سابق عہدیداروں پر پابندیاں!

   

مرکزی حکومت کی جانب سے ہر گوشے میںاظہار خیال کی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کا ایک سلسلہ سا شروع ہوچکا ہے ۔ ہر گوشے پر گرفت بنائے رکھنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ کہیں سے بھی کسی مخالفانہ آواز کو بلند ہونے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر اظہار خیال کی آزادی کو ہر طرح سے ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ چاہے یہ صحافیوں کی آواز ہی کیوں نہ ہو ۔ ملک میں کئی صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیںد یا جا رہا ہے اور جو صحافی حکومت کی آواز میں آواز ملانے یا اس کے تلوے چاٹنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے پیشے سے دیانتداری کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں انہیںحکومتوں کی جانب سے مقدمات کا نشانہ بناتے ہوئے جیلوں کو بھیجا جا رہا ہے ۔ قومی اور ریاستی سطح پر ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ایسے مقدمات غداری اور بغاوت کے الزامات پر مشتمل ہیں جن کے نتیجہ میں متاثرین کو ضمانتیں تک ملنی مشکل ہوگئی ہیں۔ گذشتہ دنوں ہی سپریم کورٹ نے ونود دوا کے خلاف دائر کردہ بغاوت و غداری کے مقدمہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحافی کو اس کی حفاظت کا حق حاصل ہے ۔ اب مرکزی حکومت نے مرکزی خدمات ( پنشن ) قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے انٹلی جنس یا سکیوریٹی سے متعلق اداروں میں خدمات انجام دے چکے تمام سابق عہدیداروں پر بھی ایک طرح سے پابندی عائد کردی ہے کہ وہ تنظیم کے دائرہ میں آنے والے کسی مواد کو شائع نہیں کرسکتے ۔ ایسا کرنے کیلئے انہیں اس ادارہ سے اجازت حاصل کرنی ہوگی ۔ مرکزی حکومت کا یہ اقدام در اصل سرویس اور پنشن قوانین کے بیجا استعمال کے مترادف ہے اور اس سے سبکدوش ہونے والے عہدیداروں کی جانب سے آزادی سے اظہار خیال کے بنیادی حق کو سلب ہوتا ہے ۔ ماضی میں ایسا کئی مواقع پر ہوا ہے کہ سبکدوش عہدیداروں نے دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اہمیت کے حامل انکشافات کئے ہیں لیکن موجودہ حکومت ان عہدیداروں کو بھی یہ موقع دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ یہاں عوام کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ۔ عوامی حلقوں کے احساسات و جذبات کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ جمہوریت میں ہر ایک کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت اور آزادی حاصل ہے ۔ یہ سب کچھ ملک کے دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہی کیا جاتا ہے ۔ تاہم مرکزی حکومت اس کی اجامت دینے بھی تیار نہیں ہے ۔ اعلی عہدیداروں کے خدمات انجام دیتے ہوئے جو تجربات رہتے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سرکاری عہدہ پر رہتے ہوئے وہ موجودہ نظام کے تعلق سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار نہیں کرپاتے اور جب خدمات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں تو ایک طرح سے وہ سسٹم کے نقائص پر ہی روشنی ڈالتے ہیں لیکن اب ان سے یہ موقع بھی چھین لیا گیا ہے اور ان کیلئے لازمی کردیا گیا ہے کہ اگر وہ کسی تعلق سے اپنے خیالات تحریری شکل میں پیش کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے بھی سرکاری منظوری حاصل کرنی ہوگی ۔ یہ بات تو سبھی سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت پر تنقیدی تحریروں کو شائع ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ جو اعلی عہدیدار سبکدوش ہوتے ہیں ان کی خدمات سے انکار نہیںکیا جاسکتا ۔ انہوں نے پوری دیانتداری کے ساتھ خدمات انجام دی ہوتی ہیں اور اگر وہ اپنے احساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ان سے یہ موقع چھینا جا رہا ہے جو جمہوری عمل میں بہتر عمل نہیں کہا جاسکتا ۔

ملک میں پہلے سے جو قوانین اور اصول موجود ہیں ان میں پہلے ہی سے عہدیداروں پر کچھ پابندیاں ہوتی ہیں۔ ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو متاثر کرنے والی کسی تحریر کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہیں دی جانی چاہئے لیکن اس کی آڑ میں حکومت کی مداخلت اور تحدیدات میں اضافہ بھی نہیں کیا جانا چاہئے ۔ حکومت نے جو نئی تحدیدات عائد کی ہیں اگر ان کی پابندی نہ کی جائے تو پنشن و وظیفہ روک دینے جیسا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ عہدیداروں کے حقوق کو متاثر کرنے والی بات ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس تعلق سے اپنے موقف پر نظر ثانی کرے ۔ نظام اور حکمرانی میں بہتری کیلئے اگر اعلی عہدیدار اپنی جانب سے کچھ احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور اگر ان سے ملک کی سالمیت اور یکجہتی اور مفادات پر کوئی آنچ نہیں آتی تو ان کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے نہ کہ پابندی عائد کی جانی چاہئے ۔