ساری افسانہ گری خاک میں مل جائے گی

   

قدرت کا کھیل …
NPR
کی گنتی کے بجائے کورونا گنتی
ڈیٹنشن سنٹرس کی جگہ کورنٹائن سنٹرس

رشیدالدین
ہر انسان چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور قدرت کے آگے بے بس ہوتا ہے۔ انسان اپنی زندگی اور مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن قدرت کے فیصلوں کے آگے تمام منصوبے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ ’’سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں‘‘ کے مصداق انسان بسا اوقات خدا اور قدرت کو چیلنج کرنے لگتا ہے لیکن خدا کے وجود اور اس کی طاقت کا اس وقت قائل ہوجاتا ہے جب اس کے خواب بکھر جاتے ہیں ۔ تاریخ انسانی نے ہر دور میں اپنے وقت کے فرعون ، نمرود،ہامان اور شداد کو دیکھا ہے جو خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے لیکن ان کا انجام عبرتناک اور انسانیت کیلئے ایک سبق کی طرح تھا۔ ہر دور میں منکرین قدرت کے ساتھ قدرت کی انتقام کی مثالیں موجود ہیں۔ حق کا انکار کرنے والے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے زندگی کے آخری لمحات میں خدا کی وحدانیت اور طاقت پر ایمان لایا جبکہ بعض گمراہی اور نافرمانی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ بعض تو ایسے بھی گزرے جو عیش و عشرت کے سامان کے ساتھ دنیاوی جنت تو بنالی لیکن جنت میں قدم رکھنے سے قبل دنیا کو چھوڑنا پڑا۔ بعض کو آرام و آسائش کے محل نما حویلیوں اور عالیشان عمارتوں کے ساتھ قدرت نے گویا مہلت دی تاکہ راہِ راست پر آجائیں ۔ ہندوستان کی 70 سالہ آزادی کی تاریخ میں عوام نے کئی حکومتوں اور حکمرانوں کو دیکھا ہے۔ یقیناً ہر حکومت اور حکمراں کو رعایا پرور نہیں کہا جاسکتا۔ 15 اگست 1947 ء سے 2014 ء تک کے تمام حکمرانوں کو غنیمت کہیں تو غلط نہ ہوگا لیکن گزشتہ 6 برسوں میں ملک کے حکمرانوں نے جو گل کھلائے ہیں ، اسے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا بدترین اور سیاہ باب کہا جائے گا۔ اقتدار کے نشہ میں حکمراں بھول جاتے ہیں کہ خدا اور قدرت بھی موجود ہے اور جب قدرت گرفت پر آتی ہے تو اس کا انتقام اور سزا سخت ہوتی ہے۔ حکومت اور حکمراں مختلف خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی فراق میں ہوتے ہیں۔ حاکم وقت اگر عوام کی بھلائی کے بجائے کسی کی تباہی اور بربادی کی منصوبہ بندی کرے تو ایک مدت تک ڈھیل دی جاتی ہے اور جب ظلم حد سے تجاوز کرے تو قدرت ڈھیل کی رسی کو کاٹ دیتی ہے ۔ قرآن مجید میں فرمان خدا وندی ہے ’’تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک اللہ نہ چاہے‘‘ ۔ یعنی کسی بھی معاملہ میں جب تک خدا کی مرضی شامل نہ ہو کامیابی کا تصور محال ہے ۔ ان دنوں محض ایک وائرس نے ساری انسانیت کو خوف و دہشت کا شکار بنادیا ہے ۔ ہندوستان میں بھی کورونا کے قہر نے حکمرانوں کی نیند اڑادی ہے ۔ موجودہ حکمرانوں نے تین ماہ قبل تک بھی کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے۔ مسلمانوں کو طرح طرح سے نشانہ بنایا گیا اور غیر ملکی ثابت کرتے ہوئے حراستی مراکز میں رکھنے اور حق رائے دہی سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ شہریت ترمیمی قانون پارلیمنٹ میں منظور کرلیا گیا اور اب باری تھی
NPR
اور
NRC
کی ۔ مودی حکومت نے اپریل تا ستمبر ملک میں قومی آبادی رجسٹر
NPR
کی تیاری کا فیصلہ کرتے ہوئے 8400 کروڑ روپئے منظور کئے تھے۔ سیاہ قوانین کے خلاف سماج کا ہر طبقہ سڑکوں پر نکل آیا لیکن حکومت یکم اپریل سے این پی آر کے آغاز پر اٹل رہی۔ حکومت اور حکمرانوں کا غرور و تکبر قدرت کو پسند نہیں آیا اور ایک وائرس کے ذریعہ مودی اورامیت شاہ کے منصوبوں کو پارہ پارہ کردیا ۔ اس مرحلہ پر ہم اس آیت کو دہرائیں گے کہ ’’تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک اللہ نہ چاہے‘‘۔ حکومت کے ایوانوں میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی کے مشورہ اور منصوبے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ قانون قدرت ہے کہ جب کبھی ظلم حد سے گزرتا ہے تو فنا ہوجاتا ہے ۔ کہاں ہے این پی آر اور این آر سی پر عمل کرنے والے ؟ یکم اپریل سے این پی آر کی تیاری کیوں روک دی گئی ؟ سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کی کورونالوجی سمجھانے والے کدھر گوشہ نشین ہوگئے؟ ایک وائرس نے خود کو ’’شاہ‘‘ اور مرد آہن کا دعویٰ کرنے والوں کے خواب کو چکناچور کردیا ۔ اسی کو کہتے ہیں کہ قدرت کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ۔ یکم اپریل سے کیا کرنے والے تھے اور کیا ہورہا ہے ؟ مودی حکومت یکم اپریل سے مردم شماری کے نام پر این پی آر لاگو کرنا چاہتی تھی لیکن آج مردم شماری تو ہورہی ہے لیکن این پی آر کی نہیں بلکہ اس بات کی کہ کورونا پازیٹیو اور نیگیٹیو کتنے مریض ہیں اور وائرس سے کتنی اموات واقع ہورہی ہیں۔ گنتی کا کام تو جاری ہے لیکن نوعیت تبدیل ہوگئی۔ سیاہ قوانین کے خلاف خواتین اپنے معصوم بچوں کے ساتھ شاہین باغ میں احتجاج کرنے لگے تو ان کا مذاق اڑایا گیا لیکن حکمراں کیا جانتے تھے کہ مظلوموں کی آہ کا اثر وائرس کی شکل میں نمودار ہوگا۔ این پی آر اور این آر سی کو بھول جانا پڑے گا۔ الغرض قدرت کی مرضی کے آگے الٹی پڑگئیں سب تدبیریں۔ مسلمانوں کو غیر ملکی ثابت کرتے ہوئے ڈیٹینشن سنٹر میں رکھنے اور ملک بدر کرنے کے خواب دیکھے جارہے تھے لیکن قدرت نے بازی کو کچھ ایسا الٹ دیا کہ گنتی تو جاری ہے لیکن کورونا کے مریضوں اور مرنے والوں کی ۔ ڈیٹنشن سنٹر کی جگہ کورنٹائن سنٹرس نے لے لی ہے ۔ این پی آر کی وکالت کرنے والے خود کورونا کا شکار ہوکر دواخانوں میں زیر علاج ہیں یا پھر کورنٹائن میں وائرس سے بچنے کے لئے پناہ لے چکے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ ڈیٹنشن سنٹر کی اذیت کیا ہوتی ہے۔ حالات نے ایسی پلٹی کھائی کہ کس کی گنتی ہونے والی تھی اور کس کی ہورہی ہے۔ جس مدت میں این پی آر کا کام ہونا تھا ، وہ تین ماہ وائرس سے نمٹنے میں گزر گئے اور ہوسکتا ہے کہ مزید کئی ماہ تک کورونا کا قہر جاری رہے گا۔ این پی آر اور این آر سی کی کورونالوجی کی جگہ کورونا کی کورونالوجی نے حکومت اور حکمرانوں کو مصروف کردیا ہے۔

ملک کے وزیر داخلہ نے ایودھیا میں تین ماہ کے اندر فلک بوس رام مندر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا لیکن آج وہی وزیر داخلہ عملاً کورنٹائن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک کے وزیر داخلہ اس قدر بحران کے ماحول میں سرگرم کیوں نہیں؟ آخر ان کی اندرونی صحت کے حال پر راز کے پردے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے لوگ اپنی بیماریوں کو چھپاتے ہیں۔ ظاہر ہے وزیر داخلہ تو ملک کے ’’شاہ‘‘ ہیں، وہ بھی اپنے مرض کے بارے میں کھل کر اظہار کیوں کریں گے ۔ لاکھ چھپالیں لیکن کبھی نہ کبھی حقیقت حال منظر عام پر آئے گی۔ ویسے بھی وزیراعظم نریندر مودی ان دنوں کچھ بجھے بجھے اور چھپے چھپے دکھائی دے رہے ہیں۔ آخر انہیں کس وائرس نے خوفزدہ کردیا ہے۔ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی جو ملک پر حکمرانی کر رہی تھی، آج پس منظر میں جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ کورونا وائرس نے حکومت کے کام کو آسان کردیا ہے۔ لاکھوں مائیگرنٹ ورکرس کی اپنے آبائی مقامات واپسی میں این پی آر کا عمل مکمل کرلیا۔ اب چاہے تو حکومت قومی آبادی رجسٹر بآسانی تیار کرسکتی ہے کیونکہ ہر شخص اپنے آبائی مقام پہنچ چکا ہے۔ ایک معمولی وائرس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا اور یہ تاریخ انسانی کا انوکھا اور پہلا سانحہ ہے۔ کسی وباء کے سبب ساری انسانیت کا تھم جانا شائد پہلی مرتبہ ہے۔ لاک ڈاؤن کی ناکامیوں کے خلاف کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے حکومت کے خلاف مورچہ سنبھال لیا ہے۔ بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور حکومت راہول گاندھی کے سوالات کا جواب دینے کے موقف میں نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن میں سماج کا ہر طبقہ متاثر ہوا لیکن حکومت کی مہربانیاں صرف بڑے صنعتی اداروں پر ہے۔ مائیگرنٹ ورکرس پیدل اپنی منزل کیلئے نکل پڑے اور راستے میں کئی اموات واقع ہوئیz۔ لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہوگئے اور کئی خاندان فاقہ کشی کا شکار ہوئے لیکن ان تمام کی مرکز کو کوئی فکر نہیں ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ وائرس کے پھیلاو کو روکنے کیلئے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا لیکن اب وائرس کے کیسیس اور ہلاکتوں میں دن بہ دن اضافہ کے باوجود حکومت لاک ڈاؤن میں مسلسل رعایتیں دے رہی ہے۔ آخر مزید رعایتوں کا کیا جواز ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سرکاری خزانہ کو بھرنے کی فکر نے انسانی جانوں کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔ نامور شاعر پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ساری افسانہ گری خاک میں مل جائے گی
تجھ پہ کھل جائے اگر تیری حقیقت کیا ہے