ گھائی اس کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں ’’ مجھے امید ہے کہ یہ ترجمہ حضرت بابا فریدؒ کے ان خیالات کو پیش کرنے میں کامیاب رہے گا جو انھوں نے موت کے بارے میں زندگی سے متعلق شعور پیدا کرنے پیش کئے تھے ۔ اپنے اشعار میں بابا فریدؒ نے موت و زندگی کے اسرار و رموز پیش کئے ہیں ، دنیاوی خواہشات اور اُس کے مضر اثرات پر بھی روشنی ڈالی ۔ اُن کا کلام دنیاوی خواہشات و باطل عزائم کا رد کرتا ہے وہیں ان کا کلام آج بھی ہماری روزمرہ زندگی کی حقیقی تصویر بھی پیش کرتا ہے ۔ کتاب میں اس حقیقت پر بھی توجہہ دی گئی ہے کہ فرید بانی جن کے 112 سلوکاس کا ترجمہ اس کتاب میں شائع کیا گیا ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گرونانک (1469-1539) نے جو دھن میں واقع بابا فریدؒ کی مزار پر حاضری کے دوران حاصل کئے تھے یعنی بابا فرید ؒکی وفات کے ڈھائی صدی بعد انھوں نے مزار پر حاضری دی تھی لیکن یہ کلام اس وقت منظر عام پر آیا جب سکھوں کے پانچویں گرو گروارجن دیو 1606-1563 نے اسے 1604 میں سکھوں کے مذہبی صحیفہ کا حصہ بنایا ۔
میں اس ہفتہ کے کالم کا اختتام بابا فریدؒ کے ان اشعار سے کرتی ہوں جن کا مطلب کچھ یوں ہے ۔ فرید اگر تم دانشمند ہوں تو پھر دوسروں کی توہین نہ کرو ، انھیں تنقید کا نشانہ نہ بناؤ بلکہ اپنے آپ میں جھانک کر دیکھو کہ خود میں کتنی خامیاں ہیں ۔ فرید خدا کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہو ، جنگل جنگل پھر رہے ہو ، حقیقت یہ ہے کہ خدا تو دل میں رہتا ہے ، تمام قلوب صاف و شفاف موتیوں کی مانند ہوتے ہیں ایسے میں کسی کو تکلیف دینا ، کسی کے جذبات مجروح کرنا غلط ہے ۔ اگر آپ کسی کو اپنا محبوب بنانا چاہتے ہیں تو کسی کا دل مت توڑو ، ہاں یاد رکھو ایک دن ایسا آئے گا جب دانت ، ہاتھ پیر اور کان سب کے سب کام کرنا چھوڑ دیں گے اس وقت جسم روئے گا کہ میرے قریبی دوستوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے ، مجھے یکا و تنہا چھوڑ دیا ہے ۔